توحید اور توبہ

حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ افراد سے ہی بنتا ہے۔

توحید کے پانچ مختلف درجے ہیں۔پہلے درجہ میں وہ گروہ ہے جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے مگر دل سے اس کا انکار کرتا ہے۔ایسے لوگوں کو منافق کہا جاتا ہے۔یہ گروہ نبی اکرم کے زمانے میں ہی معرض وجود میں آ چکا تھا ۔منافقت ایک مذموم عمل ہے۔دوسرے درجہ میں وہ لوگ آتے ہیں۔ جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔دل سے بھی اسے سچا جانتے ہیں۔مگر عمل نہیں کرتے۔ ایسے لوگ عام مسلمان کہلائیں گے۔ان کا معاملہ بندے اور اللہ سبحان و تعالی کے درمیان ہے۔تیسرا درجہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، دل میں اعتقاد بھی صیح ہے اور اپنے اس عقیدہ پر دلیلیں بھی رکھتے ہیں۔یہ گروہ علماء کا ہے۔چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے، جو دل سے توحید کے قائل ہیں، زبانی اعتقاد بھی رکھنے ہیں اور عمل صالح کے ذریعے اللہ سبحان و تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی و کوشش میں لگے رہتے ہیں۔یہ لوگ اولیاء اللہ ہیں۔ اور اس سے ارفع مقام پانچواں درجہ ہے۔ انسان کی ذاتی ترقی اور عروج کے تمام زینے یہیں سے شروع ہو کر رفعتوں کی طرف جاتے ہیں۔انسانی زندگی میں سب سے اہم اور بنیادی علمی ادراک یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کا جائزہ لے کہ اس کی سوچ،اعتقاد اور اعمال کا مقام کیا ہے۔قرآن نے اس عمل کو غور و فکر کہا ہے۔اور یہ غور و فکرانسان کے مقام کا تعین کرتا ہے ۔ اپنے مقام کے ادراک اور اس سے اعلی و ارفع مقام کی آرزو و سعی کا کرنے کا ارادہ قابل شتائش ہے اور اس ارادے کا نام توبہ ہے۔توبہ پسندیدہ عمل ہے اور توبہ کرنے پر اصرار کیا گیا ہے۔ترقی اور ذاتی بہتری کے تمام راستے توبہ کے عمل کو اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔مذہب امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ انسان کی انفرادی زندگی میں امن و سلامتی لا کرانسان اپنی زندگی میں محنت کرنے کا حوصلہ افزائی پیدا ہوتا ہے۔امن و سلامتی اپنے کردار اور رویوں کا محاسبہ کر کے توبہ ہی کے عمل سے زندگی میں آ سکتی ہے،۔السان اچھے عمل کا ارادہ کرتا ہے مگر بوجہ اس پر عمل درآمد کا موقع نہیں ملتا۔ کوئی حرج نہیں اگر ایک بار موقع کھو گیا تو یہ عمل دوارہ کیا جا سکتا ہے۔اگر ایک بار اچھے ارادے پر عمل درآمد کا موقع نہیں ملا تو دوبارہ کیا جا سکتا ہے اور اور بار بار توبہ کرنا ہی انسانیت ہے۔اچھا ارادہ قابل ستائش عمل ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی گہی ہے۔ہمارسے معلم اور رہنما نبی اکرم دن میں ستر باریا سو بار توبہ کر لیا کرتے تھے۔انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد سمجھے ۔ اللہ سبحان و تعالی کی کتاب اور اس کا ترجمہ پزہے۔تفسیر کو پڑہنا بھی زیادہ فائدہ مند ہے۔نبی اکرم کی سیرت کا مطالعہ انسانی میں مثبت تبدیلی کا راستہ کھولتا ہے۔ذاتی زندگی میں انقلاب سوچ میں مثبت تبدیلی ہی سے ممکن ہے۔اور مثبت تبدیلی خلوص اور سچائی کے ساتھ اپنے خیالات،معاملات ،رویے اور اخلاق کا جائزہ لینے سے ہی آتی ہے۔اور اسی جائزہ کا نام توبہ ہے۔علماء اور صلحاء نے بار بار اس عمل کو دہرایا اور رفعتوں کے زینے چڑہتے گئے۔توحید کی اصلیت عمل ہے اور عمل کے لیے توبہ اہم زینہ ہے۔اور عمل کا ماخذ و اصل کلام اللہ سبحان و تعالی ہی ہے۔ معلومات کو خبر کہا جاتا ہے اور علم اور خبر دو مختلف چیزیں ہیں۔جب انسان خلوص نیت یعنی توبہ کے ساتھ سیرت نبی اکرم اور قرآن سے علم پائے گا تو توحید کی راہ کی اصلیت اس پر واضح ہوتی چلی جائے گی۔یہ ہمارے ہی کرنے کا کام ہے اور اس سے ہماری ہی ذات کو فائدہ ہوگا۔اور یہ انفرادی فائدہ ذات میں مثبت تبدیلی لائے گا۔آخری حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ افراد سے ہی بنتا ہے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.