انسان نے جب سے اس کرہِ ارض پر اپنا پہلا قدم رکھا
انصاف اس کی سب سے پہلی اور آخری آرزو رہی ہے۔ابتدائی ادوار میں قبیلے کا
سربراہ سارے فیصلے خود صاد ر کیاکرتا تھا جس میں اس کا اپنا گھرانہ بالکل
محفوظ و مامون تصور ہو تا تھا۔سربراہ کا انصاف دوسروں پر تو لاگو ہو جا تھا
لیکن جب اس کی اپنی اولاد کی باری آتی تھی تو قانون کو سرنگوں ہو نا پڑتا
تھا۔شہنشاؤں ،سلاطین اور فا تحین کے ہاں بھی یہی روش تھی لہذا جہاں پر اپنی
اولاد اور خاندان پر قانون کی زد پڑنے کا احتمال ہو تا تھا قانون بے اثرہو
کر رہ جاتا تھااور دنیا بھر کے فیصلے کر نے والا حکمران بے بس اور لاچار ہو
جا تا تھا۔برِ صغیر میں مغلیہ دور اور اس سے قبل کے ادوار میں مخالفین کو
شہنشاہ کے اشارے پر ہاتھی کے پاؤں تلے کچل دینے اور شہنشاہ کے اشارہِ آبرو
پر مخالفین کے سر قلم کر دینے کی قبیح روش قائم تھی ۔کسی میں اتنی ہمت کہاں
تھی کہ شہنشاہِ معظم کے سامنے سوال کی جسارت کرتا۔جو ایسا کرنے کیلئے زبان
کھولتا تھااس کی زبان کاٹ دی جاتی تھی۔صدیوں تک یہی چلن انسانی معاشرے کا
حصہ بنا رہا ۔ لیکن جب انسان تھوڑے سے علمی ارتقاء سے فیضیاب ہوا ،جدید
تقاضوں سے مالا مال ہوا اوراس نے علمی و ادبی دنیا میں ترقی کی منازل طے
کیں تواس نے قبائلی نظامِ عدل کی جگہ عدالتوں کے قیام سے انصاف کو یقینی
بنانے کی جانب قدم بڑھایا لیکن اس کی تمام کوششیں بھی ریاستی جبر کے سامنے
بے بس ہو کر رہ گئیں اور وہ عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے بھی جو رو استبداد کی
چکی میں پستا رہا۔در اصل دولت کی ہوس اور اقتدار کی حواہش نے انسانوں سے ان
کی ازلی آزادی بزورِ قوت چھین کر انسانیت کو اپنی ہوس کی زنجیروں میں جکڑ
رکھا تھا۔وہ بہت تلملایا لیکن اس کی ساری کوششیں نقش بر آب ثابت ہو ئیں
کیونکہ شہنشاء ،سلاطین،جرنیل اور فاتحین انھیں کسی طور پر بھی اپنے جیسا
فرد سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوئے ۔سلطنتِ روماء،یونان اور فارس کے قیصر و
کسری کیاکسی ہم نفس کو اپنے جیسا مقام عطا کرنے کیلئے آمادہ ہو تے تھے؟ سچ
تو یہ ہے کہ کوئی خود کو دیوتاؤں کی اولاد اور کوئی خود کو خدا کا فرستادہ
سمجھ کر اپنی پارسائی اور تفاخر کا ڈھنڈورہ پیٹتا تھا جس سے انسانی آزادی
اور نجات کی ساری راہیں مسدود ہو جاتی تھیں۔کوئی راہ ، کوئی ، راستہ ،کوئی
اقدام،کوئی عمل ایسا نہیں تھا جو انسانیت کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کر
سکتا۔یہ تو کل کی بات ہے کہ انسان غلامی کے نام پر منڈیوں میں جانوروں کی
طرح سرِ عام فروخت ہو تا تھا اور طوقِ غلامی پہننے کے بعد اس سے جانوروں کی
طرح کام لیا جاتا تھا ۔وہ انسان ہونے کے باوجود جانوروں جیسے فرائض سر
انجام دیتا تھا حالانکہ ایسا کرنا کسی بھی مذہب کی رو سے جائز نہیں تھا۔،۔
