آج کے اس مشینری دور میں جہاں انسان کو سر کجھانے کی
فرصت نہیں ،کون ہے جو اپنے وقت کی اہمیت سے واقف نہ ہو۔۔۔!؟
آج کل غیر تو غیر خود اپنےنزدییے افرادتسلی بخش ملاقات نہںا کرپاتے اور اگر
کرتے بھی ہںو تو ایسے کہ گویاہوا کے گھوڑے پر سوارہوں ۔اس لامتناہی کرہ ارض
پر بہت سا کھویا ہوا مال محنت اور کفایت شعاری سے حاصل ہوسکتاہے ۔مثلاًگئی
ہوئی تندرستی علاج سے اور بھولے ہوئے سبق مطالعہ سے واپس آسکتے ہیں لیکن
گیا وقت ہاتھ آتانہیں !!!
رسول خداصلی اللہ علہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:"یا اباذر کن علی عمرک
اشح منک علیٰ درھمک و دینارک "اے ابوذر! اپنی عمر کے سلسلے میں درہم ودینار
سے زیادہ حریص و بخیل بنو ۔(الوافی جلد 26صفحہ 186،ناشر :کتابخانہ
امیرالمومنین ،اصفہان 1406)
مال و دولت اور عمر کے خرچ کرنےمیں ایک نمایاں فرق پایا جاتاہے ۔درہم و
دینار ہاتھ سے نکل جانے کے بعد محنت و مشقت کے ذریعہ دوبارہ حاصل ہوسکتاہے
اور اگر جہد مسلسل اور کام میں لگن دکھائی تو پہلے سے زیادہ بھی مل سکتا
ہے۔پر گزرے ہوئے وقت کا ایک لمحہ بھی واپس نہیں آسکتا!
حضرت امام علی علہہ السلام فرماتے ہیں :"والفرصتہ تمر مرالسحاب فانتھزوافرص
الخیر ۔"اور فرصت کی گھڑیاں (اڑتے ہوئے )بادل کی طرح گزرجاتی ہیں۔لہذ
ا،بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو ۔(کلمات قصار 20)
تاریخ اسلام کے باب امامت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو امام جعفر صادق علہ
السلام نے وقت سے خوب فائدہ اٹھایا ۔جب دو حکومتیں "بنی امیہ اور بنی عباس
"ایک دوسرے کے قلع و قمع کرنے پر تلی ہوئی تھیں اور دونوں خلافتوں کے طرفدا
خوداپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے تھے تو ایسے پر آشو ب دور میں آپ نے دین
اسلا م کی ترویج اور پیغام الٰہی کی نشر و اشاعت میں دن رات ایک کردئے ۔
اس کائنات میں ستاروں کی طرح انگنت افراد نے آنکھیں کھولیں اور زندگی
کےآخری لمحات تک دنیا و مافیھاکو دیکھتے ہوئے کوچ کرگئے۔لیکن تاریکی شب میں
ستاروں کی طرح روشن تو بس انگشت شمار افراد ہی رہے ہیں۔یہی وہ لو گ ہیں جو
زندگی میں انبیاء کرام اور معصو م علہما السلام کے وارث کی حیثیت رکھتے
ہیں۔انہوں نےجب موت سے ملاقات کی توکردارکی صورت میں اپنے وجود بابرکت کو
سماج کے درمیان ہدیہ کر گئے ۔ایسے افرا د کی صفات حمیدہ تو بہت ہوتی ہیں
لیکن یہ وقت کے استعمال پر خاص نظر رکھتے ہیں ۔جن میں میر حامد حسین کی
شخصیت ایک خاص صفات و کمال کی حامل نظر آتی ہے۔
سید میر علی شریف اپنی کتاب "ہندوستانی کہ من دیدم "میں آپ کےحالات زندگی
کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :آپ نے زندگی کے ہرلمحہ کو مطالعہ اورتحقیق کے
لئے وقف کردیا تھا۔قابل تعجب بات تو یہ ہےکہ آپ دونوں ہاتھوں سے
تحریرفرماتے تھے۔جب داہنا ہاتھ تھک جاتاتو بائیں ہاتھ سے لکھتے اور جب
دونوں ہاتھ سست پڑجاتے تو املاکرتے اور آپ کا کاتب اسے لکھتا۔(ہندوستانی کہ
من دیدم صفحہ 217)
اس دار فانی میں بے حساب لوگوں نے جنم لیا۔مگر صرف چند ہی افراد ہیں صدیوں
پر راج کرتے رہے ہیں۔اس کی خاص وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کو
ہمیشہ مفیدکاموں میں اور ناپ تول کے صرف کیاہے ۔وقت اورصحت اللہ کی دو ایسی
باکمال نعمتیں ہیں جن کی قدر بہت ہی کم افراد نے کی ہے اور جنہوں نے اس کی
قدرمنزلت کا لحاظ رکھا اور انہیں صحیح استعمال کیا وہ علم وترقی کی بلند
چوٹی پر نظر آتے ہیں۔ایسی باکمال اور باعظمت شخصیتوں کے کردار آب حیات سے
تاریخ ہست بود کی پیشانی پر جلی حروف سے تحریر کرناچاہئے تاکہ یہ مر کے بھی
امر رہیں اور گردش لیل و نہار کی بے وفا ہوائیں کبھی بھی ان کےچراغ کو مدہم
نہ کرسکیں ۔ |