اے سی آر سرکاری ملازمین کو کرتی ہے خوار؟

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لومڑی بھاگتے ہوئے جا رہی تھی ۔ راستے میں کسی دوسرے جانور نے اُس سے پوچھا: ارے لومڑی ! تُم کیوں بھاگ کر جارہی ہو؟ لومڑی نے جواب دیا: ہمارا سردار شیر بیمار ہے۔ طبیبوں نے مشورہ دیا ہے کہ اُونٹ کے گلے کا خون اُسے پلایا جائے تووہ تندرست ہو جائے گا۔ دوسرے جانور نے کہا: اُونٹ کہاں اور آپ کہاں ؟ آپ کیوں بھاگتی جارہی ہیں؟ لومڑی نے کہا: اگر میرے رقیبوں نے کَہ دیا کہ یہ اُونٹ ہے تو میری گردن کاٹ دی جائے گی۔ بعد میں تحقیقات ہوں گی کہ میں لومڑی تھی یا اُونٹ؟ یہ سُن کر دوسرے جانور نے بھی لومڑی کے ساتھ دوڑ لگا دی۔
جب حکمران ظالم اور ناانصافی کرنے والے ہوں تو اُن سے اسی طرح کی توقُّع رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی اِس سے ملتی جُلتی کہانیاں روز پیش آتی رہتی ہیں جہاں پر مظلوم اور بے کس طبقے کو ناکردہ گُناہوں کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ خاص طور پر سرکاری ملازمین میں سے وہ طبقہ جن کا سیاسی اثر ورسوخ نہیں ہوتا اوروہ مالی اعتبار سے بھی کچھ نمایاں حیثیت کے مالک نہیں ہوتے، اُنہیں اس قسم کے ظُلم و ستم کا سامنا باربار کرنا پڑتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف محکموں کا نظام بہتر انداز سے چلانے کے لئے چند قواعد و ضوابط کا ہونا ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اُن قواعد وضوابط پر ایمانداری اور ذمہ داری سے درست عمل درآمد بھی کیا جائے۔ پنجاب کے سول سرونٹس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے ACRs (Annual Confidential Report)کاروا ج عرصہ دراز سے جاری ہے۔ 2013ء سے انہیں PERs (Performance Evaluation Report)کہا جانے لگاہے۔تمام ملازمین کی ACRsہر سال کے اختتام پر اُن کے سربراہان تیار کر کے حکام بالا کے دستخط کروانے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ جو بعد ازاں متعلقہ اداروں کے دفاتر میں بھیج دی جاتی ہیں ۔ جن ملازمین کی ترقی کی باری آجائے تو اُن کی ACRsاُن کے حوالے کر دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی فائلیں متعلقہ اتھارٹی کے پاس جمع کرواسکیں۔بظاہر تو یہ ایک سادہ سا عمل ہے لیکن اس میں بہت سی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ ACRsدفتر کا صیغہء راز میں رکھا گیا ریکارڈ ہوتی ہیں لیکن پروموشن کے وقت وہ ریکارڈ متعلقہ ملازم سے طلب کیا جاتا ہے جو کہ سراسر خلاف قانون ہے۔اگر کسی ملازم کیACRsمتعلقہ دفتر سے برآمد نہ ہوسکیں تو اُس کی ذمہ داری اُس ملازم پر عائد کر دی جاتی ہے۔ اگر پروموشن کے وقت متعلقہ ملازم کے ذمہ ہی ACRsکی فراہمی مناسب ہے تو کیوں نہ ہر سال کی ACRsسالانہ بنیاد پر اُس کے حوالے کر دی جائیں تا کہ بوقت ضرورت وہ اپنی ACRs متعلقہ اتھارٹی کے پاس جمع کرواسکے۔
اگر کوئی رپورٹنگ آفیسر کہیں ٹرانسفر ہو کر چلا جائے اور اس کے دَور کی ACRدرکار ہو تو سرکاری ملازم کو دور دراز کا سفر کر کے اُس کے پاس بعض اوقات کئی کئی چکر لگانا پڑسکتے ہیں۔ اگر تو رپورٹنگ آفیسرکوئی شریف النفس انسان ہو تو وہ خوش دلی سے اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازم کی ACRلکھ دیتا ہے۔ اگر رپورٹنگ آفیسر اس کے بر عکس ہو تو سرکاری ملازم کوچھٹی کا دودھ بھی یاد آجاتا ہے اور اُسے دن کے وقت تارے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔بعض اوقات سرکاری ملازمین اپنی ACRsجمع کرنے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں جب اُس کے دیگر ساتھی اگلے گریڈ میں ترقی پا چُکے ہوتے ہیں۔
