تعزیت کالغوی معنی ہے مصیبت زدہ کو صبر دلانا غمخواری
کرنا۔ اصطلاحی معنی ہے صبر کا حکم دینا،گناہ سے ڈرانے،میت کے لیے مغفرت اور
مصیبت زدہ کے لیے مصیبت کی تلافی کی دعا کرنا۔
عام طور پرکسی کا کوئی عزیز رشتہ دار فوت ہو جائے تو اس کے گھر جا کر اس کی
ہمت بندھانا اور فوت شدہ کے لیے دعا کرنا تعزیت کہلاتا ہے۔
بندہ مسلم کی موت پر اس کی تجہیز وتکفین اور تدفین میں شرکت کرنا ایک
مسلمان پر فرضِ کفایہ ہے۔
تعزیت کا طریقہ
تعزیت کے لئے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے، ہاں تعزیت کی
چند شکلیں ہیں جو ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں
تعزیت کے لئے جائے تو میت کی مغفرت اور اس کے وارثین کو صبر پر اجر کی دعا
کرے ، اور اس موقع پر سب سے بہتر دعا یہی ہوسکتی ہے، جسے نبی ﷺنے پڑھی ہے
ترجمہ:۔لی ہوئی چیز بھی اسی کی ہے اور دی ہوئی چیز بھی اسی کی تھی اور ہر
چیز اس ذات کے پاس وقت مقررہ کے مطابق لکھی ہوئی ہے۔
اس موقع پر میت کے رشتے داروں اور اقربا کو صبر وثواب کی امید کی ترغیب دی
جائے۔
تعزیت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام
کرکے یا اس سلسلے میں ان کی ضرورتوں کو پوری کرکے انہیں تسلی دی جائے، نبی
کریم ﷺ کو جب اپنے چچا حضرت جعفر بن ابی طالب کی جنگ موتہ میں شہادت کی
اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے گھر میں حکم دیا: جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا
تیار کرو، غم کے سبب ان کے اہل خانہ یہ نہیں کرسکتے
اسی طرح اہل میت کے لئے چائے بنانے، کپڑوں کے دھونے، گھر کی صفائی کرنے اور
اس طرح کے روزمرہ کے کاموں میں ان کی مدد کی جائے چونکہ یہ کام بھی گھر میں
وفات ہونے کے سبب اہل میت انجام دینے سے رک جاتے ہیں۔
اہل میت کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں صبر وثواب کی ترغیب دی
جائے،اور اچھی باتیں کرکے ان کے غم کو ہلکا کرنے کوشش کی جائے، نیز اس موقع
پر انبیا ء اور صالحین کے قصے سنائے جائیں تاکہ ان کا غم ہلکا ہو۔اس موقع
پر اہل میت کے سامنے ہمارے نبی ﷺ کے صبر اور آپ پر آنے والی مصیبتوں کا
مذاکرہ کیا جائے۔
تعزیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اہل میت کے بچوں کی نگہداشت کا اہتمام ہو ، ان
کا دل بہلایا جائے اور انہیں اپنے گھر کے بچوں میں شامل کیا جائے، کیونکہ
چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی کے فوت ہونے کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے، لہذا
اہل میت کے بچوں کی تربیت اور ان کا خیال رکھنا بھی تعزیت کی ایک صورت ہے۔
تعزیت کی مشروعیت کی حکمت
اہل میت کی تعزیت کی مشروعیت سے عظیم حکمتوں کا ظہور اور بیشمار منافع کا
اندازہ ہوتا ہے
گھر میں وفات کے سبب غم وحزن کے شکار افراد کی تسلی ،غمخواری وہمدردی کے
لئے ان کی تعزیت کرنے سے دین اسلام کی عظمت اور اس کی خوبیوں کا مظاہرہ
ہوتا ہے۔
مسلمانوں میں یکجہتی اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اہل
میت کی مصیبت میں تخفیف ہوتی ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ پیدا ہوتی
ہے اور اس طرح کے حالات میں انہیں خوشی ومسرت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ اس
موقع پر میت اگر مسلمان ہوتو اس کی رحمت ومغفرت اور گناہوں سے معافی کی دعا
کا موقع ملتا ہے۔
تعزیت کے موقع پر زندہ اور مردہ افراد دونوں کے لئے خیر اور دعا نیز تعزیت
کے ذریعے تسلی وہمدردی کا موقع ملتا ہے۔ تعزیت دین اسلام کا ایک مظہر جلیل
ہے جسے شریعت اسلامی نے مشروع قرار دیا ہے۔
بعض فقہا کرام نے کہا ہے کہ تین دن کے بعد تعزیت نہیں ہے
تین دن سے زیادہ سوگ
حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا کا بیٹافوت ہو گیا۔ تیسرے دن انہوں نے زرد رنگ کی
خوشبو منگواکر استعمال کی اور کہا: ہمیں (مسلمان عورتوں کو)شوہر کے علاوہ
کسی اور پر 3دن سے زیادہ سوگ کا اظہار کرنے سے منع کیا گیاہے۔
خاوند پہ سوگ چارماہ دس دن
حضرت زینب رضی اﷲ تعالی عنہا نے فرمایا کہ میں حضورنبی اکرم ﷺ کی زوجہ حضرت
ام حبیبہ رضی اﷲ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ ان کے والد ماجد
حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اﷲ تعالی عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت ام
حبیبہ رضی اﷲ عنہا نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی۔
انہوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگائی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر بھی مل
لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم!مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول
اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں جو اﷲ اور قیامت
پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے سوائے اپنے خاوند
کے اس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔(بخاری ومسلم)
تعزیت کے فضائل
تعزیت کے فضائل میں متعدد احادیث وآثار منقول ہیں اور مسلمانوں کا اس پر
عمل بھی ہے
ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓسے نقل کیا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
ترجمہ :۔جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر
ثواب ملتا ہے۔
ابن ماجہ اور دیگر نے حضرت عمرو بن حزمؓ سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا
ترجمہ :۔جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرتا ہے ، اﷲ
تعالی اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔
طبرانی اور دیگر محدثین نے نبی ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے جس نے کسی مصیبت زدہ
کی تعزیت کی اﷲ تعالی اسے جنت کے کپڑوں میں سے ایسے دو جوڑے پہنائیں گے ،
دنیامیں جو عدیم المثال ہے۔
تعزیت کے بارے میں مذکورہ فضائل اور اس کے ثواب کے علاوہ تعزیت کی سب بڑی
فضیلت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ عمل نبی ﷺ کی قولاً، فعلاً، اور حالاً
واقراراً سنت ہے۔
تعزیت کرنے والے ان آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے
اہل میت کی نفسیاتی، اجتماعی اورمعاشی حالت کا خیال رکھنا ضروری ہے، باربار
ان کے پاس آنے سے انھیں زحمت نہ ہو،ان کے پاس قیام کرنے سے ضیافت کا بوج نہ
پڑے، اسی طرح گھر کی تنگی کے سبب تکلیف نہ ہو۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ
تعزیت کے وقت اہل میت کی نفسیات کا خیال رکھا جائے اور اس موقع پر مناسب
بات چیت کا بھی خیال رکھا جائے، ایسا نہ ہو کہ گفتگو سے ان کے غم میں مزید
اضافہ ہو۔
خاص طور پر خواتین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تعزیت کے موقع پر
آوازوں کو بلند کرنے، چہروں کو نوچنے، کپڑوں کے پھاڑنے اور بالوں کو نوچنے
یا میت کی خوبیوں کو بلند آواز کے ساتھ گنگنانے یا اس کے مناقب کو یاد
کرکرکے رونے سے کلی طور پر پرہیز کریں کیونکہ یہ سب باتیں حرام ہیں۔نبی
کریم ﷺ نے ان باتوں کو جاہلیت کے اعمال بتایا ہے۔
مرنے والوں پرنوحہ کرنا
جب حضرت جعفر رضی اﷲ عنہ کی وفات کی خبر آئی توآپ ﷺ نے ان کے اہل و عیال کے
لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ ان لوگوں کو ایسی پریشانی آئی
ہے جس میں وہ کھانا نہیں پکا سکیں گے۔
میری امت میں سے (جاہل)لوگ زمانہ جاہلیت کے چارکام نہیں چھوڑیں گے
(1) اپنے حسب (خاندان)پر فخر کرنا
(2) دوسروں کے حسب پرطعنہ زنی کرنا
(3) ستاروں سے بار ش طلب کرنا
(4) مرنے والوں پر(بین )نوحہ کرنا
پھرآپ ﷺ نے فرمایا : اگر نوحہ کرنے والی عورت توبہ کرنے سے پہلے فوت ہو گئی
تو اسے قیامت کے دن گندھک اور خارش والا کرتا پہناکر اٹھایا جائے گا۔(مسلم
شریف)
مسلمان عورتوں سے بیعت لیتے وقت آپﷺنے یہ بھی عہد لیاتھاکہ وہ نوحہ
(ماتم)نہیں کریں گی۔ (بخاری شریف)
تعزیت کے موقع پر مختلف قسم کے خلاف شریعت اعمال کئے جاتے ہیں، جن کے کرنے
پر میت کو تکلیف ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
ترجمہ:۔میت کو اس کے اہل خانہ کی آہ وبکا کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے
ترجمہ:۔یعنی میت کو اس پر نوحہ خوانی کرنے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔
مرنے والوں کے حق میں اچھی بات کہو
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ر سول کریمﷺ (ہمارے گھر)تشریف لائے۔ اس وقت
ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔ آپ ﷺ نے ابو سلمہ رضی اﷲ
عنہ کی آنکھیں بند کرکے فرمایا: جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کے تعاقب
میں جاتی ہے۔ گھر والے اس بات پر رونے لگے تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے مرنے
والوں کے حق میں اچھی بات کہو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین
کہتے ہیں۔ پھر آپ ﷺنے (ابوسلمہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں)یہ دعا فرمائی: اے
اﷲ!ابوسلمہ کو بخش دیجیئے، اسے ہدایت یافتہ لو گوں میں بلندمرتبہ عنایت
فرمائیے اور اس کے ورثا ء کی حفاظت فرمائیے، اے رب العالمین، ہم سب کو اور
مرنے والے کو معاف فرما دیجئے، میت کی قبر کشادہ اور اسے نورسے بھر
دیجیئے۔(مسلم شریف)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کی بیٹی کی تدفین کے وقت موجود
تھا آپ ﷺان کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری
تھے۔ (بخاری شریف)
اﷲ پاک ہمیں ان تمام فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خلاف شرع
کاموں سے ہمیں بچائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
|