پاکستانی قوم کی اندرونی کہانی

پاکستانی قوم چاہے بظاہر ایک قوم ہے مگر اندرونی طو رپر پاکستانی کہیں اعتباروں سے تقسیم ہیں ۔کہیں منسلک اور فرقے کے نام پر تقسیم ہے تو کہیں صوبے اور علاقے کے نام پر کہیں زبان کے نام پر تقسیم ہے تو کہیں دیہاتی اور شہری تقسیم ہے مگر اس معاشرے میں شدید نفسیاتی مسائل پیدا کیے ہیں ہم نے پاکستان کے قیام کے لئے اور اس کو چلانے میں پاکستانی ہندوں کو مسلسل نظر انداز کیا، ہم نے ان کی اپنی دھرتی سے وفاداری کا کبھی کھل کر اعتراف نہیں کیا۔ پاکستانی کرسچن کا پاکستان کے ہر شعبے میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال اور اسکول چلاتے ہیں۔ وہ اساتذہ، ڈاکٹر، نرسز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے اُن کو چوہڑہ کہا مگر وہ ماتھے پر بل لائے بغیر پاکستان کی گلیوں اور گھروں کو صاف کرتے رہے۔ ہم نے اُنہیں اپنے برتنوں میں پانی تک نہیں پینے دیا مگر اُنہوں نے اس ہتک کے خلاف کسی بھی متشدد تنظیم بنانے کا اعلان نہیں کیا ۔ا س ملک میں برابری کے حقوق حاصل ہیں افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہم نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنے تعصب اورا متیازی سلوک کو مذہبی رنگ دے رکھا ہے ہم نے اسلامی تاریخ سے صرف اپنی مرضی کے حوالہ جات نکال کر اپنے آئین میں شامل کیے ہیں۔اب تو مذہبی لیڈر بھی نفرت پیھلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اکثر ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ بے گناھوں پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے ۔ غیر مسلم تو الگ مسلمان کا اپنا وجود ایک ایسے طبقے سے سخت خطرے میں ہے، توہین رسالت کا الزام ایسا ھتیاربن چکا ہے جو ہر کوئی اٹھا کر پھر سکتا ہے اور اس کا لائسنس تو الگ رہا اس کا استعمال پل بھر میں ایک تیسرے درجے کے مجرم کو ایسا ہیرو بنا دیتا ہے جس کی طرف نظر بھر کر دیکھنے والا بھی واجب القتل ہو جاتا ہے۔ اس معاشرے میں ہونے والی نا انصافی اور سلوک کا ذمہ دار اپنی رنگت کو بھی سمجھنے لگے ہیں ۔تقسیم کا سلسلہ ہوتا جارہا ہے نفرت پھلتی جا رہی رشتوں میں تضاد ہوتاجارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی غیرت اُس وقت جاگتی ہے جب اُنہیں لگے کہ عورت اپنے معاملات کا اختیار اپنے پاس رکھنے لگی ہے اور جب وہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتی ہے۔تو ہماری دینی اور ملی حمیت اُس وقت نہیں جاگتی جب اس معاشرے میں غریب عورت کے حقوق پامال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں چادر، پردہ، چاردیواری اُس وقت یاد نہیں آتے جب عورت دوسرے کے گھروں میں جھاڑو دینے اور برتن مانجھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اور جب وہ کھیتوں میں کام کرتی ہے اور سڑکوں پر روڑی کوٹتی ہے اور جب وہ گلی کے کوڑے میں سے کھانا تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ ہم عورت کو اسلامی فرائض اُس وقت یاد کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم پر اپنا کنٹرول رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔ ہمیں عورت کے حقوق اُس وقت یاد نہیں آتے جب عورت کو مرضی کرنے سے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جب چھوٹی بچیوں کو پیسوں کے عوض بوڑھے آدمیوں سے بیاہ دیا جاتا ہے۔ تو کہیں شکل وہ صورت کو دیکھا جاتا ہے۔بالخصوص جب کوئي رشتہ آتا ہے۔ اس صورت حال میں وہ غیر معیاری، غیر ضروری اور انتہائی خطرناک رنگت گورا کرنے والی کریموں کا رخ کرتی ہے۔دراصل ہمیں بھی اپنے رویے پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ لڑکا چاہے معمولی شکل و صورت کا ہی کیوں نہ ہو، بلکہ بدصورت ہی کیوں نہ کہلائے، شرط اس کی بھی گوری لڑکی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بیٹوں کی تربیت کریں اور ڈگری والی نہیں بلکہ حقیقی دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں کالے و گورے کے احساس سے باہر نکالیں۔

Hafiz Gadal
About the Author: Hafiz Gadal Read More Articles by Hafiz Gadal: 6 Articles with 8165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.