رویت ہلال اور آج کی دنیا

محمد عبد المبین نعمانی مصباحی،چریاکوٹ
رمضان شریف اور عید کے موقع پر چاند کے تعلق سے بڑی ہنگامہ آرائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کچھ تو عوام کے مسائل شریعت سے ناواقفی کی وجہ سے اور کچھ کم پڑھے لکھے اور غیر محتاط علماء و ائمہ مساجد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ محض ریس کی وجہ سے قوم میں اختلاف برپا کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام میں ان کی واہ واہی ہو، اور عوام ان کی جھولی میں جاتے نظر آئیں۔

علماء اور ائمہ کو خاص طور سے سے رمضان شریف قریب آتے ہی فقہی کتابوں میں رویت ہلال کے مسائل کو دیکھ لینا چاہیے، اس سے مسائل کے حل میں بڑی آسانی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ خاص طور سے موبائل فون،واٹس اپ،فیس بک وغیرہ نے بڑے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ فقہ و فتاویٰ کے ماہرین کو چاہیے کہ اس سلسلے میں شرعی اصولوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر بھی توجہ دے کر مسائل کا حل نکالیں اور بہرصورت عوام الناس کو چاہیے کی علماء و مفتیانِ کرام کے فیصلوں کا احترام کریں۔شریعت میں اپنی رائے کو دخل دینے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔

ماہ شوال یعنی عید الفطر کے ثبوت کے لیے شریعت نے سخت اصول رکھے ہیں، لیکن ماہ رمضان المبارک کے چاند کے ثبوت کے لیے تخفیف کا اصول ہے۔ اس کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ‘‘بہارِ شریعت’’میں فرماتے ہیں: ہر گواہی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ‘‘گواہی دیتا ہوں’’کہ بغیر اس کے شہادت نہیں مگر ابر میں رمضان کے چاند کی گواہی میں اسے کہنے کی ضرورت نہیں،اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے اس رمضان کاچاندآج یاکل یا فلاں دن دیکھا ہے۔ یوں ہی اس کی گواہی میں دعویٰ، مجلسِ قضا،حاکم (قاضی) کا حکم بھی شرط نہیں، یہاں تک کہ اگر کسی نے حاکم کے یہاں گواہی دی تو جس نے اس کی گواہی سنی اور اس کو بظاہر معلوم ہوا کہ یہ عادل ہے،اس پر روزہ رکھنا ضروری ہے۔اگر چہ حاکم کا حکم(قضا کا فیصلہ) اس نے نہیں سنا ہو مثلاً حکم دینے سے پہلے ہی چلا گیا ہو۔

اور فرماتے ہیں: ’’ابر اور غبار میں رمضان کا ثبوت ایک مسلمان،عاقل، بالغ، مستور یا عادل شخص سے ہوجاتا ہے۔وہ مرد ہو خواہ عورت، آزاد ہو یا باندی،غلام یا اس پر تہمت ِزنا کی حد ماری گئی ہو، جب کہ توبہ کر چکا ہو۔

عادل ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ کم سے کم متقی ہو، یعنی کبائر (بڑے گناہ) سے بچتا ہو اور صغیرہ(چھوٹے گناہ) پر اصرار نہ کرتا ہو اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو۔ مثلاً، بازار میں کھانا وغیرہ۔

فاسق اگرچہ رمضان کے چاند کی گواہی دے اس کی گواہی قابل قبول نہیں،رہا یہ کہ اس کے ذمہ گواہی دینا لازم ہے یا نہیں۔اگر امید ہے کہ اس کی گواہی قاضی قبول کر لے گا،تو اسے لازمی ہے کہ گواہی دے۔

مستور یعنی جس کا ظاہر حال مطابق شرع ہے، مگر باطن کا حال معلوم نہیں، اس کی گواہی بھی غیر رمضان میں قابل قبول نہیں۔ (درمختار)

جس عادل شخص نے رمضان کا چاند دیکھا اس پر واجب ہے کہ اسی رات میں شہادت ادا کر دے یہاں تک کہ اگر لونڈی یا پردہ نشین عورت نے چاند دیکھا، تو اس پر گواہی دینے کے لیے اسی رات میں جانا واجب ہے۔ یوں ہی آزاد عورت کو گواہی دینے کے لیے جانا واجب ہے۔ اس کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، مگر یہ حکم اس وقت ہے جب اس کی گواہی پر ثبوت موقوف ہو کہ بے اس کی گواہی کے کام نہ چلے گا ورنہ کیا ضرورت؟
(بہار شریعت، حصہ ۵،صفحہ ۷۰۱ (ایک سو سات)فاروقیہ بک ڈپو، دہلی)

