دنیا کی سب مائیں اچھی ہوتی ہیں لیکن ان میں سب سے اچھی
اپنی ہوتی ہے۔بے جی ۲۲ جون ۲۰۰۲ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ماں بہت اچھی
ہوتی ہے لیکن اس کی ایک بات اچھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنوں کو روتا بلکتا چھوڑ
کر ایک دم منظر عام سے ہٹ جاتی ہے۔۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کو جدہ میں جنرل (ر) اسد
درانی نے مجھے گرفتار کرا دیا۔وہ دور جرنیلوں کا دور تھا ملٹری ڈکٹیٹر جنرل
مشرف امریکہ کے ناک کا بال بنا ہوا تھا خود سعودی ڈرے سہمے جنرل مشرف کی
چاپلوسی میں لگے ہوئے تھے ۔میرا قصور کیا تھا اور گناہ کیا تھا۔وہ یہ کہ
میں نے جنرل اسد درانی جو کے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے انہوں نے
نواز شریف اور اس کے ان ساتھیوں کی سرکوبی شروع کر دی تھی جو وہاں سیاسی
سرگرمیوں میں ملوث تھے۔میں پاکستان کے ایک تگڑے اخبار خبریں کا بیورو چیف
تھا جدہ سے رپورٹ بھی کرتا تھا ایک شام جدہ کی ترحیل جیل سے عظمت خان نیازی
کا فون آیا کہ چودھری صاحب آپ اخبارات میں لکھتے ہو ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے
کہ ہمیں جیل میں بند کروا دیا ہے۔میں حیران تھا نیازی تو ق لیگ میں تھا اسے
کیوں پکڑا۔اس کے ساتھ ہی قاری شکیل کو دھر لیا گیا جو سعودی مسلم لیگ کے
صدر تھے۔میں نے اس پر بڑا شور کیا۔جنرل مشرف نے جس دن ملا عمر ضعیف کو
گرفتار کروایا اس پر بھی احتجاج کیا۔ایک دن چودھری نواز جو اس وقت قونصل
جنرل تھے انہوں نے مجھے قونصلیٹ بلوایا اور کہا کہ آپ نے اپنی ڈائری میں
جنرل اسد درانی اور قونصلیٹ کو پاکستانیوں کی گرفتاری پر ذمہ دار ٹھہرایا
ہے جو سرا سر غلط ہے۔میں نے اپنے دوست قونصل جنرل سے کہا دل پر ہاتھ رکھ کر
کہیں کہ اس عمارت سے یہ گندہ کام نہیں کرایا جا رہا تو میرے دوست دل پر
ہاتھ نہ رکھ سکے۔میں جانتا تھا کہ ساتھ والے پورشن میں بیٹھے ایک مونچھوں
والے شخص نے اس مکروہ کام کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے اور وہی ان
پاکستانیوں کو پکڑوا رہا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے نواز شریف کے ساتھ رہے
ہیں۔میرے اس کالم میں صاف لکھا تھا کہ یہاں غریبوں کی کمائی لوٹنے میں جنرل
اسد درانی شامل ہے ۔یہ وہی مہاشے ہیں جو ہندوستانی جرنیل سے مل کر کتابیں
لکھنے کا قبیح کام کر چکے ہیں اور وہی فنکار ہیں جو اصغر خان کیس کے نامزد
ملزم ہیں(ملزم سے مجرم تک قیامت کی کالی جمعرات کا انتظار کیجئے)جنرل اسد
درانی ایک خونخوار شخص بن چکا تھا اسے واک کرتے ہوئے اکرم گجر نے کہا حضور
چار نامور پاکستانی اندر ہیں ہیں کرپا کیجئے جواب دیا چار سو بھی پکڑے
جائیں اس سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔کل رائل نیوز کے پروگرام میں جنرل حمید
گل کے صاحبزادے فرما رہے تھے کہ مارشل لاء کا دور بہتر تھا اس ٹھنڈیکمرے
میں میرے پسینے چھوٹ اور مجھے ۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کی وہ دوپہر یاد آ گئی جب مجھے
