تحریرـ:عظمی ظفر، کراچی
سحر کے وقت اٹھ کر ابراہیم نے دعا مانگی
سکون قلب مانگا اور تسلیم و رضا مانگی
کہ مالک میں تجھ سے یہی ارشاد کرتا ہوں
میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ مرد مجاہد ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اﷲ کی راہ
میں جہاد کیا۔ پہلے گھر بار، والدین اور اپنا وطن چھوڑا۔سچے دین کے لیے ان
کی یہ پہلی قربانی تھی۔زمانے کے ستائے ہوئے، آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کر
سونا بننے نکل پڑے مگر حرفِ شکایت بھی زباں پر نہ لائے اﷲ سے قلب ِسلیم
مانگا اور ایسے سفر کی جانب بیوی اور شیر خوار بچے کو لے کر نکل پڑے جو عرب
کا تپتا لق و دق ریگستان تھا۔ابھی یہاں ٹھکانہ بھی نہیں بنا پائے تھے کہ اﷲ
نے حکم دیا بیوی بچہ یہیں چھوڑو اور دوسری سمت چلے جاؤ۔ اﷲ کا حکم بجا لائے،
کوئی سوال پھر زباں پر نہیں لائے،بیوی نے پوچھا کیا ایسا کرنے کا اﷲ نے حکم
دیا ہے؟تو مثبت جواب پاکر اطاعت گزار بیوی نے کہا، ’’ اگر اﷲ کی خاطر ہمیں
چھوڑتے ہیں تو بے فکر جائیے اﷲ ہمیں ضائع نہیں کرے گا‘‘۔ اپنی رفیقہ حیات
اور بچے پر ایک نظر ڈالی، ایسی اولادِ نرینہ جو تراسی برس (83) بعد دعاؤں
سے ملی ہو اور بیوی وہ جس نے پورے خاندان والوں کی مخالفت کے باجود ساتھ
دیا تھا، ان کو اکیلے چھوڑ کر دور جانے کا حکم مل گیا لہذا وہاں سے رخصت
ہوئے، یہ تھی دوسری قربانی۔وہ ایسا کرنے کیوں نکلے تھے؟
اسلام کو قائم کرنے اور اسلام میں سر تسلیم خم کردینا ہی اسلام ہے جو انہوں
نے عملاً کرکے دکھایا ادھر وفا شعار بیوی کی ممتا قربان ہونے کو تیار ہے،
ایسا کیا کرے جو بلکتے بچے کی بھوک پیاس مٹا دے؟ چٹیل میداناور پہاڑوں کے
درمیان سخت دھوپ، سوکھے ہونٹوں سے کبھی لخت جگر کو دیکھتی ہیں، کبھی پہاڑی
پر چکر کاٹتی ہیں کہ کچھ آثار زندگی کے مل جائیں مگر زندگی اسماعیل کے
ایڑیاں رگڑنے پر اﷲ کے حکم سے روح الامین کے پر مارنے پر چٹان سے زم زم کی
شکل میں پھوٹ پڑتی ہے پھر زندگی رواں ہوتی ہے جدائی ختم ہو جاتی ہے۔
بوڑھا باپ سو (100) برس کا ہوا تو اسماعیل تیرہ سال کے ہوتے ہیں بیٹا اب
دوڑ دھوپ کے قابل ہوا تو اﷲ پھر قربانی مانگتے ہیں ابراہیم علیہ السلام
اپنا خواب اسماعیل علیہ السلام کو سناکر ان کی رائے اور مرضی پوچھتے ہیں
بیٹا بھی اﷲ کے فیصلے پر گردن پہ چھری رکھنے کو بخوشی تیار ہوجاتا ہے۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
اکلوتا، آنکھ کا تارا، لخت جگر باپ کی بات کو پورا کرنے کے لیے قربان ہونے
کو تیار اور باپ اﷲ کی رضا کی خاطر قربان کرنے کو تیار. اﷲ کو یہ ادا اتنی
پسند آئی کہ اسماعیل کی قربانی کی جگہ مینڈھے کی گردن پر چھری چلوادی اور
اور اس ادائے ابراہیمی کو تاقیامت مسلمانوں پر واجب کردیاگیا۔ آج بھی سنتِ
ابراہیمی اسی جوش و جذبے سے ادا کی جاتی ہے۔
مگر! یہاں رک کر سوچیں، کیا اﷲ نے صرف اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی مانگی
تھی؟ اﷲ نے اس عمل سے ہمیں اسلام کا مطلب سمجھایا تھا. اسلام صرف نماز،
روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے۔ اسلام تو بغیر کسی حیل و حجت
کے اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا نام ہے۔قرآن کہتا ہے، ’’جب دونوں
جھک گئے‘‘ ان دونوں کا جھکنا ہی اسلام ہے ان کی یہ قربانی دل کی قربانی تھی،
پسندیدہ چیز کی قربانی، بڑھاپے کے سہارے کی قربانی تھی اور ان سب سے بڑھ کر
اﷲ کی رضا کو ماننا تھا۔آج ہم کیا قربان کرتے ہیں؟ ہمارا اسماعیل کون ہے؟
کیا ہم نمود ونمائش ترک کرتے ہیں؟ نفس کی خاطر نیند، آرام، آسائشات، تعیشات
قربان کرتے ہیں؟کیا ہم دنیاوی معاملات میں اپنے سے کمتر کو دیکھتے ہیں اور
نیکی کے کاموں میں اپنے سے اوپر تقوٰی رکھنے والوں جیسا بننے کے حریص ہوتے
ہیں؟
دنیا، وطن، گھر بار، جان، مال ودولت، عزت، شہرت، کرسی، اقتدار، اولاد، جاہ
وجلال، وقت، قابلیت، اپنا حصہ، کسی بھی شے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے
لیے تیار ہم ہوتے ہیں؟ ہمیں ان سب پر اﷲ کی رضا کی خاطر چھری پھیرنی پڑے گی
اگر ہاں تو یہی ہماری قربانی ہے ۔خواہشات پر اگر چھری پھیر دی تو قربانی
منظور ہوگی ورنہ رسمًا مہنگا ترین جانور لا کر بھرپور نمائش کرکے ذبح
کردیں، غریبوں کا حق مار کر صرف اپنے لیے جمع کرلیں اس سے قربانی کا مقصد
پورا نہیں ہوتا اﷲ کے حکم کے آگے کوئی ہچکچاہٹ نہیں چلتی لہذا یہ سوچ ہمیشہ
زندگی میں سامنے رکھیں کہ ہمارا اسماعیل کون! اور اس کو قربان کرنے کے لیے
ہمہ وقت تیار رہیں؟ |