شاید آج سے پہلے ٹیچنگ کے شعبے کے ساتھ اتنا ظلم نہیں ہوا
جتنا کہ آج ہو رہا ہے ۔ ایک تو ٹیچر معاشی طور پر مفلوج دوسرا اُس پر
پابندیوں کی بھرمار ،اسے لگے بندھے کورس کو ختم کرنا ہے جس کیلئے وہ روبوٹ
کی طرح کام کرتا ہے۔ باقی سیکھنے سکھانے کا تو آپ نام ہی نہ لو کیوںکہ وہ
کورس کا حصہ ہی نہیں ۔اساتذہ کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جب طالب علم کوئی سوال
پوچھتا ہے تو استادِ محترم کہتے ہیں کہ اس کی وضاحت تو بہت لمبی ہے لیکن
چونکہ یہ سوال آپ کے کورس میں شامل نہیں اس لئے آپ کو جواب نہیں مل سکتا ۔
سکول کے زمانے میں استاد بچوں کو سوال سے ایسے دور رکھتے ہیں جیسے دوائی کی
شیشی پہ لکھا ہوتا ہے کہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔ استاد بھی کیا کریں
انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سسٹم کا حصہ بننا پڑتا ہے ۔تعلیم تو صرف نمبروں
کے حصول تک محدود ہوگئی ہے اور تربیت نام کی چیز بالکل ختم ہو چکی ہے دوسری
جانب آئے روز نئے کورس اور کتابیں چھپتی رہتی ہیں لیکن ان میں مواد وہی
پرانا ہوتا ہے جو دوسروں کی ریسرچ سے لیاجاتا ہے جس میں اپنے کلچر اور
تہذیب کانام و نشان نہیں ملتا ،جس میں دوسرے ملکوں کے نقشے توملتے ہیں مگر
پاکستان کا نام تک نہیں ہوتا ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابیں ہوں یا
لٹریچر کانصاب سب دوسروں سے نقل کیا جاتا ہے ۔نمبروں کی بھرمار ہے مگر
زندگی گزارنے کے ہنر سےکوئی بھی واقف نہیں ۔پی ایچ ڈی کوالیفائی مگر زندگی
کے میدان میں فیل -
اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ادارے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں بانٹ
رہےہیں اور روبوٹ بنائے جارہے ہیں جنہیں اپنا دماغ استعمال کرنا نہیں آتا ۔ٹیچرز
کہتے ہیں کہ کتاب میں لکھی گئی یہ لائن، یہ بات غلط ہے مگر چونکہ کورس میں
ایسے لکھا ہے اس لئے اس کو ایسے پڑھا جائے گا کیونکہ چیکر امتحان کے پرچے
پہ کتاب کا کاپی پیسٹ دیکھ کر ہی زیادہ نمبر دیتا ہے ۔ یوں اچھا خاصا
طالبعلم جو سیکھنے اور کھوجنے کی نیت سے ادارے میں داخل ہوتا ہے وہاں سے
رٹو طوطا بن کر نکلتا ہے۔ اس بیچارے طالب علم کو نہ چاہتے ہوئے بھی رٹا
سسٹم کو قبول کر نا پڑ تا ہے۔
گھر اور سکول کی جانب سے طالب علموں پر اچھے نمبرز کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا
جاتا ہے ۔طالب علم کوسمجھایا جاتا ہے کہ اگر اسے موجودہ سسٹم میں سروائیو
کرنا ہے تو اس سسٹم کا حصہ بننا ہو گا، ایساہی کرنا ہو گا جیسے اس کے بڑے
کرتے آئے ہیں اور آخر وہ بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ پھر دوسروں کو
بھی اس کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ہم کو علم بھی ہو
کہ کیا غلط اور کیاصحیح ہے مگر ہم اسے تبدیل کر نہ سکتے ہوں کیونکہ ہمیشہ
سے ہی ایسے ہی چلتا آیا ہے ۔اس سسٹم کو اب تبدیل ہونا چاہیے اور یہ تبدیلی
ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اس لئے ہمیں اس کے لیے آواز اٹھانی ہے۔ |