آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

(۱) کتے کے جھوٹے کو دھونے کا حکم ہے تو کیا شکاری کتے کا جھوٹا بھی دھویا جائے گا؟
جواب : کسی چیز کو نجس یا حرام ماننے کے لئے دلیل چاہئے ، چونکہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھوئیں لیکن اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شکاری کتے کا شکار دھویا جائے ۔ اس وجہ سے شکاری کتا جس جگہ شکار کو کاٹے اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اﷲ کا فرمان ہے : فَکُلُوا مِمَّا أَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہِ (المائدۃ:4)
ترجمہ: پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اﷲ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔
اﷲ نے ہمیں معلم (سکھائے ہوئے ) جانور کے شکار کو کھانے کا حکم دیا ہے ، اگر دھونا ضروری ہوتا تو اﷲ تعالی یا اس کے پیغمبر ضرور ہمیں اس بات کا حکم دیتے ۔ حافظ ابن حجر نے تو شکاری کتے کے جھوٹا کو پاک قرار دیا ہے ۔
(۲) ایک جگہ حدیث میں جو غالبا مسند احمد میں ہے قرآن سے مت کھاؤ اور دوسری جگہ بخاری میں ہے کہ قرآن سے جو تم لیتے ہو وہ سب سے بہتر ہے ان دونوں میں صحیح کیا ہے کیا قرآن کی تعلیم پر اجرت لینی ہے یا نہیں ؟
جواب : صحیح بخاری کی حدیث سے بالکل واضح ہے کہ قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اس لئے صحیح بخاری کی جامع شرح فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں مذکور ہے کہ اس حدیث سے جمہور نے دلیل پکڑی ہے کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے ۔ جہاں تک ان نصوص کامعاملہ ہے جن میں قرآن سے اجرت لینا منع ہے ان کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ افضل اور اولی یہی ہے کہ جن کو اجرت کی ضرورت نہیں وہ بغیر اجرت کے قرآن کی تعلیم دے البتہ جنہیں اجرت لینے کی ضرورت ہے ، جن کے پاس اپنے اور گھروالوں کی ضروریات کی تکمیل کا دوسرا ذریعہ نہ ہو تو ان کے لئے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے ۔ تو تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا مسئلہ محض جواز کا ہے افضل نہ لینا ہے۔
(۳) بسم اﷲ پڑھ کر فائر کرنے سے شکار کرنے سے ذبیحہ شمار ہوگا؟
جواب : سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بندوق سے شکار کیا جائے تو وہ شکار کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟ اس سوال کے جواب میں کئی پہلو ہیں ۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر بندوق کی گولی تیز دھار والی ہے ،اس طرح کہ شکار کو کاٹ کر اندرجسم میں داخل ہوجائے تو بسم اﷲ پڑھ کر ایسے بندوق سے کئے گئے شکار کو کھایا جائے گا اگرچہ زخم لگنیسے مرجائے اور یہ زخم جسم کے کسی حصہ پر بھی لگا ہو۔ اس کی دلیل تیر سے شکار کرنے والی حدیث ہے ۔
ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر گولی تیز دھار دار نہ ہو بلکہ اس سے شکار کو قوت سے چوٹ لگے اور مر جائے تو پھر وہ شکار حلال نہیں ہے ، ہاں اگر شکار چوٹ لگنے سے نہیں مرے اور جلدی سے اسے اسلامی طریقہ سے ذبح کرلیا جائے تو پھر کھا سکتے ہیں ۔
ایک تیسر ا پہلو یہ بھی ہے کہ اگرتیز دھار والی کسی چیز سے شکار کرتے وقت بسم اﷲ نہیں پڑھا اور شکار مرگیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے کیونکہ اس پر اﷲ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔
(۴) میرے گاؤں میں ایک بلی ہے جو چوزے کو کھا جاتی ہے اسے مارنا کیسا ہے ؟
جواب : بلی عموما گھروں میں آتی جاتی رہتی ہیں مگر گھروں کو نقصان نہیں پہنچاتی سوائے کھانے پینے کی چیزوں کو جھوٹا کرنے کے اس لئے رسول اﷲ ﷺ نے اس کے جھوٹے کو پاک قرار دیا ہے ۔ بعض بلیاں نقصان پہنچاتی ہیں ۔ کبوتروں کو کھاجاتی ہیں یا مرغیوں کو ماردیا کردیتی ہیں ، ایسی صورت میں پہلے بلی کو اس کام سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اور بچاؤ کا راستہ اختیار کیا جائے گا تاکہ بلی کو قتل نہ کرنا پڑے لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو تو ضرررساں بلی کو قتل کرسکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