اگر ہم تاریخ انسانی کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں تاریخ میں عادل حکمرانوں
کو تلاش کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ہمیں ذاتی مفاد ات
اور اقتدار کی خاطر جنگ و جدل کی ایک ایسی ہولناک تاریخ سے واسطہ پڑیگا جس
میں کشت و خون کے سوا کچھ نہیں ۔ جہاں کشتوں کے پشتے لگانے اور مخالفین کو
نیست و نابود کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔تاریخ کا یہ دور انسانیت کا تاریک
ترین دور کہلاتا ہے کیونکہ جس معاشرہ میں عدل و انصاف مفقود ہو جائے وہ
معاشرہ تباہ برباد ہو جاتا ہے ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا قول ہے کہ کفر کی
حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ انسان
عدل سے محبت کرتا اور ظلم سے نفرت کرتا ہے ہے لیکن باعث حیرت ہے کہ اس کے
باوجود ظلم و بربریت ہی انسانیت کا مقدر بنی رہی ۔کاروان ِ انسانیت ہر بار
لٹتا رہا ، دھوکہ کھاتا رہا، ظلم سہتا رہا،رنج اٹھا تا رہا، خونِ نا حق
دیتا رہا ، سولی پر لٹکتا رہا لیکن ظلم کی شمشیر کی پیاس پھر بھی بجھ نہ
پائی۔مظلو م انسانیت پھٹی پھٹی نگاہوں سے آسمان کی جانب نگاہیں اٹھاتی رہی
لیکن اس کی بے بسی پر چشمِ فلک بھی نم ناک نہ ہوئی اور فلکِ پیر کو اس کی
حالت پر رحم نہ آیا ۔انسان قرن ہا قرن التجائیں اور مناجاتیں کرتا رہا تا
آنکہ اس خالقِ کائنات کو اس کی حالت پر رحم آ گیا اور اس نے اسلام کے ابدی
اصولوں سے جبر کے پنجوں میں تڑپتی انسانیت کیلئے آزادی کا پروانہ جاری کر
دیا۔اکرمنا بنی آدم کا اعلان ہونا تھا کہ انسانیت اپنے اصلی جوہر سے روشناس
ہو گئی۔سچ تو یہ ہے کہ اس آفاقی پیغام کی علمبراردار ایک ایسی ہستی بنی جو
صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھی اور جن کی کی عظمت کی گواہی ان کے ازلی
دشمن بھی دیتے تھے۔ان کی سالہا سال کی کاوشوں کے بعد ایک ایسا عدیم النظیر
معاشرہ قائم ہوا جس کا حکمران عام انسانوں کی طرح ٰ زندگی گزارتا تھا اور
خود کو قانون کے تابع سمجھتا تھا ۔قانون کی عظمت کا اندازہ ان کے اس فرمان
سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر
رکھا تھا ۔ ( مجھے قسم ہے اس رب کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے اگر
فاطمہ بنتِ محمد ﷺبھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئے جائیں گے)
فصاحت و بلاغت کی انتہاؤں کو چھونے والے اور صدقِ دل کی عمیق گہرائیوں کو
آشکار کرنے والے اعلان نے انسانیت کی منزل کا از سرِ نو تعین کر دیاتھا۔
زنجیریں ٹوٹ گئی تھیں اور انسان آزاد ہو گیا تھالیکن غلامی میں جکڑا ہو
اانسان اس عنائت سے کب آشناء تھا ؟ وہ حیرت و استعجاب کا شکار تھا اور
صدیوں سے اونچ نیچ کی حد بندیوں میں جکڑا بارِ جبر اٹھا رہا تھا۔ ارشادِ
گرامی کوبار بار پڑھیے اور کیف و مستی سے سر دھنیے کہ ایسی آفاقی آواز اس
سے پہلے انسانیت کی سماعتوں سے کبھی ٹکرائی ہی نہیں تھی ۔انسان کے کان کبھی
