سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ دین اسلام سے پہلے بیٹیوں
کو زندہ جلا دیا جاتا تھا ،دفن کردیا جاتا تھا یا بیچا جاتا تھا اس سوچ سے
ہی باپ،بھائی کے علاوہ ہرزی انسان کی روح تک کانپ جاتی ہے میں سوچتاہوں
اگراسلام سے پہلے یہ سب ہوتا تھا تو کیااب اسلام ختم ہوگیا ہے آج بھی لوگ
بیٹیاں پیداہونے سے ڈرتے چاہے بیٹی کو جتنا بیٹے جیسے سہولیات دے دیں اسے
فرینڈلی ماحول دیں مگرپھربھی دل میں ڈرلگا رہتا ہے کہ ہے تو بیٹی ہی کیونکہ
باہرجتنے درندے ہیں ان سے بیٹی کو کیسے بچایاجائے یہ ڈرسالگارہتا ہے اگران
سے بچ جائے تو شادی کے وقت پیسے کے بھوکے اپنے بیٹے پرخرچ کی گئی رقم کا
معاوضہ جہیز کی صورت میں لینے آجاتے ہیں جہیزجس کے اصطلاحی معنی استعمال کی
چیزوں کے ہیں جو والدین بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے دیتے ہیں کہ ہماری بیٹی
ان چیزوں کااستعمال کرے گی مگرآج کے دور میں جہیز ایک ناسور بن چکا ہے
کیونکہ اکثرلڑکے والے کہتے ہیں ہمارے لڑکے کوکارپسندہے فلاں فلاں چیز پسند
ہے اب ایک مڈل کلاس خاندان اتنی مہنگی اشیاء کیسے افورڈ کرسکتا ہے انہی
وجوہات کی وجہ سے غریب خاندان اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بیٹی نہیں بیٹا
عطافرماکیونکہ بیٹی کے پیداہونے سے لے کراسکے جوان ہونے تک صرف جہیز کوجمع
کرنے میں لگ جاتے ہیں مگرپھربھی کم پڑتا ہے ماں باپ کوڈرلگارہتا ہے کہ
اگرجہیز کاانتظام نہ ہوسکا تو رشتہ ٹوٹ جائے گا اور ہماری نازک کلی مرجھا
جائے گی اور دنیا والوں کی الگ باتیں سننا پڑیں گی اور بیٹی کو اتنا سامان
تو دیں جس سے دنیا میں ناک کٹنے سے بچ جائے حالانکہ لڑکے والوں کو چاہیے جب
رشتہ دیکھنے جائیں تو حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کو ضرور یادرکھیں آپ ﷺ نے
فرمایا عورت سے شادی کرنے میں چارچیزیں دیکھو(i)دولت مندی(ii)خاندانی
شرافت(iii)خوبصورتی(iv)دین داری لیکن تم دین داری کو زیادہ مقدم سمجھوآج کے
دور میں قرآن وحدیث میں احکامات کو پیٹھ پیچھے ڈال کر ہم جہیز کو ہی ترجیح
دیتے ہیں اورجہیز کو ہی رشتہ کی مضبوطی کا ضامن سمجھتے ہیں ۔مسلمانوں میں
جہیز جیسی لعنت پائی جاتی ہے اس کی وجہ ہندؤں کیساتھ اختلاط ہے ہندؤں کی
تاریخ بتاتی ہے کہ:
قدیم ہندوقانون کے مطابق باپ بھائی کی جائیداد میں سے عورت کا کوئی حصہ نہ
تھا ہاں البتہ رخصتی کے وقت مال وزرداماد کے حوالے کیے جاتے تھے جس سے بیٹی
کو باتین نہ سنناپڑیں اور باپ اس وقت جو کچھ دیتا ہے اس کے بعد وہ اپنی
بیٹی سے ایسے سمجھیں قطع تعلق ہوجاتا تھا جسے کنیادان کہتے تھے(یعنی بیٹی
خیرات،مفت دے دینا)ہندوتاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان کے ہاں
شادی کے تین طریقے رائج تھے(i)برھما(ii)گندھروا(iii)اسورا۔اب جوبرھما تھے
وہ ویدجاننے اور اچھے اخلاق والے لڑکے کو بطورہبہ دیا جاتا تھااس رواج میں
والد اپنی بیٹی کوبیش بہادولت اور زیورات دیتا تھا تاکہ اسے کسی چیز کی کمی
نہ ہو یہ کیونکہ یہ بھی ہمیشہ کا بندھن تھا۔گندھرواطریقہ میں لڑکا اور لڑکی
اپنی مرضی سے شادی کرتے تھے جسے آج لومیرج کہتے ہیں ۔اسوراکارواج میں لڑکا
