سابق چئرمین پریس کلب سمبڑیال ذیشان اشرف بٹ کے قتل کو
کئی ماہ بیت گئے ۔مرکزی ملزم عمران اسلم چیمہ (چئرمین یوسی بیگوالہ) تاحال
گرفتار نہیں ہوسکا۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد امید ہوچلی تھی
کہ شائد اس کیس کا انجام کچھ الگ ہو ، لیکن افسوس کہ عدالت کے بار بار
پولیس کو جلد ازجلد قاتل کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے احکامات کے
باوجود قاتل مفرور ہے ۔ ڈی پی او سیالکوٹ اسد سرفراز اپنے پیشہ وارانہ
فرائض میں بڑے مخلص اور متحرک افسر ہیں۔ اس کے باوجود ملزم اس قدر چالاک یا
اثرورسوخ کا مالک ہے کہ اب تک پولیس اس کا سراغ لگانے میں ناکام ہے ۔
صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید کئے جانے والے ذیشان اشرف کاکیس
پورے ملک کی صحافی برادری کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اگر ریاست کا چوتھا ستون
اپنے ورکرز کو انصاف فراہم نہیں کرسکتا تو عام آدمی جس کی پہلی امید ہی
میڈیاء ہوتا ہے وہ کہاں جائے گا ؟۔اچھی بات یہ ہےکہ مقامی پریس کلب سمیت
پورے ملک کا الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اب تک اس معاملے کو زندہ رکھے ہوئے ہے
۔
سمبڑیال کے نامور صحافی اور ذیشان کے قریبی دوست ناصر وڑائچ کا کہناہے "
ذیشان اشرف بٹ کا قتل ایک بہت بڑا سانحہ ہوا ہے۔ ہم ابھی تک صدمے میں ہیں۔
شانی کے قتل کے حوالے سے بحثیت ساتھی ہم نے اپنی زمہ داریاں پوری کی ہیں
اور میں سمجھتا ہوں پولیس بھی وسائل میں رہتے ہوئے اپنی زمہ داریاں پوری کر
رہی ہے"۔
ذیشان شہید کے بڑے بھائی چئیرمین مصالحتی کمیٹی عرفان اشرف بٹ سے جب میری
اس سلسلے میں گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ "پولیس نے درست طریقے سے
تفتیش نہیں کی ، اور جو ملزمان گرفتار کئیے بھی تو بڑی جلدبازی میں ان کا
چالان کرکے انہیں جیل بھجوا دیاگیا ۔ ابھی ڈی پی او صاحب نے تفتیشی افسر
تبدیل کیا ہے اور ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ہے "۔
چئیرمین پریس کلب سمبڑیال ناصرگھمن صاحب اور،چئیرمین پریس کلب سیالکوٹ انور
حسین باجوہ صاحب بھی کافی متحرک ہیں ۔ اس سارے معاملے کوبغور دیکھیں
پاکستان کا مشہور ترین کیس ہے ، چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لے رہے ہیں ،پولیس
کو جلد ازجلد گرفتاری کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں ۔اس کے باوجود پولیس
اصل ملزم کو گرفتار نہیں کرپاتی ، ملزم بآسانی ملک سے فرار ہوجاتا ہے ۔ تو
اس کے ذمے دار کون ہیں؟۔پولیس خود دباو میں نظر آتی ہے ۔قارئین کرام ذرا
غور کیجئے قتل ہونے والا ناصرف ملک کے سب سے بڑے اخبار کا صحافی ہے بلکہ
پریس کلب کا سابقہ چئیرمین بھی رہ چکاہے ۔ اس کے باوجود اس کے ورثاء انصاف
کے لیے دربدر پھر رہے ہیں تو ایسے میں عام آدمی کس قدر مسائل کا شکار ہوگا
ذرا اندازہ کیجئے ۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز کی عدالت کے باہر کتنی اہمیت
ہے یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ ایک جج کا کام فیصلہ دینا ہوتا ہے
لیکن بہرحال اس پہ عمل درآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے ، اور حکومت جب
تک اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گی ذیشان جیسے نوجوان قتل ہوتے رہیں گے ۔ |