اوڈی واکس ویگن کی ڈیلر شپ سے دفتر سے اٹھا لیا گیا تھا۔مانا کہ یہ ایک
لالچی خود غرض شخص کی معاندانہ کاروائی تھی مگر جمہوری دور میں یہ کبھی
نہیں ہوا ہمارے ساتھ شاہد امین خالد محمود سفار ت کاری کا عرصہ چکے تھے
انہوں نے ہمیشہ شفقت پیار اور محبت سے کام لیا۔وہ اس قدر بے مروت نہ تھے کہ
اختلاف کی صورت میں بیرون ملک کی جیلوں میں بند کرا دیتے۔کئی بار اسکول کے
معاملات پر ان سے اختلاف ہوا مگر اس قدر زیادتی کہ باہر کے ملک میں اپنے
پاکستانیوں کو جیل بھجوا کر غصہ ٹھنڈ ا کیا۔شائد یہ ہمارے ان کرموں کی سزا
تھی یا جزاء کہ ہم نے لسانیت پرستی کے خلاف جہاد میں فوج کا ساتھ دیا اور
سلیم معینی جیسے شخص ڈیپورٹ ہوئے۔
ماں جی ایک انتہائی پیار کرنے والی ماں تھی تہجد گزار اور سب کی بے جی۔محلے
میں بے جی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ہم جب ہری پور ہزارہ سے گجرانوالہ آئے
تو والد صاحب نے ایک برتن بنانے والی فیکٹری لگائی فیکٹری کیا اسے کارخانہ
کہہ لیجئے۔وہ خود بھی محنت کرتے اور ساتھ میں چار چھ کاریگر بھی رکھے تھے
گجروں کی ایک گوت چوہان ہے جس سے ہمارا تعلق ہے پچاس کی دہائی میں چوہان
میٹل ورکس کے نام سے کام شروع کیا۔والدہ صاحبہ بھی انہی کے ساتھ تھیں۔ہم نے
ہمیشہ گھر میں لویریں رکھیں۔ماں جی محلے کی ایک شفیق دیندار خاتون تھیں بچے
صبح صبح لسی لینے آتے تو بے جی انہیں گلس بھر لسی دیتیں ان کی ایک عادت تھی
کہ لسی میں پانی زیادہ کر دیتیں والد صاحب کے لئے ایک جگ لسی کا الگ کرنے
کے بعد جو لسی کے ساتھ ہوتا اس کا بھگتان ہم بھگتتے اور شور مچایا کرتے اک
جگ لسی دا پورا پانی کسی دا۔کہا کرتیں گزارا ہو جائے گا۔گھر میں گوجری
بولتیں۔ہمیشہ کہا کرتیں کہ اﷲ بھی قران میں کہتے ہیں کہ وہ لوگ اچھے نہیں
ہوتے جو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لین دین میں بخل کرتے ہیں۔ان کی اس عادت نے
انہیں محلے میں مقبول بنا دیا۔لوگوں کے گھروں کے مسلے مسائل حل کراتیں۔آس
پاس کی وہ بچیاں جو دوسسے شہروں سے آئیں انہیں گھر میں کسی بھی تکلیف کا
سامنا کرنا پڑتا تو کہتیں ماں باپ کو نہیں بتانا میں تمہاری ماں ہوں۔اﷲ
بخشے میں نے انہیں کبھی اہتمام کے ساتھ کھانا کھاتے نہیں دیکھا اور نہ ہی
سوتے۔ننید اتنی آتی تھی کہ مصلے پر ہی سو جاتیں۔کئی بار کہا بے جی آرام کر
لیا کریں کہتیں اس دنیا میں جس نے آرام کیا وہ بے آراما ہو گا۔
بے جی بڑی سوشل خاتون تھیں سیاست پر بھی گہری نظر رکھتیں تھیں۔ان کا تعلق
موضع لسن ضلع ایبٹ آباد سے تھا۔چیچی گجر تھیں ہم چوہان تھے انہیں کبھی
کبھار تنگ کرتے چیچی پیچی تو کہتیں تم آکڑ خان چوہانوں کے گھر میں کوئی
چوہان ہوتیں تو لگ سمجھ جاتی میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ماں اپنی ہی
بہترین ہوتی ہے لیکن چودھری برخودار کی زوجہ زیلخا بی بی نے انہیں ایک جد و
جہد والے دور سے بڑی محنت سے متوسط طبقے والی برادری میں شامل کیا۔اﷲ پاک