(۵)ایک شخص باہر ملک گیا وہاں جاکر معلوم ہوا کہ داڑھی کٹائے بغیر کوئی کام نہیں ملے گا اس نے داڑھی کٹائی اس کا کیا گناہ ہے اور ایسا کرنا چاہئے کہ نہیں ؟
جواب : نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے خواہ وہ وقت کا حاکم ہوکفیل ہو یا والدین ۔ اسی طرح معصیت کا کام کرکے روزی کمانا بھی جائز نہیں ہے ۔ داڑھی رکھنا اسلام میں فرض ہے جواس فریضہ کو روزی کے لئے ترک کرتا ہے وہ گنہگار ہے اسے چاہئے کہ گزشتہ گناہوں کی اﷲ سے معافی مانگے اور فرمان رسول کے مطابق داڑھی کو معاف کرے چاہے اس کو نوکری چھوڑنا پڑے ۔ اﷲ نے بہت وسیع دنیا بنائی اور ہزاروں حلال ذرائع معیشت ہمارے مہیا فرمائے ہیں ۔ اﷲ کا فرمان ہے کہ جو تقوی اختیار کرتا ہے اس کے لئے نجات کا راستہ پیدا کرتا ہے ۔ اﷲ پر اور اس کے کلام پر کامل توکل کریں اور اس کی زمین میں تقوی کے ساتھ حلال روزی تلاش کریں وہی اکیلا سب کی روزی کا مالک ہے یقینا اپنے متقی بندوں کے لئے روزی کا دروازہ کھول دے گا۔
(۶)کیا عورت زور سے آمین کہہ سکتی ہے ؟
جواب : عورتوں کے لئے جس طرح اجانب کی موجودگی میں نماز میں آواز پست رکھنا ہے اسی طرح آمین بھی سرا کہنا ہے لیکن اگر اجانب موجود نہ ہوں تو جہری نمازوں میں یا عورتوں کی جماعت میں یا اپنے گھر (جہاں اجنبی نہ ہو) میں بلند آواز سے آمین کہہ سکتی ہے۔
(۷)جس مکان کا کرایہ ادا کیا جارہاہو اس کو ہیوی ڈپازٹ پہ لینا کیسا ہے ؟
جواب : ڈپازت امانت کے درجہ میں ہے جو عموما سوسائٹی میں رائج رقم کی طرح ہو مگر ہیوی ڈپازٹ کے نام پر مکان مالک کرایہ دار سے خطیر رقم وصول کرتا ہے اور اسے اپنے کام میں صرف کرتا ہے جو قطعا درست نہیں ہے ۔ اس کا ایک صحیح بدل یہ ممکن ہے کہ مکان مالک کرایہ دار سے چند مہینوں کا کرایہ اڈوانس میں لے لے مگر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کرایہ دار سے موٹی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
(۸)کھڑے ہوکر کھانا کھانا کیسا ہے ؟
جواب : ایک طرف احادیث میں کھڑے ہوکر کھانے پینے کی ممانعت ہے تو دوسری طرف کھڑے ہوکر کھانے پینے کی دلیل بھی ملتی ہے۔ ان دونوں اقسام کی حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول ہوگی یعنی کھڑے ہوکر کھانا پینا بکراہت جائز ہے اور بیٹھ کر کھانا پینا افضل واحسن ہے۔
(۹)سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے تو کیا ہم اس میں قرآن کی دعا بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : صحیح مسلم میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے رکوع اور سجدہ میں تلاوت کرنے سے منع کیا ہے اس لئے رکوع اور سجدہ میں قرآن کی تلاوت نہیں کریں گے لیکن سجدہ میں دعاکی ترغیب آئی ہے اس لئے سجدہ میں قرآنی دعاؤں کو تلاوت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں ۔
(۱۰)ایک شخص پردیس سے اپنا ملک لوٹ کر گیا اور اس نے اپنی بیوی سے پچھلی شرمگاہ میں مباشرت کرلی ،اب اس کو دوست واحباب نے بتلایا کہ اس کا نکاح ٹوٹ گیا قرآن وحدیث اس سلسلے میں کیا کہتا ہے ؟
جواب : یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یونہی لوگوں میں پھیلی ایک غلط فہمی ہے البتہ یہ کام بہت ہی گھناؤنا ہے اس کی وجہ سے آدمی ملعون قرار پاتا ہے ۔ جس نے بھی ایسا لعنتی کام کیا ہے اسے چاہئے کہ سچے دل سے اﷲ سے توبہ کرے اور آئندہ اس سے پرہیز کرے ۔
(۱۱)کسی کو ویزا فری میں ملتا ہے وہ آگے پیسا لیکر بیچتا ہے ایسا کرنا کیسا ہے ؟