لڑکی کے خونی رشتہ داروں کو پیسہ دے کرلڑکی لے لیتا تھا یعنی کے والدین یا
رشتہ دار لڑکی بیچ دیتے تھے ۔دوطریقے آج بھی کہیں نہ کہیں پائے جاتے ہیں
مگرپہلارواج آج کل عام ہے کیونکہ اس میں والد جو سونے زیورات دیتا تھا وہ
آجکل جہیز کی شکل لے چکا ہے ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں پرلگتا ہے ہم
نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کیونکہ اگرہم جہیزجیسی لعنت کو ختم کردیں تو کئی
سفیدپوش بیٹیوں کے گھربس جائیں اگرلڑکیوں کے مقابلے اندازہ لگایا جائے
تولڑکے بہت کم ہے اور پڑھے لکھے لڑکوں کی تعدادبہت ہی کم ہے اور جو لڑکا
تھوڑابہت کمانے والا ہے تو اسکے والدین کو پرلگے ہوتے ہیں اور وہ ایسی بہو
کے متلاشی ہوتے ہیں جوچلتی پھرتی سونے کی کان ہو۔
آئے روز اخباروں میں پڑھتے ہیں لڑکی کو جہیز نہ ملنے پرسسرالیوں نے قتل
کردیا ،نکال دیا،جلا دیا فلاں فلاں مگران پیسے کے لالچیوں کو کیا پتا باپ
نے کتنا قرض لے کربیٹی کو جوان کیااور کتنا قرضہ لے کراسے رخصت کیا اس سے
بڑھ کروالدین ایسے جہیز دیتے ہیں جیسے فریضہ دین اداکررہے ہوں آج کل اچھی
لڑکی سے زیادہ یہ دیکھتے ہیں جہیز کتنا ملے گا اس لیے شاعرنے کیا خوب کہا
ہے:
ہے جستجوکہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکے نظرکہاں
شاید شاعرنے جہیز کے متعلق ہی یہ شعرلکھا ہوگا اسی وجہ سے یہ فٹ بیٹھا ہے
مگرلوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ جہیز اکٹھاکرتے کرتے والدین کتنی اذیت
اور قرض برداشت کرتے ہیں حالانکہ جہیز کے متعلق قوانین بھی بنے ہوئے ہیں
مگروالدین اس وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ ہماری لڑکی پرکسی قسم کی انگلی نہ
اٹھائی جاسکے حالانکہ بیٹیوں کی قدروقیمت جہیزسے نہیں انکی اخلاقی ومعاشرتی
تربیت سے لگائی جاسکتی ہے والدین پوری کوشش کرتے ہیں کہہ بیٹیوں کو محفوظ
اور اچھی تعلیم دلائیں مگراس جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے آج بھی کئی لڑکیاں
بے جرم وسزا کنواری بیٹھی ہیں اور والدین کے گھرہی بال سفیدہوجاتے ہیں جب
لڑکیاں جہیز کی بھینٹ چڑھتی ہیں توبرادری تعنہ وتشنہ کرتے ہیں بجائے سپورٹ
کے ۔اگرگزشتہ حکومت کووالدین اور موجودہ حکومت کوسسرال کا نام دیاجائے
توکچھ غلط نہ ہوگاکیونکہ ہماری بیشترحکومتیں یہی تجزیہ پیش کرتی آئی ہیں کہ
ہمیں خزانے(جہیز)میں کچھ نہیں ملا خزانہ خالی تھا ،لوڈشیڈنگ کی
انتہاتھی،حساس اداروں میں نالائق افراد کی بھرتی،اقرباء
پروری،لاقانونیت،درآمدات وبرآمدات میں سرعت کے ساتھ کمی وغیرہ وغیرہ اور
پھردعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے کنٹرول کرکے کافی حدتک حالات بہترکرلیے ہیں
مگرسب اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ آنے والی حکومت انہی کاموں کی نشاندہی
کرارہی ہوتی ہے ۔شادی ایک پاک بندھن ہے جسے آجکل کے لوگوں نے کاروبار بنا
کررکھ دیا ہے جوان بیٹی کے گھرمیں بیٹھنے کا دکھ صرف ایک باپ ہی سمجھ سکتا
ہے کیونکہ جب جوان بیٹی گھرمیں بیٹھی ہوباپ کام پر ضرورہوتا ہے مگر اس کا
دل ودماغ گھرپرہوتا ہے کہ کب کوئی اچھا لڑکا ملے تو اپنی بیٹی کو رخصت کروں
مگرمڈل کلاس خاندان میں یہ باتیں باربار ڈراتی ہیں کیونکہ لڑکے والے آکے
کہہ دیتے ہیں ہمیں فلاں فلاں چیز چاہیے ورنہ ہم رشتہ نہیں کرتے اب جب کوئی
لڑکی دیکھنے آتا ہے تو مجبوراً والدین ہربات مان لیتے ہیں ورنہ لوگ باتیں
کرتے ہیں کہہ لڑکی میں کوئی کھوٹ ہو گا جس وجہ سے یہ رشتہ نہیں ہوا۔لڑکی کے
کھوٹ سے یاد آیا میرے ایک جاننے والے صحافی کی بیٹی کے ساتھ دو لڑکوں نے
زیادتی کی اور ویڈیوز بنالیں اس کی اکلوتی لڑکی ہونے کی وجہ سے اس نے بڑی
کوشش کی کہہ بات باہر نہ نکلے مگرجیسے دیواروں کے کان ہو دنیا کو سب پتا چل
جاتا ہے اب اس نے جو عزت بنائی تھی وہ گئی اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس
لڑکی سے اب کون شادی کرے گا اور اگرکوئی کرے گا بھی تو اسے روز کے تانے مار
ڈالیں گے مگراس میں اس لڑکی کا کیا قصور ہے سب کیا دھراان لڑکوں کا ہے
۔جہیز والدین کی طرف سے محبت وشفقت کی نشانی ہوتی ہے جیسا کے ہمارے پیارے
نبی حضرت محمدﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ کو جہیز میں
چادرمشکیزہ،چمڑے کاتکیہ اور کچھ روایات میں آتا ہے کہ مٹی کا پیالہ بھی دے
کررخصت کیا تھا ۔حضورنبی کریم ﷺ نے جتنی بھی شادیاں کیں کوئی بھی بیوی جہیز
لے کرنہیں آئی اور اسلام میں والدین کی استطاعت اور حیثیت کے مطابق جہیز کا
تصور پایا جاتا ہے البتہ یہ فرض یا واجب نہیں۔ایک سروے کے مطابق ساؤتھ
ایشیاء کے ممالک بھارت،پاکستان اور بنگلادیش میں کنواری لڑکیوں کی شرح میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے والدین کے پاس جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بچیاں کنواری
ہی اپنے والدین کے گھردم توڑ دیتی ہیں اور یہ مسئلہ اب خطرناک بنتا جارہا
ہے ۔2005میں جہیز کا قانون سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امورکے اس
وقت کے چیئرمین سمیع الحق نے جہیز کی بے جا کنٹرول کی حد بندی کا بل
منظورکردیا جس میں 50,000سے زائد کا جہیز لینے والے کو ایک سال قید کی سزا
دی جائے گی مگرآج تک اس قانون پر عمل نہ ہوسکا ۔اگرہم کالم نگارصحافی جہیز
کو لعنت یا فرسودہ روایات کہتے ہیں تو یہ درست نہیں اگراس میں مسائل آرہے
ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کو بھی جہیز دیا تھا اور جو کام ہمارے نبی
کریں وہ غلط ہوہی نہیں سکتا اسی لیے جہیز کو غلط نہ کہیں کیونکہ اس رسم کو
لالچی لوگ خراب کررہے ہیں کیونکہ جہیز جتنالڑکی کے والدین دیں وہ ہمارے نبی
ﷺ کے مطابق ہے اور اگرلڑکے والے ڈیمانڈ کریں تو وہ غلط ہے اسی لیے جہیز کو
غلط نہ سمجھیں اور اپنے آپ کو درست کریں ۔اسی لیے ہماری مسلمان بہنیں آگے
بڑھیں اور اپنے علاقے میں جہیز کے متعلق صحیح اسلامی تصوراجاگرکریں اور جو
جہیز کے بھوکے خاندان ہیں انکے خلاف نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ اس
برائی کا خاتمہ ہوسکے اس میں سب سے اہم کردار ہماری حکومت کو اداکرنا ہوگا
اور جائزہ لینا ہوگا کہ جو بھی جہیز لے اسکے خلاف سخت کاروائی کریں اور
سزائیں دیں ۔ |