چوتھے خلیفہ راشد، اخی مصطفی، ریق بحربلا، حریق نارولا،
مقتدائے جملہ اولیاء، اصفیاء سیدنا ابو الحسن علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ
بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ آپ کا نام آپ کے والد نے
علی اور والدہ نے حیدر رکھا، آپ کے والد کا نام ابی طالب اور والدہ کا نام
فاطمہ بنت اسد تھا (تاریخ الخلفاء، ص۱۷۸)آپ کی کنیت ابوالحسن تھی رسول اﷲ ﷺ
نے آپ کی کنیت ابوتراب رکھی (تاریخ الخلفاء، ص۱۷۸) یوں رسول اﷲﷺ سے آپ کو
قلبی ونسبی قرابت حاصل تھی۔ آپ پہلے ہاشمی تھے جو دو ہاشمیوں کے درمیان
پیدا ہوئے (یعنی آپ نجیب الطرفین ہاشمی ہیں) اور بنو ہاشم کے پہلے خلیفہ
تھے (شرح صحیح مسلم، ۶؍۹۵۶)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم عام الفیل کے ۳۰ برس بعد تیرہ رجب کو جمعہ کے
دن مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے (فیضان صوفیاء ص۶۰) جب آپ پیدا ہوئے تو رسول
اکرم ﷺ نے آپ کے منہ میں لعاب دہن ڈالا اور اپنی ’’ما ینطق عن الہوی‘‘ والی
مقدس زبان چوسنے کے لیے دی۔ آپ رضی اﷲ عنہ ، حضورﷺ کی زبان چوستے ہوئے نیند
کی آغوش میں چلے گئے اور جب تک اﷲ تعالیٰ نے چاہا آپ رسول اکرم کی زبان
چوستے رہے اور غذا حاصل کرتے رہے (السیر الحلبیہ، ۱؍۲۸۲)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت
’’اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا
وَّعَلَانِیَۃً (البقرۃ:۲۷۴)‘‘ ترجمہ: جو لوگ اپنے مالوں کو رات اور دن میں
پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں‘‘ حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی۔ حضرت علی کے
پاس چار درہم تھے ایک درہم رات میں خرچ کیا ایک دن میں ایک پوشیدہ طریقہ سے
اور ایک ظاہراً۔ (شرح صحیح مسلم، ۶؍۹۶۰) حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں
کہ جتنی احادیث سے حضرت علی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کسی دوسرے صحابی کی نہیں
ہوتی (تاریخ الخلفاء، ص۱۰)
جب نجران کے وفد کے سامنے رسول اﷲﷺ نے دلائل پیش کیے کہ حضرت عیسیٰ خدا ہیں
نہ خدا کے بیٹے ہیں اور اس مسئلہ میں عیسائیوں کے تمام شبہات کو مکمل طور
پر زائل کیا اور جب نبی ﷺ نے یہ دیکھا کہ وہ ہٹ دھرمی سے کسی دلیل کو نہیں
مان رہے توانہیں عاجز کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ان سے مباہلہ کرنے کا حکم
دیا۔’’کہہ دیجئے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی
عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ
پر) بلا لیتے ہیں پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کردعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر
اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں۔(آل عمران:۶۱)
اور جب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت مباہلہ نازل فرمائی تو رسول اﷲﷺ حضرت حسین رضی
اﷲ عنہ کو اٹھائے ہوئے اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور
حضرت فاطمہ اور حضرت علی آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔ (تبیان القرآن، ۲؍۱۸۷)
یعنی مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو نفس رسول کا خطاب ملا ۔
حضرت سیدنا علی المرتضی کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے آپ کے فضائل ومناقب
بے شمار ہیں حضور اکرم ﷺ کی آپ سے محبت بے مثال تھی حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت رکھنے کا حکم دیا ہے جن میں سے
ایک حضرت علی ہیں (سیرت حضرت علی، ص۱۴)
حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جتنی احادیث نبویہ سے
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کسی دوسرے صحابی کی نہیں ہوتی۔
(تاریخ الخلفاء، ص۱۸۰)
حضرت علی کے فضائل ومناقب میں چند احادیث درج ذیل ہیں
ٔ٭حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’جس کا میں مولا
ہوں اس کا علی مولا ہے (ترمذی، ۶؍۷۹)
٭ عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ علی کے
متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تو لوگ علی کے
متعلق کیا چاہتے ہو؟ پھر فرمایا بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں
اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے۔‘‘ (نسائی، ۷۷:۹۲)
٭ رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں علی کا اس کا دروازہ ہے
(بخاری، ۲؍۲۱۴)
٭حضرت عمر بن میمون، حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث
روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی
کرم اﷲ وجہہ لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لائے (مسند احمد، ۱؍۳۳)
٭حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے اس ذات کی قسم! جس نے دانا اگایا
اور جان پیدا کی، حضور نبی اکرمﷺ نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ مومن تجھ سے (علی
رضی اﷲ عنہ) سے محبت رکھے اور منافق بغض رکھے گا۔ (تاریخ الخلفاء ﷺ۱۸۱)
آپ کے زہد وتقوی اور عجز وانکساری کا یہ عالم تھا کہ حضرت زید بن وہب کہتے
ہیں کہ ایک دن حضرت علی ہمارے پاس باہر آئے اور انہوں نے ایک چادر اوڑھی
ہوئی تھی اور لنگی باندھی ہوئی تھی جس پر پیوند لگا رکھا تھا۔ کسی نے ان سے
اتنے سادہ کپڑے پہننے کے بارے میں کچھ کہا تو فرمایا میں یہ دو سادہ کپڑے
اس لیے پہنتا ہوں کہ میں ان کی وجہ سے اکٹر سے بچا رہوں گا اور ان میں نماز
بھی بہتر ہوگی اور مومن بندے کے لیے یہ سنت بھی ہے (حیاۃ الصحابہ، ۲؍۳۱۸)
حضور نبی غیب دان ﷺ کی جوہر شناس نگاہوں نے حضرت علی کی خداداد قابلیت
واستعداد کا پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے حضرت
علی کرم اﷲ وجہہ کے باب مدینۃ العلم (یعنی جملہ علم وحکمت کے شہر کا
دروازہ) کی سند مل چکی تھی چنانچہ حضرت علی کے مقام علم وفضل کے متعلق حضور
امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ فرماتے ہیں کہ میں جملہ علم وحکمت کا شہر
ہوں اور حضرت علی اس علم وحکمت کے شہر کے مرکزی دروازہ ہیں (الحاکم
النیشاپوری، ۳؍۱۲۶) آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید میں
کوئی ایک ایسی آیت نہیں ہے جس کے متعلق میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے
میں اور کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ فقہ میں آپ کی ذات گرامی صحابہ
کرام کے لیے مرجع تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت
علی رضی اﷲ عنہ نے تمام غزوات (بدر، احد، خندق، بنی قریظہ اور حنین وخبیر
وغیرہ) میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے علاوہ ازیں متعدد سرایا میں آپ کو
کمانڈر بنا کر بھیجا گیا جنہیں آپ نے کامیابی کے ساتھ انجام کو پہنچایا۔
حضورﷺ کی وصال پرملال کے بعد آپ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم
رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں آپ مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ اور سیدنا عثمان
رضی اﷲ عنہ کی بھی آپ نے آخر تک حمایت فرمائی۔