یہ تو حال تھا اُن کی ACRsکا جو صحیح لکھی گئی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی رپورٹنگ آفیسر کسی ماتحت کی ACR صرف بدنیتی اور مخاصمت کی وجہ سے خراب کرنا چاہے تو اُس کو کوئی ضابطہ یا قانون اس سے باز نہیں رکھ سکتا۔ وہ اس بارے میں لا محدود اختیارات کا حامل تصور کیا جاتاہے اور ماتحت کے کسی عذر کو درخوراعتناء نہیں سمجھا جاتا۔ اور افسران بالا بھی اس بارے میں اُس کی کوئی دادرسی نہیں کرتے اور وہ سب بھی رپورٹنگ آفیسر کو حق پر ہی قرار دیتے ہیں،خواہ وہ انتہائی کم ظرف طبیعت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
عام طور پر ACRsصرف اُن ملازمین ہی کی خراب ہوتی ہیں جن کا کوئی سیاسی اثر ورسوخ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ قابل قدرمالی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر کسی با اثر ملازم کی ACRs خراب ہوں تو اس کی سفارش کے لئے حکام بالا بھی بروقت حرکت میں آجاتے ہیں اور بر وقت اقدام کر کے اُس کی ACRsکو درست کروالیا جاتا ہے۔ عام طور پر کرپٹ اور نااہل ملازمین کی ACRs ہمیشہ شاندار لکھی جاتی ہیں جبکہ کمزور ملازمین کی ACRs عُمدہ کارکردگی کے باوجود ذاتی پسند یا نا پسند کی بناپر خراب قرار پاتی ہیں۔
میرا اس تمہید کا مقصد اپنی ACRs کی روداد بیان کرنا ہے اور میرے ساتھ انs ACRکی وجہ سے جو بد سلوکی کی گئی اور جس اذیت کا سامنا مجھے کرنا پڑا ، اُس کی وضاحت کرنا ہے تاکہ انصاف پسند ارباب اختیار انصاف کے حُصول میں میری داد رسی کر سکیں اور آئندہ کے لئے ACRsکے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کرسکیں۔
سخت ترین نامساعد حالات میں بچپن اور جوانی کے ایام میں تعلیم مکمل کرنے کے بعدپنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 2008ء میں میری گریڈ سترہ میں بطور ماہرمضمون عربی تقرری ہوئی اورپنجاب بھر میں میری تیسری پوزیشن آئی۔ میں نے14مئی 2008ء کوگورنمنٹ کالج فارایلیمنٹری ٹیچرز چنیوٹ کے پرنسپل صاحب کو خالی آسامی پر تعیناتی کے لئے تحریری درخواست پیش کی اور انہوں نے مجھے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنواکر لانے کے لئے جھنگ بھیج دیا۔ دو دن میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنوانے میں کامیاب ہونے کے بعد میں کالج پرنسپل کی خدمت میں پیش ہو گیالیکن پرنسپل صاحب میری جائننگ کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لینے لگے اور عُذر یہ پیش کیا کہ جب تک DSDلاہور سے NOCنہیں آئے گامجھے جائن نہیں کیا جائے گا حالانکہ اس سے پہلے اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں نے اس آسامی پر اپنے آرڈر کروالئے تو وہ مجھے جائن کر لیں گے۔ پورا ہفتہ اسی کشمکش میں گُزر گیا۔ صبح سے شام تک میں اذیت سہتا گھر کو
۱
سُدھار جاتا۔ 20مئی 2008ء کو میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے DSDلاہور سے پرنسپل صاحب کو فون کروایا۔ پرنسپل صاحب نے مجھے بُلاکر میری درخواست پر یہ جملہ تحریر فرمایا کہ
ٹیلیفونک اجازت ملنے پر مجھے 21مئی 2008ء سے جائن ہونے کی اجازت ہے۔ اگر پرنسپل صاحب انصاف سے کام لیتے تومجھے 14مئی 2008ء سے جائن ہونے کی اجازت دے سکتے تھے یا کم از کم جس دن ٹیلفونک اجازت ملی تھی،اُس دن ہی کو جائن کرلیتے حالانکہ میرے ساتھ منتخب ہونے والے ایک دوست کی جائننگ 11مئی 2008ء سے ہوئی تھی۔
میں نہایت ایمانداری اور جوش وجذبہ کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دینے لگا۔ مجھے لائبریری کااضافی چارج بھی سونپ دیا گیا۔میں نے گرمی کی چھٹیوں میں تمام لائبریری سٹاک کی پڑتال کی اور دیمک زدہ اور خراب شُدہ کتب اور گُمشدہ کتب کی فہرستیں تیار کیں۔ جبکہ اس سے پہلے یابعد میں لائبریری کے سٹاک کی ایسی پڑتال پھر کبھی نہ ہوئی۔ کالج پراپرٹی کے بارے عدالت میں جاری مقدمہ کا چارج بھی مجھے سونپ دیا گیا۔ مشقت والے تمام اضافی کام میرے سپرد کر دئیے جاتے اور میں اُنہیں نہایت جانفشانی سے سر انجام دیتا رہا ۔ 2009ء میں اپریل کے آخر میں پرنسپل صاحب نے مجھے انٹر کے سالانہ امتحان پہ بطور سپرنٹنڈنٹ ڈیوٹی ادا کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ میں نے اس ڈیوٹی کے لئے درخواست اُن کے دستخط کرواکر بھیجی تھی ۔ پرنسپل صاحب نے مجھے اس ڈیوٹی پر جانے سے روک دیا اور اسی امتحان پر ہمارے ایک فیکلٹی ممبر کو اسی ڈیوٹی کے لئے نامزد کر کے بھیج دیا۔