ان دو پاک روحوں کو جنت کے اعلی مقام میں جگہ دے۔گجرانوالہ کہ پرانے بسنیک
ارائیں اور گجر ہیں کشمیری برادری مہاراجہ کشمیر کے ظلم و ستم سے تنگ لوگوں
میں سے ہے شہاب نامہ پڑھئے ہاتو جو یہاں کی منڈیوں میں کام کیا کرتے تھے وہ
پنجاب کے میدانوں میں کشمیر سے آ کر محنت مزدوری کرتے تھے انہوں نے ہجرت کی
اور جموں کے ساتھ منسلکہ علاقوں میں آبادی اختیار کی زیادہ تر خواجے میر بٹ
سیالکوٹ گجرانوالہ اور لاہور میں آباد ہوئے اﷲ پاک نے انہیں آزادی کے رنگوں
میں رنگا۔ارائیوں کی اس بستی میں ہمارا کوئی دوسرا گھر نہ تھا۔لیکن دوسرا
تیسرا نہیں سارا محلہ اپنا ہو گیا چاچا ابراہیم،کالی پگ والے مہر نبی بخش
چاچا عنائت یہ سارے اپنے ہی تو تھے۔۱۹۶۴ میں بی ڈی ممبر کا الیکشن لڑا والد
صاحب کامیاب ہوئے چاچا خوشی محمد شریف لطیف یہ سب والد صاحب کے دست و بازو
بنے۔والد صاحب کی جیت کے پیچھے بھی بے جی کا ہاتھ تھا۔
۱۹۶۸ میں والد صاحب نے سندھ میں زمینیں خریدیں۔۶۸ سے ۷۵ کا یہ دور یو ں تو
سات سال کا عرصہ ہے مگر اسے ساتھ صدیاں کہہ لیجئے ہمیں بڑی تکلیفوں کا
سامنا کرنا پڑا۔بے جی ایسے میں ڈٹ گئیں کہا گیا کہ بچوں کو لے کر نلہ ہری
پوی چلی جاؤ کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہر حال میں بچوں کو پڑھاؤں گی اور
شائد وہگھڑی تھی جس نے ہمیں سنبھالا دیا بھائی جو بڑے نازک مزاج تھے فوج
میں بھرتی ہو گئے کمانڈو بن گئے میں نے پولی ٹیکنیک لاہور میں داخلہ لیا
صبح جاتا شام کو گھر لوٹتا۔غرض ہم نے کمر کس لی بہن نے ایک نجی اسکول میں
پڑھانا شروع کیا۔بے جی ٹوپیاں تک سیتی رہیں اور ہم ۱۹۷۵ میں اس تکلیف دہ
زندگی سے نکل گئے۔والد صاحب واپس آئے گجرانوالہ میں کچے کا کاروبار کیا
واپڈا کے ٹھیکے دار بنے اور چار سال میں صنعت کاروں کے اس شہر میں بمبئے
براس والوں کے بعد چودھری اقبال گجر کے علاوہ تیسری مرسیڈیز ہماری تھی۔حیف
اور افسوس ان عورتوں پر جو خاوندوں کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں جنہیں اپنے علاوہ
کچھ اور نہیں سجھائی دیتا۔اور افسوس اس اولاد پر جو کھاتے پیتے ڈکارتے اپنے
ماں باپ کی نافرماں بردار ہو جاتی ہے۔ کاش کوئی ان جیسی ماؤں کا راستہ
اپناتا تو یوں گھر برباد نہ ہوتے۔
گجرانوالہ میں اس کے بعد کے مراحل آسان نہ تھے بلدیاتی انتحابات میں مرحوم
بھائی ناظم کا الیکشن لڑے جن کے خلاف لڑے سمجھئے وہ دوسرے ن لیگئے تھے حد
سے زیادہ غنڈے شناختی کارڈ کی مشینیں رکھنے والے لوگوں کے ووٹ خریدنے والے
اس الیکشن میں پنجاب پولیس تھانہ گرجاکھ نے حد کر دی۔پولیس نے لڑائی شروع
کر دی لاٹھی چارج کیا اور شام کو جیتا ہوا الیکشن ہروا دیا۔ایسے میں تناؤ
کی کیفیت تھی ۔ایسے میں بے جے کو دیکھا وہ گلی کے کنارے کنارے چلتی مخالف
کے کارخانے گئیں جیتنے والے سے کہا کہ وہ ڈھول نہ بجائے اور نہ ہی ہمارے
گھر کے سامنے سے گزرے۔اﷲ انہیں جنت بخشے انہوں نے ایک بڑے جھگڑے سے بچا لیا
