دور حاضر کی جدت اور ہم

بے حیائی کو فیشن کی چادر سے ڈھانپ کر خود کو خسارے میں ڈالنے میں والی اس قوم کا کیا ہو گا۔

دور حاضر کی ٹیکنالوجی کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں آپ چاہے جو بھی ہیں دنیا کے کسی بھی کونے سے ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو ساری کی ساری معلومات چند سیکنڈوں میں آپ کی سکرین پر آپکے سامنے نظر آ جاے گی۔ آپکے دوست رشتہ دار، جہاں بھی ہیں آپ ان کو اپنی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہم جس چیز کے بارے میں متجسس ہیں ، ہم کمانڈ دیتے ہیں، وہ چیز ہماری سکرین پر نمودار ہو جاتی ہے۔ دنیا کے حال و احوال کا پتہ کمرے میں لگے بیڈ پر لیٹ کر آرام و سکون سے ایک چھوٹی سی سکرین پر ملاحظہ کر لیتے ہیں۔ اب تو ہمیں آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے کے لئے بھی کسی کاوش کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ آپ مشین کو آرڈر دیں ۔ پکی پکایٗ روٹی آپکے سامنے آ جاے گی

جہاں اس ٹیکنالوجی کا اس قدر فائدہ ہے وہی افسوس کہ ہم ساری کی ساری ٹیکنالوجی کو غلط معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ آ ج ہماری قوم کے نوجوان لوگ جنہوں نے ہمارے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے اپنی صبح کا آغاز فیس بک اور واٹس ایپ سے کرتی ہے۔ بدولت اس ٹیکنالوجی کے ہمارے میدان ویران پڑے ہیں۔ دنیا کی ساری کھیلیں ایپس کی شکل میں موبائل کی ایک چھوٹی سی چپ میں سماء گئی ہیں۔نہ ہی آپ کو کسی میدان میں جانے ضرورت ہے نہ ہی کسی ساتھی کی بلکہ آ پ موبائل نکالیں گیم کھیلیں جی بھرے تو ایک بٹن سے سکرین بند کریں اور جیب میں ڈال لیں۔ میری قوم کا سرمایہ سارا سارا دن سوشل میڈیا پر ٹامک ٹوئیاں کر کے وقت کی قلت کا رونا روتے ہیں۔

لبرل ازم کا یہ عالم ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی مسلمان عورت ’’ میرا جسم ،میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی نظر آتی ہے۔ہم اتنے لبرل ہیں کہ ہم نے اپنے مذہب کو صرف ایک رسم تک محدود کر لیا ہے۔ اپنے عقائد کو بھول کر غیر مسلمانہ رسموں کی پیروی کرتے ہیں۔ ہماری صبح کا آغاز اسلامی روایات کے خلاف ہونے والے مارننگ شوز سے ہوتا ہے۔ حیا اور پردے کی باتیں کرنے والے تنگ نظری کے الزام سہتے نظر آتے ہیں۔ہم کیا ہیں؟ ہمارے عقائد کیا ہیں؟ ان باتوں سے ہم غافل کیوں ہیں؟ اپنی عزت، اپنا مقام کیوں بھول گئے ہیں؟ اس کی چند وجوہات ہیں جن میں سوشل میڈیا کا منفی کردار واضع اور اہم ہے۔ دین سے دوری، کتابوں سے لا تعلقی اور ٹیلی ویژن کی لت ہے۔ ہم نے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کیا ہے یا اپنا بیڑہ غرق کیا ہے۔

بے حیائی کو فیشن کی چادر سے ڈھانپ کر خود کو خسارے میں ڈالنے میں والی اس قوم کا کیا ہو گا۔بہر حال یہ بھی ایک طویل بحث ہے۔

Ismail Aftab Mirza
About the Author: Ismail Aftab Mirza Read More Articles by Ismail Aftab Mirza: 5 Articles with 3154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.