پرنسپل صاحب نے نہ صرف حقارت آمیز طریقے سے مجھے امتحانی ڈیوٹی سے روکا بلکہ مجھے سونپے گئے اضافی چارجز بھی واپس لے لئے ۔ میں مشکل ترین حالات میں بھی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا رہا۔ اﷲ کی مہربانی سے اس سال کا میرے تمام مضامین کا نتیجہ سَو فی صد رہا۔ سال کے اختتام پر حسب معمولACRsلکھ کر جمع کروا دی گئیں۔
ماہ و سال تیزی سے گزرتے گئے اور 2011ء کے بعد یکے بعد دیگرے کئی پرنسپل صاحبان ہمارے کالج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ مختلف طبع کے افراد کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 2017ء کے اواخر میں DPI صاحب کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ مراسلہ کی بنا پرمجھے گریڈ سترہ میں ترقی پانے کے لئے PLT (Batch 24) کے لئے DSDلاہور بلالیا گیا۔ ایک ماہ تربیت حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے ادارہ میں حاضری دی اور پروموشن کے لئے فائل مکمل کرنے کی غرض سے متعلقہ دستاویزات اور ACRsجمع کرنے میں مصروف ہو گیا۔
اس سلسلے میں کالج دفتر سے ACRsکے حصول کے لئے رابطہ کیا گیالیکن درج ذیل چار ادوار کی ACRs مجھے دفتر سے دستیاب نہ ہوسکیں: 2008ء ،2009ء ،2011ء اور 2012 ء ۔ (واضح رہے کہ اِن تمام ادوار کے رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین سابق ریٹائرڈ پرنسپل کالج ھٰذا تھے اور پرنسپل موصوف کے علاوہ تمام پرنسپل صاحبان نے میری ACRsشاندار لکھی ہیں۔ پرنسپل موصوف نے بھی میری تین ACRsکے علاوہ باقی تمام ACRsپر اچھے تبصرے کئے ہیں۔)
بعدازاں فروری 2018ء کے آغاز میں کالج ھٰذا کے کلرک کی وساطت سے مذکورہ بالا ادوار میں سے پہلے دو ادوار کی ACRsکی آفس کاپیاں ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ لاہورسے موصول ہو گئیں جبکہ بقیہ دو ادوار کی ACRs ہنوز دستیاب نہیں ہوسکیں۔ جب میں نے اپنی 2009ء کی ACRکا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ پرنسپل صاحب نے میری یہ ACRخراب کر دی تھی حالانکہ اس بارے میں مجھے نہ تو زبانی طور پر اطلاع دی گئی تھی اور نہ ہی تحریری طور پر مجھے مطلع کیا گیا تھا ۔
میں نے فروری 2018ء کو عدم دستیاب ACRs کے بارے میں موجودہ پرنسپل کو تحریری طورپر درخواست پیش کی اور انہوں نے رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین صاحب کے نام خط بھی لکھا لیکن اب تک اس خط کاجواب موصو ل نہیں ہوا۔اس کے بعد مورخہ 03-03-2018 کو ڈائری نمبر 1351کے تحت سی ای او(ایجوکیشن) چنیوٹ کی خدمت میں ACRsکی عدم دستیابی کے بارے میں شکایت کی لیکن کوئی نتیجہ درآمد نہ ہوا۔ اس سے پہلے میں نے وفاقی محتسب کے آن لائن سسٹم میں بھی شکایت درج کی تھی جس کے جواب میں مورخہ 12فروری 2018ء کو کیس نمبرWMS-ONL/0000991/18کے تحت مراسلہ مجھے موصول ہوا،جس میں شکایت کے بارے میں کاروائی کرنے سے معذرت کی گئی کیونکہ یہ معاملہ صوبائی ہے۔ اس کے بعد میں نے صوبائی محتسب پنجاب کے نام آن لائن شکایت درج کی ۔ مورخہ 21مارچ 2018ء کو صوبائی محتسب کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ یہ معاملہ سروس کے متعلق ہے لِھٰذا اس بارے میں وہ کوئی بھی کاروائی کرنے سے ْقاصر ہیں۔