ورنہ اس شام خون خرابہ ہو سکتا تھا۔وقت گزر گیا ہے۔مجھے بے جی کے ساتھ
گزارے دن بہت یاد آتے ہیں شائد ۱۹۹۰ کا حج تھا میری پاجیرو میں حج کیا
ٹھنڈی گاڑی میں سردی لگی تو میں نے کمبل لے دیا کہنے لگیں بیٹا مزہ نہیں
آیا جب تک کوئی تکلیف نہ ہو حج کیسا۔پھر ایک بار کدی پارکنگ میں گاڑی کھڑی
کی اور حرم سے جب واپس ہوئے تو پسینے چھوٹے تو کہنے لگیں اب حج ہوا ہے۔
ہمیشہ کہا کرتیں کہ جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔بچپن میں پاؤں
میں خارش ہوئی تو کہا میرا بیٹا بڑا سفر کرے گا۔پھر کہاں کہاں نہ گئے یورپ
مشرق بعید جرمنی یہ شائد ماں کی دعا تھی۔میں نے جب ڈپلومہ کیا تو تو نوکری
کے لئے جمعیت کے دوستوں سے درخواست کی لاہور جمعیت کے ایک ناظم ہوا کرتے
تھے ان کا نام حفیظ تھا انہوں نے رانا موٹرز لاہور کے جناب اﷲ داد خان نے
ملوایا یہ ملاقات کوئی ڈیڑھ ماہ کی جد وجہد کے بعد ہوئی۔ایک دن وہ مل ہی
گئے۔رات کو جب گھر لوٹا تو بے جی سوت کات رہی تھیں چرخے کے ساتھ بنی پونیاں
سامنے والے اندر پڑی ہوئی تھیں تو میں نے انہیں پیچھے سے گھیر لیا بانہوں
میں لے کر کہا میری ماں میں تمہیں حج کراؤں گا،کہنے لگیں پتہ نہیں بڑی بڑی
باتیں کرتے ہو لاہور جانے کا کرایہ نہیں مکے لے جاؤ گے۔میں نے ان کے ہاتھ
پکڑ کر دعا کرائی کہ اﷲ مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ حج کرا دے آمین۔اور وہ وقت
۱۹۸۱ میں آ یا حج کیا مختلف ملکوں میں گئیں۔
دوستو! وقت گزر جاتا ہے جن کی مائیں زندہ ہیں ان سے درخواست ہے کہ ان کا
خیال کریں۔وہ چلی جائیں گی تو یاد کرو گے۔بے جی آپ کو ہم سے بچھڑے سولہ سال
ہو گئے ہیں۔آپ ایک ڈاکخانہ تھیں سارے بچوں کی شکائتیں سن کر کہا کرتی تھیں
او جانے اﷲ خیر کرے گا۔آج غلطی کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے مہینوں بھائی
بات نہیں کرتے۔عورتیں عورت سے چڑیلوں کا روپ دھار چکی ہیں گھروں سے برکت
اٹھ گئی ہے۔وہ بھائی جو لڑ جھگڑ کر راضی ہو جاتے تھے وہ سر پھٹول میں مصروف
ہیں او جانے سے کوئی کام نہیں لیتا۔ایک چھتری ایک درخت اور سایہ دار درخت
چلا گیا۔گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ماں آپ بہت یاد آتی ہیں۔وہ میری
گرفتاری پر پریشان ہو گئیں مجھے جدہ جیل میں فون پر تسلی دیتی رہیں مگر رات
کو مصلے پر روتی رہیں اکہتر دن کے بعد جب میں بچوں سمیت پاکستان واپس آیا
تو میری حالت دیکھ کر تڑپ اٹھیں انہیں برین ہیمرج ہوا نلہ سے پمز چھ گھنٹوں
میں پہنچیں سترہ دن بیمار رہیں اور ۲۲ جون کو اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔جب بھی
غصے میں ہوتا کہتیں او جانے۔اس اﷲ پر اعتماد کرنے والی ماں کو سلام جنازہ
اتنا بڑا کہ کچھ نہ پوچھیں سخت گرمی میں ہلکی ہلکی پھوار نے باغبانپورہ سے
بڑے قبرستان تک ساتھ دیا۔زعیم ملت مولانا رحمت اﷲ نوری نے جنازہ پڑھایا
حافظ عبدالرحمن مکی نے دعا کرائی بارش اتنی تیز ہو ئی کہ اس طرح محسوس ہوا
کہ شائد اﷲ کے ہاں قبولیت کا شرف پا گئی ان کی ۔۔او جانے |