صحابہ کرام میں علم وحکمت، فہم وفراست اور فقاہت وثقاہت کے اعتبار سے حضرت
علی کا مقام ومرتبہ بہت اونچا اور بلند تر ہے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضور
نبی کریمﷺ سے تقریباً پانچ سو چھیاسی 586احادیث مقدسہ روایت کی ہیں (تاریخ
الخلفاء ص۱۷۹) آپ کے علمی نکات ، فتاوی اور بہترین فیصلوں کا انمول مجموعہ
اسلامی علوم کے خزانوں کا قیمتی سرمایہ ہے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ خود مجتہد
اور فقیہ تھے لیکن آپ سے بھی استفادہ کرتے تھے۔
ایک دفعہ دو آدمی ایک قریشی عورت کے پاس آئے سودینار اس کے پاس بطور امانت
رکھے اور یہ وعدہ کیا کہ جب تک ہم دونوں اکٹھے نہ آئیں ہم میں سے یہ امانت
کسی کو نہ دینا ایک سال گزر گیا ان میں سے ایک آدمی آیا اور کہا: ’’میرا
ساتھی مرگیا ہے وہ دینار مجھے دو‘‘ اس نے انکار کردیا وہ اس کے خاندان اور
پڑوسیوں کو اس کے پا س لایا اور وہ اسے مجبور کرتے رہے حتیٰ کہ اس عورت نے
وہ دینار اسے دے دیئے اگلے سال دوسرا آدمی اایا اور دینار مانگے اس نے اسے
بتایا :’’تمہارا ساتھی یہ کہہ کر درہم لے گیا کہ تمہاری وفات ہوچکی ہے‘‘
معاملہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے فیصلہ فرمانا
چاہا وہ عورت کہنے لگی ’’ہمارا مقدمہ حضرت علی کی عدالت میں منتقل کردیں‘‘
حضرت عمر نے یہ مقدمہ حضرت علی کے سپرد کر دیا آپ سمجھ گئے کہ یہ فراڈ
کررہے ہیں آپ نے فرمایا ’’کیا تم دونوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم سے کسی
ایک کو یہ مال نہ دینا ؟‘‘ اس نے کہا کیوں نہیں !۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
تمہارا مال ہمارے پاس ہے جاؤ اپنے ساتھی کو لے کر آؤ تاکہ تمہیں ادائیگی کی
جاسکتے وہ آدمی گیا لیکن پھر واپس نہ پلٹا (فیضان صوفیاء۶۲)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم میدان جنگ میں تلوار کے دھنی، مسجد میں زاہد ِ
شب بیدار تھے، مفتی وقاضی اور علم وعرفان کے سمند تھے۔ عزم وحوصلہ میں ضرب
المثل، خطابت وذہانت میں بے مثل، حضورﷺ کے عم زاد بھائی اور داماد، فضائل
وفضیلتیں بے شمار، سخی وفیاض، دوسروں کا دکھ کا بٹانے والے، عابد وپرہیز
گار، مجاہد وجانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا ترک کی اور نہ آخرت سے کنارہ کشی
فرمائی۔
شاہِ خیبر شکن امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کی بے مثال ہمت وشجاعت اور
شہرہ آفاق جرات وبہادری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب وعجم میں آپ
کی قوتِ بازو کے سکے بیٹھے ہوتے تھے۔ آپ نے غزوات وسرایا میں بڑے بڑے
بہادروں اور شہسواروں کو اپنی مایہ ناز ’’ذوالفقار حیدری‘‘ سے موت کے گھاٹ
اتارا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی نے
چار سال آٹھ ماہ نو دن تک مسند خلافت پر رونق افروز رہے۔ جنگ نہروان کا
بدلہ لینے کے لیے خارجیوں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہ الکریم ، حضرت
امیر معاویہ ، حضرت عمر بن العاص رضی اﷲ عنہما کے قتل کا منصوبہ بنایا اور
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو شہید کرنے کی ذمہ داری ابن ملجم نے قبول کی اور ۱۷
رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو فجر کی نماز کے وقت میں امیر المومنین سیدنا حضرت
علی کرم اﷲ وجہہ الکریم پر زہر آلود خنجر سے حملہ کیا آپ زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے ۲۱ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ سیدنا
امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ |