اسوۂ رسول ﷺ اور اصول حکمرانی

اﷲ تعالیٰ کے کرم سے جس طرح انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرتا رہا اسی طرح اس کے تمدنی ،معاشرتی اور اخلاقی نام اور قوانین میں بھی ترقی ہوتی رہی۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انسان کے شعوری دور کو اپنی تکمیل تک پہنچنا تھا لہٰذا قدرت نے بھی وقت اور تقاضے کے مطابق اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو مبعوث فرما کر آپ ﷺ کی ذات والا صفات پر نبوت و رسالت کو ختم کر کے دین اسلام کو مکمل کر دیا ۔جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اب کسی رسول اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی جب تک دنیا قائم ہے اﷲ کی کتاب اور اس کے آخری رسول اور نبی کی سنت سے دنیا کی ہر قوم ،ہر ماحول اور زمانے کو ہدایت اور رہنمائی میسر آتی رہیگی ۔آئیے ہم اُس پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں جس کی پاکیزہ سیرت ،حیات مقدسہ دنیا کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے ۔جس کا نام نامی اسم گرامی انبیائے کرام کی تاریخ میں اس امتیاز سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس نے عربوں کی جو مخاطب اول بنے نادرست معیشت کو اور بکھری ہوئی معاشرت کو تھوڑے ہی دنوں میں ایک لڑی میں پرودیا ۔ذات پات اور اونچ نیچ کے امتیازات کو مٹا کر سب کو ایک کر دیا اور نیک بنا دیا ۔
حضور ذات رسالت مآب محمد رسول اﷲ ﷺ پر لاکھوں درود و سلام ہوں کہ آپ نے اتنی تھوڑی مدت میں اتنا بڑا نتیجہ خیز انقلاب پیدا کیا جس سے تمام عرب کی کایا پلٹ گئی ۔عرب کے وحشی جو تہذیب و تمدن کے نام تک سے نا آشنا تھے ۔حضورﷺ کے فیضانِ صحبت سے ایسے متمدن اور مہذب ہو کر اٹھے کہ اصول جہاں بانی اور جہانگیری میں اقوام عالم کے استاد کہلائے ۔
اب سوچنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟ کیا اس کے لئے آپ نے کسی نظام میں تبدیلی کی ؟کیا تہذیب و تمدن کو بدل ڈالاکیا؟یک زبانی پیدا کی یا ایک لباس مقرر کیا؟ غرض خوشگوار انقلاب آیا تو کیونکر آیا؟
تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک اندر کی دنیا میں انقلاب نہیں آتا باہر کی دنیا میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی خوش گفتار اور اعلیٰ سیرت و کردار کے اثر سے جس شے میں تبدیلی پیدا کرنا سب کاموں پر مقدم جانا وہ دل کی دنیا ہے ۔ جب تک دل نہیں بدلتا ۔طبیعت نہیں بدلتی مزاج نہیں بدلتا اس وقت تک نظام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی مزاج چونکہ دل کے تابع ہے لہٰذا جب تک دل نہ بدلے باہر کی دنیا کی کوئی شے نہیں بدل سکتی ۔
حضور علیہ السلام کا سب سے اہم اور انقلاب آفریں کارنامہ یہی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی سے ان لوگوں کے مزاج جن کے دل پہاڑوں کی طرح سخت جن کے دماغ میدان کی طرح چٹیل تھے کو بالکل بدل ڈالا۔ اُن کے سینے میں ایسا دل پیدا کر دیا جو اپنے دل کی طرح دوسروں کے دکھ محسوس کرتا اور ان کے دکھ درد کو بانٹنے کی کوشش کرتا تھا ۔
پھر چشم فلک نے وہ دور بھی دیکھا جس میں دل کی ماہیت بالکل بدل گئی۔ میدان جہاد گرم ہوتا ہے۔ مجاہدین اسلام اپنے سروں پر کفن باندھ کر اپنے گھر بار اور بیوی بچوں کو خدا کے بھروسے پر تنہا چھوڑ کر دشمنوں کے مقابلے میں نکل آتے ہیں ،تیغ آبدار کے جوہر دکھاتے ہیں ۔اس اثناء میں ایک مسلمان اپنے زخمی بھائی کی تلاش میں پانی کا پیالہ لے کر نکلتا ہے کہ شاید وہ اس سے اپنے زخمی بھائی کی کچھ خدمت کر سکے ۔جان نثاران اسلام کے درمیان اتفاق سے اپنے زخمی بھائی پر نظر پڑتی ہے وہ فوراً پانی کا پیالہ بھر کر زخمی بھائی کو پیش کرتا ہے مگر وہ دوسرے زخمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھو! پہلے انہیں پلاؤ مگر وہ زخمی بھی پانی پینے کی بجائے تیسرے زخمی بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ !نہیں ! پہلے انہیں پلاؤ مجھ سے انہیں زیادہ پیاس ہے۔ غرض ہر زخمی ایثار و اخلاص کا نمونہ پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی ذات پر ترجیح دیتارہا ۔ پھر جب وہ پیالہ چکرکاٹ کر پہلے زخمی تک پہنچا تو وہ اﷲ کو پیارا ہو چکا تھا ۔اسی طرح سے دوسرا تیسرا زخمی دار الفنا سے دار البقا کی طرف روانہ ہو گیا تھا اور پانی کا پیالہ جوں کا توں دھرے کا دھرا رہ گیا ۔یہ بے غرض اور بے نفسی کا عالم یقینا اس برگزیدہ ہستی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی تعلیمات اور تربیت کا نتیجہ ہے جو خدا کے بعد سب سے بڑھ کر ہیں اور یہ بھی آپ ﷺ ہی کے عہد رسالت کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کے پاس چند مہمان آئے آپ ﷺ کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔آپ ﷺنے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے فرمایا انہیں کون اپنے گھر لے جا سکتا ہے ایک صحابی نے عرض کیا ۔ حضور اس خدمت کے لئے بندہ حاضر ہے ۔یہ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اﷲ عنہ تھے ۔وہ حضور اکرم ﷺ کے مہمانوں کو اپنے گھر لے گئے ۔گھر میں کھانا کم تھا ۔ مشورہ میاں بیوی میں یہ طے پایا کہ بچوں کو سلا دیا جائے اور چراغ بجھا کر کھانا مہمانوں کے سامنے رکھ دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا حتیٰ کہ مہمانوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ عنہ بھوکے اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے اپنے مہمانوں کو اس بات کا قطعی علم نہیں ہونے دیا کہ ان کا میزبان کھانے میں شریک نہیں وہ خالی ہاتھ منہ تک لے جاتے رہے اور مہمان یہ سمجھتے رہے کہ ان کا میزبان بھی ان کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے ۔
دراصل !جب تک بنجر زمین کو صاف نہیں کیا جاتا اور اسے قابل کاشت نہیں بنایا جاتا اُس وقت تک اس میں تخم ریزی بار آور نہیں ہو سکتی ۔
حضور اکرم ﷺ نے بھی سب سے پہلے یہی طرز عمل اختیار فرمایا کہ لوگوں کے دل و دماغ کو پاک صاف کیا پھر انہیں اﷲ کی آیات سنائیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دی یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ رزم و بزم دونوں جگہ مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے دنیا کی تمام قوموں کے درمیان ایک ممتاز اور منفرد قوم شمار ہوئے ۔
ہمیں حضور اکرم ﷺ کی پاکیزہ سیرت سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم مصائب و آلام کی بھٹی میں اترتی ہے تو وہ اس طرح سے کندن بن کر نکلتی ہے جس طرح سے ایک ماہر تجربہ کار آہن گر کے ہاتھوں لوہا بھٹی میں اتر کر اعلیٰ اوزار بن جاتا ہے ۔
یہاں میرا واضح اشارہ تاریخ اسلام کے اُس ابتدائی دور کی طرف ہے جس میں پیغمبر اسلام ﷺاور آپ کے جان نثاروں کے سامنے قدم قدم پر مشکلات کے پہاڑ آئے اور وہ سب کے سب ثابت قدم رہے یہ نتیجہ تھا حضور اکرم ﷺ کی تربیت کا جس نے مسلمانوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرنے اور چٹانوں سے ٹکراجانے کا حوصلہ پیدا کیا ۔
حضور اکرم ﷺ کی ذات والا صفات کی پاکیزہ حیات بہت سے کمالات کا مجموعہ تھی۔ زندگی کے تمام شعبوں اور دنیا کے تمام گوشوں میں آپ ﷺ کی سیرت پاک سے راہنمائی اور ہدایت میسر آتی ہے آپ ﷺ کی پیغمبرانہ ذات کی بہت سی شانیں و عظمتیں ہیں میں یہاں مختص طور پر آپ ﷺ کی اس حربی تنظیم اور جنگی بصیرت کا ذکر کرنے پر کتفا کروں گا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔
ایک مغربی مفکر کے بقول جب اسلام کا دنیا میں ظہور ہوا عرب کے مرکزی شہر مکہ کے لوگ آپ کے مخاطب اول بنے اور آپ ﷺنے کامل تیرہ برس تک ان میں اسلام کی تبلیغ کی اور انہیں حق کی طرف بلایا تو اس طویل عرصے میں صرف پندرہ (1500)سو افراد ایسے ملے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔
جب اسلام کے آخری نبی و رسول اور آپ کے جان نثار مسلمانوں پر کفار مکہ نے اس حد تک عرصہ حیات تنگ کر دیا کہ آپ کو اپنے وطن سے نکل کر ایک غار میں پناہ لینی پڑی اپنے اور مسلمانوں کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے جب آپ نے مکے سے نکل کر مدینے میں قدم رکھا اس واقعے کو تاریخ اسلام میں ہجرت نبوی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تو اس وقت یعنی ہجر ت کے دوسرے سال سے حق و باطل کے درمیان ایک باقاعدہ رزم آرائی کا آغاز ہو گیا ۔اس سے پہلے مکے میں صرف کافروں سے مقابلہ تھا مگر اب مدینے میں پہنچ کر یہودیوں کا بھی سامنا کرنا پرُ گیا اور اس طرح سے اب مقابلہ دہرا گیا ہو۔مکے میں کافروں کا مقابلہ آسان کیونکہ وہ کھل کر سامنے آتے تھے اس کے بر عکس یہودیوں کی تمام کاروائیاں خفیہ ہوتی تھیں ۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اب مدینے کے یہودی اورمکے کے قریشی سردار سرگرم عمل تھے گویا میدان جنگ میں اب تین گروہ تھے ۔ مسلمان ، یہودی اور قریشِ مکہ۔
مسلمانوں میں ایک تو وہ تھے جو مکے سے لٹ پٹ کر آئے تھے ۔دوسرے وہ تھے جو مدینے کے یہودیوں کے زیر اثر تھے غریب اور تہی دست تھے ۔دوسری جانب دو فریق اسلام او رمسلمانوں کے خلاف متحد ہو چکے تھے ۔ایک قریش جو مکے پر حکومت کرتے ہر طرف ان کا سیاسی اور اقتصادی دباؤ تھا۔ دوسرے یہودی تھے جو مدینے سے شام تک سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔یہ گویا چکی کے وہ دوپاٹ تھے جن کے درمیان غریب و نادار مسلمان پس رہے تھے ان کی حالت یہ تھی کہ ان میں نہ کوئی جنگی تنظیم تھی نہ حربی طاقت!قریش مکہ اور یہود مدینہ دونوں یہ محسوس کر رہے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کی اشاعت اور ترقی سے ان کی سیاسی اور اقتصادی گرفت ڈھیلی ہو تی جا رہی ہے اگر اسلام اور مسلمان اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو ایک دن اُن کا اقتدار خاک میں مل جائے گا۔
چنانچہ ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کی پوری اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی اسلام اور مسلمان کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے اسلام دشمن قوتیں مجتمع اور متحد ہو کر مصروف عمل ہو گئیں ۔
ایسے نازک دور میں مسلمانوں کی ایک ایسی قوم جو ابھی غیر منظم تھی ۔مفلس و نادار تھی ۔جس کی تباہی و بربادی کے لئے زندگی کے تمام رستے بند کر دیئے گئے ۔ایسے ہولناک اور نامساعد حالات میں جنگی صلاحیتوں اور حربی طاقتوں کو ابھارنا اور اجاگر کرنا حتیٰ کہ بے سرو سامان مٹھی بھر مسلمانوں کو لا تعداد اور آزمودہ کار جنگی لشکروں اور سورماؤں سے ٹکرا دینا اور اس تھوڑی سی جماعت اسلام یعنی مسلمانوں کا پے در پے اپنے دشمنوں پر غالب آنا فتح حاصل کرنا حضور اکرم ﷺ کی حکمرانی کا وہ پیغمبرانہ پہلو ہے جس سے اگر ایک طرف اسلام کا جنگی قانون تربیت پاتا ہے تو دوسری طرف اسلام کا طرز حیات اور نظام حکومت بھی سامنے آتا ہے جسے قرآن حکیم میں خلافت اور موجودہ زمانے کی مرجہ اصطلاح جمہوریت کہتے ہیں ۔
اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ جب مکہ فتح ہوا گیا اور کافروں کی ہر مزاحمت سے اسلام کے نام لیوا محفوظ ہو گئے اور لوگ جوق در جوق اسلام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تو اس وقت ضرورت اس بات کی پیش آئی کہ اسلامی زندگی میں ایک تنظیم اور مرکزیت ہونی چاہئے اور اس کے لئے ریاست کا جو اسلام کی تعلیمات کے نتیجے ہی میں قائم ہوئی ۔ایک امیر ہونا چاہیے جو وحدت ملی کو قائم رکھ سکے ۔چنانچہ نبی آخرالزمان محمد رسول اﷲ ﷺ اتمام حجت کے لئے اسلام کی اس پہلی حکومت کے امیر یعنی خلیفۃ اﷲ بھی کہلائے یہ گویا محمد الرسول اﷲ ﷺ کے پیغمبرانہ فرائض میں شامل تھا کہ ایک اسلامی معاشرہ پیدا ہونے کے بعد آپ ﷺ مسلمانوں کو جہانبانی کے اصول بتائیں اور اصول سیاست سکھائیں تاکہ دنیا کی تمام قوموں پر یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ جس دین کا مل کو لے کر آئے ہیں وہ زندگی کے ہرشعبے اور دنیا کے ہر شعبے اور گوشے کے لئے کافی ہے ۔
بحیثیت ایک حکمران حضور اکرم ﷺ نے اہل دنیا کو جس نظام حکومت سے روشناس کرایا اُس کی اولین دفعہ یہی ہے کہ خدا کے سوا کوئی اﷲ نہیں ۔کوئی اس کا شریک نہیں سلطنت ،دولت، ملک ،حکومت اور حمد اسی کے لئے ہے وہی مارتا اور جلاتا ہے اور تمام چیزوں پر قادر ہے ۔اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کے اس تصو کی رو سے حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذات اقدس خلیفۃ اﷲ بھی قرار پائی اور مسجد نبوی یعنی اﷲ کا گھر ایوان خلافت ٹھہرا اور خلافت کے نظام کی اساس آیہ قرآنی وشاورھم فی الامر۔پر قائم ہے ۔یہی سبب ہے کہ حضوراکرم ﷺ صاحب وحی تھے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے صلاح مشورے ہی سے ملکی امور میں کوئی قدم اٹھاتے ۔
سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ ﷺ نے اپنی ذاتی حیثیت کو پس پردہ رکھ کر نبوت ہی کو مقدم رکھا۔جو لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں ہوتے ان کا تعلق بھی خلافت الہٰی یا نبوت ہی کے ساتھ ہوا تھا اور آپ ﷺ اسی حیثیت میں ان کی مہمانداری کرتے ۔ جب کوئی تنگدست آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ ﷺ اسے برہنہ تن دیکھتے تو حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو حکم دیتے اور وہ قرض لے کر اس کے کھانے پینے اور کپڑے کا انتظام کرتے۔ جب آپ ﷺکے پاس کہیں سے کچھ مال آتا تو اُس کے ذریعے سے وہ قرض ادا کر دیا جاتا ۔یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی خدمت میں ذاتی طور سے بھی کوئی ہدیہ پیش کرتا تو آپ ﷺ اسے اپنی ذات پر صرف کرنے کی بجائے اسی راستے میں صرف کر دیتے۔
انسان کے غرور و تمکنت اور جاہ و جلال کا اصل موقع وہ ہوتا ہے جب وہ اپنے دائیں بائیں جلو میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے جو اس کے ایک ادنیٰ سے اشارے پر اپنی جان تک قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔خاص کر جب وہ فاتحانہ شان سے ایک لشکر جرار لے کر کسی شہر میں داخل ہوتا ہے لیکن حضور والا صفات حضر ت محمد رسول اﷲ ﷺ عربی قریشی الہاشمی نبی الآخر الزماں رسول برحق پر لاکھوں درود و سلام ہوں آپ جب فتح مکہ کے بعد شہر میں پر امن طریقے سے داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے عجز و انکساری کے ساتھ اپنا سرا سقدر جھکا دیا کہ وہ کجاوے سے آکر مل گیا ۔یہ پیغمبرانہ حیثیت میں آپ ﷺ کی حکمرانی کی ایسی شان ہے جس سے اہل دنیا کو آئین جہانبانی کی تعلیم و تربیت میسر آتی ہے ۔خلافت کے معنی اور مفہوم کا پتہ چلتا ہے ۔
خلافت الہٰیہ یعنی یہ اسلام کی سب سے پہلی جمہوری حکومت تھی جو دس(10)لاکھ مربع میل رقبے پر مشتمل تھی ۔حضور اکرم ﷺ نے اپنی پیغمبر انہ حیثیت میں دس برس تک اس ریاست کی سربراہی کے فرائض انجام دیئے ساری دنیا آج اس بات پر محو حیرت ہے کہ دس برس کے عرصے تک مسلمانوں اور دشمنوں میں جو معرکہ آرائیاں ہوئیں ان میں دشمنوں کے صرف ڈیڑھ سو آدمی میدان جنگ میں کام آئے ۔کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اسلام نے خلافت کے نام سے حقیقی جمہوریت کا جو نظام پیش کیا ہے وہ نہ کسی سے ماخوذ ہے نہ مماثل اور یہ کہ اس میں تمام انسانی مسائل کی حتمی ضمانت موجود ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے بحیثیت حکمران اپنی ذات یا رشتہ کے لئے کسی کا خون نہیں بہایا ۔ بلکہ اپنے پیارے چچا حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کو سفا کانہ انداز سے شہید کروانے والی ہندہ کو بھی مسلمان ہونے پر معاف فرما دیا ۔حکومتی خزانوں کو بے دریغ خرچ کرنے کی بجائے اعتدال کا راستہ اختیار فرمایا اور صحابہ کرام کو بھی اسی کی تلقین فرمائی۔ عدل و انصاف میں کسی رشتہ تعلق اور حسب و نسب کو خاطر میں نہ لاتے بلکہ حقیقت پسندانہ فیصلہ فرماتے جس پر تا قیامت غیروں کو تنقید و تنقیص کا کوئی پہلو میسر نہ آتا۔ خلافتِ الہٰی کی سندِ علیین پر متمکن ہونے والے بے عیب و معصوم عن الخطاء حکمران حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی زندگی کو تعیش و نعم سے تعبیر نہیں فرمایا بلکہ دنیا کے مفکر ین و مد برین ورطۂ حیرت میں گم ہیں کہ جہاں میں انقلاب لاکر ،انسانوں کو تعلق باﷲ سے مستحکم کرنے والے اور بڑے بڑے نامور حکمرانوں کے ذہنوں پر رعب و دبدبہ پانے والے آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے گھر توتین تین دن تک فاقے رہتے ،عیش و عشرت تو درکنار دو وقت کا کھانا میسر نہ آتا، کپڑوں میں اصراف تو درکنار بعض اوقات ستر ڈھانپنے تک اکتفا فرماتے ۔جب خود ماڈل بن کر اپنے خدا کے وضع کئے اصول حکمرانی پر عمل کر کے کردار لازوال کو دنیا کے سامنے رکھا تو معاشرہ عدل و انصاف سے مہکنے لگا۔ عورت کی عزت محفوظ ہو گئی ۔مال و دولت کو ضرورت کی حد تک محسوس کیا جانے لگا۔ قتل نام کی چیز دور دور تک نظر نہ آتی ۔احترام انسانیت ،معاشرتی امن ،اقتصادی ترقی ،معاشی خوشحالی اور اطاعت امیر کا جذبہ پروان چڑھا ۔جس سے انسانیت کو معراج نصیب ہوئی ۔ مگر آج مسلم دنیا اصولِ حکمرانی کا جذبہ پسِ پشت ڈال کر قیصرو کسریٰ کی پر تعیش زندگی کی طرف راغب ہو گئی ۔
جمہوریت کے نام پر قتل و غارت گری ،قیامِ امن کے نام پر تباہی ،ترقی کے نام پر بے حیائی ،عدل کے نام پر خون کی ہولی اور ریاست میں قانون کے نفاذ کے نام پر آمرانہ فکر کا تسلط معمول بن گیا ہے ۔حکمرانوں نے عجز و انکساری چھوڑ کر تکبر و بربریت کو شعار بنا لیا ہے ۔ایک وقت کے کھانے پر کروڑوں روپے خرچ کر کے منوں کھانے ضائع کرنا جبکہ اسی ملک کی عوام روٹی کے نوالے کو ترستے نظر آتے ہیں ۔قانون امیر کا غلام اور ترقی امیر کی لونڈی نظر آتی ہے ۔دولت امراء کے گرد طواف کرتی دکھائی دیتی ہے ۔حکمرانوں نے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے اصول انسانیت اور فکر آخرت کو نظر انداز کر کے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگین کر رکھا ہے ۔اسلام کے تحفظ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے لئے آوازیں بند جبکہ سیاست دانوں کی ناموس پر حملہ ہو تو دنیا میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ والیٔ مدینہ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے اصول حکمرانی سے سبق حاصل کر کے دنیا میں خلافتِ الہٰی کا نفاذ کیا جائے تاکہ انسانیت مظالمِ غیر سے بچ سکے ۔دنیا میں امن رسول خدا ﷺ کی حکمرانی کی اتباع سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ سرکار مدینہ ﷺ کے طریقے سے حکمرانوں کو راہ ہدایت دے۔آمین

Peer Tabasum
About the Author: Peer Tabasum Read More Articles by Peer Tabasum: 40 Articles with 69240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.