رویت کے باقی مسائل با ر شریعت حصہ ۵؍ میں دیکھیں۔

مذکورہ مسائل صاف بتاتے ہیں کہ رمضان کے چاند کے لیے وہ شدید حکم نہیں ہے جو عید کے چاند کے لیے ہے۔آج کل چاند کے سلسلے میں جو اتھل پتھل ہے غور کیا جائے تو اس کا حل یوں با آسانی نکل سکتا ہے کہ حضور نے فرمایا؛ صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبّی علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلٰثین۔ (صحیح البخاری،کتاب الصوم،حدیث،1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روز ہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو،پھر اگر چاند (ابر یا غبار کی وجہ سے) چھپا رہ جائے،دیکھنے میں نہ آئے تو شعبان کی تیس تاریخیں پوری کرو۔

آج سے تیس چالیس سال پیشتر جب موبائل وغیرہ آلات عام نہیں ہوئے تھے۔تو اس وقت ریڈیو سے ضرور اعلان ہو جاتا تھاکہ فلاں جگہ چاند دیکھا گیا،فلاں جگہ چاند کا اعلان کیا گیا۔ لیکن محض ریڈیو کے اعلان پر پورے ہندوستان میں نہ کہیں روزہ رکھا جاتا تھا نہ کہیں عید منائی جاتی تھی۔شاذ ونادر کچھ اختلاف پسند حضرات اس وقت بھی مقابلے اور شہرت کی دھن میں کہیں کہیں چاند ہونے کا اعلان کر دیتے تھے لیکن ان کی بہت کم سنی جاتی تھی۔زیادہ تر مسلمان خود چاند دیکھنے یا شرعی گواہی کی بنیاد پر اعلان کا اعتبار کرتے۔آج واٹس اپ اور انٹر نیٹ کے زمانے میں بھی اسی روش پر چلا جائے تو اختلافات بہت حد تک دور یا ختم ہو سکتے ہیں۔ایسے موقعے پر آج بھی اگر ان آلات کا سہارا لے کر کچھ قریب پاس کی گواہیاں لے کر علما اور شرعی قاضی حضرات اعلان کریں تب بھی اختلافات کی زیادہ گنجائش نہیں رہے گی۔ لیکن واٹس اپ یا انٹر نیٹ کے ذریعہ بہت دور کے صوبہ جات یا علاقے سے خبریں لے کر بے باکی کے ساتھ اعلان کر دینا اور امت میں اختلا ف کا بیج بو دینا میں نہیں سمجھتا کہ دین کا کوئی بڑا یا اہم کام ہے۔

اس سال رمضان1439 ہجری مطابق 2018کے چاند میں کچھ ریس ہی کا معاملہ رہا،کیو ں کہ آسام، بنگال،اڑیسہ،بہار،جھارکھنڈ،اترپردیش، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش،مہاراشٹر اور راجستھان اور دوسرے بہت سے صوبہ جات میں جن میں اکثر مقامات پر مطلع بالکل صاف تھا،بالکلیہ چاند نظر نہیں آیا۔ اس کے باوجود تامل ناڈو،کرناٹک کیرلا کے بعض چھوٹے مقامات کی خبریں انٹرنیٹ کے ذریعہ لے کرکے مذکورہ سارے صوبہ جات میں چاند کا اعلان کرکے ہنگامہ بپا کر دینا نہ دانش مندی ہے نہ شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآری۔ اور شریعت نے ہمیں اس کا مکلف بھی نہیں کیا ہے کہ ہم کھینچ تان کر چاند کا اعلان کرکے پُر امن ماحول کو خراب کریں اور گروہی عصبیت کا ثبوت دیں۔

حضور کا جو فرمان ذکر کیا گیا اس سے اس بات کا بھی جواب ہو گیا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک ہی دن روزہ اور ایک ہی دن عید ہونا چاہیے، یہ سوچنا بالکل غلط ہے، شریعت نے اور اسلام نے ہمیں اس کا کہیں حکم نہیں دیا ہے۔ اور اس میں دشواریاں بھی بہت ہیں اور حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ان الدین یسر الخ‘‘(بخاری)
ترجمہ: دین آسان ہے۔لہٰذا سرکارﷺ کے فرمان پر چلنے ہی میں عا فیت اور آسانی ہے۔

کچھ لوگ پورے ملک میں ایک ساتھ روزہ اور ایک ساتھ عید کی بات کرتے ہیں، بظاہر اُن کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں، ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ساتھ روزہ اور عید کی بات کرنی چاہیے۔ بظاہر یہ بات بھی بہت اچھی معلوم ہوتی ہے مگر ا س میں فنی اور ٹیکنیکل کتنی خرابیاں او ر دشواریاں پیش آئیں گی، اس کا اندازہ کچھ پڑھے لکھے لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ عوام الناس کو تو یہی چاہیے کہ شریعت کے معاملے میں اپنی رائے اور اپنے مشوروں کو اپنے پاس ہی رکھیں تو بہتر ہے،افسوس کہ آج ہر آدمی بے پڑھے لکھے عالم اور مفتی بننے کا خوا ب دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو شریعت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے،اور شریعت کی فراہم کردہ سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ اپنے ثقہ علماء اور شرعی قاضیوں کی رہنمائی اور فیصلوں پر عمل کرنے کا سچا جذبہ عطا فرمائے،آمین۔

محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی
نعمانی منزل، چریاکوٹ، ضلع مئو
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281439 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.