جواب : اگر کسی شخص کو فری میں ویزا ملا یہ کہہ کر کہ مجھے عامل چاہئے تو اس ویزا کو بیچنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ویزا کے حصول میں محنت اور پیسے صرف ہوئے ہوں تو اس کے بقدر پیسہ لے سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی معلوم رہے کہ ویزا کی فیس سعودی حکومت کے قانون کے مطابق کفیل کو برداشت کرنا ہے۔ ویزا کی ایک نوعیت یہ بھی ہے کہ کسی کفیل کو عامل نہیں چاہئے ہوتا ہے بلکہ اسے ویزا سے زیادہ پیسہ کمانا مقصود ہوتا ہے اور عامل کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ کفیل ویزا مثلا دوہزار ریال میں حکومت سے حاصل کرتا ہے تو اسے کئی کئی ہزار ریال میں آگے فروخت کرتا ہے پھر اس کے خریدار اس میں اضافہ کے ساتھ آگے بیچتے ہیں۔ اس قسم کے ویزا کی خرید بکری سراسر ناجائز اورحکومت کے ساتھ دھوکہ ہے کیونکہ حکومت کے نزدیک نہ اس عمل کی اجازت ہے اور نہ ہی حکومت کے قانون کے حساب سے ویزا بیچنے کی اجازت ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ سے سوا ل کیا گیا کہ بعض لوگ مثلا تین ہزار ریال میں ویزا نکالتے ہیں پھر اسے آٹھ دس ہزارریال میں بیچ دیتے ہیں تاکہ وہ دوسرے کے نزدیک کام کرے اس کا کیا حکم ہے ؟ توشیخ نے جواب دیا کہ ویزا لائسنس ہے یعنی منسٹری سے لائسنس لیتا ہے تاکہ عامل منگائے پھر وہ دوسرے کے ہاتھ لائسنس بیچ دیتا ہے تاکہ دوسرا شخص عامل بلائے یہ سراسر حرام اور ناجائز ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اگر تمہیں عامل کی ضرورت ہے تو ویزا تمہارے ہاتھ میں ہے اور عامل کی ضرورت نہیں ہے تو جہاں سے ویزا لیا تھا وہاں لوٹا دو اس کا بیچنا تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔
(۱۲)کیا ایسی حدیث ثابت ہے کہ عشاء کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے سے شب قدر کے قیام کا اجر ملتا ہے ؟
جواب : کئی مرفوع روایات میں اس کا ذکر ہے کہ عشاء کے بعد چار رکعت لیلۃ القدر کے برابر ہے مگر کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں البتہ بعض آثار صحیح سند سے مروی ہیں ۔ مثلا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بن مسعود رضی اﷲ عنہ قَالَ : مَنْ صَلَّی أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاء ِ لَا یَفْصِلُ بَیْنَہُنَّ بِتَسْلِیمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِہِنَّ مِنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ .( المصنف :2/127)
ترجمہ: ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ جو عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعت پڑھے تو یہ لیلۃ القدر کے برابر ہے۔
عن عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما قال : مَنْ صَلَّی أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاء ِ کُنَّ کَقَدْرِہِنَّ مِنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ.( المصنف :2/127)
ترجمہ: ابن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس نے عشاء کے بعد چار رکعت پڑھی اس کا اجر لیلہ القدر کی طرح ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اﷲ عنہا قَالَتْ : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاء ِ یَعْدِلْنَ بِمِثْلِہِنَّ مِنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ.( المصنف :2/127)
ترجمہ: عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ عشاء کے بعد چار رکعت لیلۃ القدر کے برابر ہے۔
شیخ البانی نے ان آثار کے متعلق کہا ہے کہ گویہ یہ موقوف روایات ہیں مگر مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ بات اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہے جیساکہ ظاہر ہے۔
(۱۳)والدین کو بیٹا زکوۃ دے سکتا ہے اور اسی طرح والدین بیٹے پر زکوۃ صرف کرسکتے ہیں ؟
جواب : نہ باپ بیٹے پر زکوۃ کا مال صرف کرسکتا ہے اور نہ ہی بیٹا باپ پر ۔
(۱۴)دادا کے مال میں یتیم پوتے کا حصہ ہے یا نہیں؟
جواب : اگر دادا کا انتقال ہوجائے اور اپنے پیچھے اولاد چھوڑ جائے تو پوتا پوتی کا حصہ نہیں بنتا۔
(۱۵)رمضان کے قضا روزے اور شوال کے چھ روزے ایک نیت سے رکھے جاسکتے ہیں کہ نہیں ؟
جواب : چونکہ شوال کیچھ روزوں کا اجررمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعد ہے اس لئے ایک نیت سے قضا اور نفلی روزے نہیں رکھے جاسکتے ۔ جیسے قضا روزوں کی تکمیل سے پہلے شوال کے چھ روزے نہیں رکھ سکتے ویسے ہی ایک نیت سے قضا اور شوال کے نفلی روزوں کو جمع نہیں کرسکتے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.