مورخہ 07-05-2018کو میں نے اپنا مسئلہ DPI صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں اپنے دفتر کے فون کے ذریعے رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین کوسفارش کی کہ ہماری ACRsلکھ کر ہمارے حوالے کر دی جائیں تو اُن کی مہربانی ہو گی۔ ہم نے اپنی ACRs کے فارم بارہا لکھ کر رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین صاحب کے پاس جمع کروائے اور انہوں نے کئی کئی دن چکر لگوانے کے بعدہمار ے فارم کئی بار واپس کر دئیے۔ مورخہ 04-06-2018کودوبارہ DPIصاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے دوبارہ رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین کوACRs لکھ کر دینے کی سفارش کی اور ہمیں دوبارہ اُن کے پاس جانے کاحکم دیا۔ اسی دن ہم عشاء کے وقت رپورٹنگ آفیسر مہر ریاض حسین کے گھر پہنچے تو وہ گھر پر نہیں تھے۔ ہم نے ACRsاُن کے بھتیجے کے حوالے کردیں کہ وہ اُن تک پہنچا دیں۔
کیاافسران کوہی سارے حقوق میسر ہیں؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افسران ہمیشہ انصاف سے ہی کام لیتے ہیں؟ کیاماتحت ملازم کے کوئی حقوق نہیں او ر کیا ماتحت ملازم ہمیشہ غلطی پر ہی ہوتے ہیں؟ کیا سرکاری ملازم کے لئے ہر وقت افسران بالاکی خوشامد کرنا اُس کے فرائض میں شامل ہے؟
شوکت واسطی صاحب ریٹائرڈ چیئرمین پشاور بورڈ نے اپنی کتاب میں قیام پاکستان سے پہلے کے سرکاری ملازم تلوک چند محروم(جگرناتھ آزاد کاباپ) کی پینتیس سالہ سروس کے اختتام پرکیے گئے مختصر مگر جامع تبصرہ کاحوالہ دیا : ـــــ"بسگاں ادب نمودم بخراں سلام کردم" (میں نے پوری سروس میں کتوں کاادب کیااور گدھوں کو سلام کیا)
۲
پاکستان کے بننے کے بعدبھی سرکاری ملازمین کو اسی اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے گویا کہ وہ اب بھی ایک آزاد وطن کے شہری نہیں بلکہ سامراج کے غُلام ہیں۔ سرکاری
ملازمین کے لئے بنائے گئے برطانوی قوانین میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
کیا سرکاری ملازمت کا حصول ایک عام پاکستانی کیلئے ایک معمولی بات ہے؟ کیا ملازمت کے حصول کے لئے ہزار جتن نہیں کرناپڑتے؟ کیا ملازمت سے پہلے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے بے پناہ قربانیاں نہیں دینا پڑتیں؟ کیا تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے مائیں اپنا زیور اوربا پ اپنا سب کچھ نثار نہیں کرتے؟ اتنی مشکلات جھیلنے اور مصائب کا سامنے کرنے کے بعد جو شخص سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اُس کے لئے اوراُس کے خاندان کے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ کیا کوئی ملازم اتنی کٹھن منازل طے کرنے کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو پانے میں کامیاب ہوجائے تو اُس کا افسر محض ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر اُس کا مستقبل تاریک کر دے توکیا یہ قرینِ انصاف ہے؟
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے فرمان کے مطابق معاشرہ کُفر کے ساتھ تو قائم رَہ سکتا ہے لیکن ظُلم کے ساتھ نہیں۔ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے فاطمہ نامی ایک اعلٰی خاندان کی عورت کی چوری کی سزا معاف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ ﷺ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:تُم سے پہلے صرف اِس وجہ سے قومیں تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑاآدمی جُرم کرتا تو اُسے معاف کردیا جاتا اور کسی غریب ونادار آدمی سے غلطی ہو جاتی تو اُسے سخت سے سخت سزا دی جاتی۔ اﷲ کی قسم اگر اس فاطمہ کی جگہ پر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی ہوتی تو میں اُس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ـ
تجاویز:
1۔ سرکاری ملازمین کی کارکردگی جاننے کے لئے مروجہ طریقہ ء کار کی بجائے کوئی ایسانظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جو مبنی بر حقائق ہو۔ اس میں ملازم کی ترقی اُس کی کارکردگی سے مشروط ہو نہ کہ اُس کے باس کی مرہون منت ہو۔ ایک ملازم اگر صحیح انداز سے ڈیوٹی کر رہا ہو اور اس کے بارے میں کوئی سنجیدہ قسم کی شکایت بھی موصول نہ ہوئی، ایسے ملازم کے لئے اور کسی اضافی دستاویز کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی ملازم کی کارکرکردگی تسلی بخش نہ ہو یا اُس کے خلاف کوئی سنجیدہ قسم کی شکایت موصول ہوئی ہو تو اس کے خلاف سخت محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔
2۔ اگر کسی ملازم کی ACRیا PERلکھی جائے تو وہ اُس کے حوالہ کر دی جائے تا کہ وہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھ سکے اور بوقت ضرورت متعلقہ اتھارٹی کے پاس جمع بھی کروا سکے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پروموشن کے وقت اُس سے اُن ACRsکے جمع کروانے کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے۔
3۔ اگر ACRپر انحصار ضروری ہے تو ہر سال کی ACRمتعلقہ فرد کے حوالے ضرور کر دی جائے تا کہ اُسے بھی اپنی کاکردگی جانچنے کا موقع ملتا رہے اوراس کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔جیسے کہ طلبہ کے جانچ شُدہ پرچے اُن کے حوالے کرنے سے اُن کی غلطیوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
4۔ اگر کوئی افسر اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کسی کی ACRخراب کردے تو اُس کے خلاف بروقت محکمانہ کاروائی کی جائے تا کہ مظلوم کی مدد کی جاسکے۔
5۔محب وطن سیاست دان سرکاری ملازمین سے متعلق قواعد وضوابط میں پائی جانے والی خامیوں کی اصلاح کی جانب بھی توجہ مبذول فرمائیں تو یہ ملک وقوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
میری ACRs کو خراب کئے جانے اور دستیاب نہ کئے جانے کی وجہ سے نہ صرف مجھے ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ میری پروموشن میں بھی تاخیر ہورہی ہے جبکہ اس سارے معاملے ،میں میرا کوئی قصور بھی نہیں ہے لیکن سزا صرف مجھے ہی مِل رہی ہے۔اگر ایک سرکاری مُلازم کو اس طرح کے معاملات میں اُلجھا دیا جائے تو کیاوہ اطمینان سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دے پائے گا؟
اس مسئلے میں کوئی بھی مجاز اتھارٹی میری دادرسی نہیں کر رہی اور نہ ہی میرے مسئلے کو کوئی اہمیت دی جارہی ہے ۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ مسئلہ کی نشاندہی کئے جانے کے بعد مجاز اتھارٹی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق معلوم کرنے اور مسئلہ کا حل کرنے کے احکام جاری کرتی لیکن میں جہاں بھی انصاف کے حُصول کے لئے جاتاہوں،وہ بلاتحقیق
مجھے ہی قصوروار شُمار کرتے ہیں حالانکہ فریقین کا موقف سنے بغیر کوئی فیصلہ کرنا قرین انصاف نہیں۔ جیسا کہ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:" اگر کسی شخص کی آنکھ پھوٹی ہوئی ہو اور وہ تمہارے پاس کسی کی شکایت لے کر آجائے تودوسرے فریق کی بات سُنے بغیر اُس کے حق میں فیصلہ نہ کرو ، ہو سکتا ہے وہ اُس کی دونوں آنکھیں پھوڑکر آیا ہوــ"۔
اب معاملہ سیکرٹری صاحب محکمہ تعلیم صوبہ پنجاب کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے اگروہاں بھی شنوائی نہ ہوئی تو بالآخر عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
بقولِ مرزا غالب: دام ہر موج میں ہے حلقہ ء صد کامِ نہنگ دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرہ پہ گُہر ہونے تک
آخر میں بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کرتا ہوں:
ـہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
۳
 

Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 58090 views I am proud to be a Muslim... View More