ایسی آواز سے روشناس ہوئے ہی نہ تھے۔انسان تو غلام و آقا کے بندھنوں میں
جکڑا ہوا تھا لہذا وہ برابری کے اس اعلان پر حیرت و استعجاب کے علاوہ کیا
کر سکتاتھا۔وہ معاشرہ جہاں جوشِ انتقام میں غلاموں کو تپتی ہوئی ریت پر
ننگے جسموں سے گھسیٹا جاتا ہو وہاں پر اس طرح کے آفا قی اعلان سے جس طرح
مظلومین کے تنِ مردہ میں جان پڑگئی تاریخ کے اوراق اس پر گواہ ہیں ۔ وہی
غلام جھنیں تپتی ریت پر گھسیٹا جاتا تھا اور جن کے گلے میں غلامی کا طوق
پہنا کر انھیں تشدد اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا تھا ایک ایسی
مملکت کی بنیادیں رکھنے میں کامیاب و کامران ہوئے جس کی مثال تاریخِ عالم
پیش کرنے سے قاصر ہے۔یہ بات میں کسی خوش فہمی ، ذاتی میلان اور جانبداری کی
بناء پر نہیں کہہ رہا بلکہ دنیا کے سارے فلاسفرز،دانشو ،حکماء، اہلِ نظر،
اہلِ فکر اور اہلِ قلم اس اولین معاشرے کی انصاف پسندی پر رطب ا للسا ن
ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ شہنشائیت زوال پذیر ہوگئی اور انسانیت جیت گئی کیونکہ
انسان اپنے اصلی جوہر سے روشناس ہو گیا تھا ۔اب حاکم حاکم نہیں تھا بلکہ
خادمِ قوم تھا۔اس کی استثنائی حیثیت دم توڑ گئی تھی۔اب وہ عام انسانوں کی
طرح اپنے اعمال کا جوابدہ تھا۔کوئی قانون کوئی ضابطہ جوابدہی کی راہ میں
مزاحم نہیں تھا ۔یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی جس میں بر تر اور کم تر کا کہیں
گزر نہیں تھا۔انسان فقط انسان تھا اور یہی اس کی پہچان تھی۔ سو عظیم
انسانوں کا مصنف بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس قسم کا معاشرہ نبی
آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے قائم کر کے دکھایا تھا اس کا تقاضہ ہے کہ انھیں
دنیائے انسانیت میں سب سے پہلا نمبر عطا کیا جائے ایک غیر مسلم کے قلم سے
نکلے ہوئے الفاظ عدل و صداقت کی جس عظمت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وہ آج
بھی انسانیت کی ضرورت ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ خون کے پیاسے وحشی درندوں کا
معاشرہ عبادت سے نہیں عدل و انصاف سے بدلا تھا،ذاتی ایثا رو قربانی سے بدلا
تھا ، ایک دوسرے کے احترام سے بدلا تھا ،دوسروں کو خود پر فوقیت دینے سے
بدلا تھا،امانت و دیانت سے بدلا تھا،اکرمنا بنی آدم پر ایمان لانے سے بدلا
تھا،انصاف کے سامنے سر نگوں ہونے سے بدلا تھااور سب سے بڑھ کر اس ہستی کی
اطاعت سے بدلا تھا جن کی خاطر یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے ۔علامہ اقبا ل
جیسے عظیم فلاسفر ، شاعر اور مفکر نے اسے اپنے منفرد انداز میں بیان کیا ہے
۔،۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ،،،، گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط
میں حباب
شوق تیرا گر نہ ہو میری نماز کا امام ،،، ، میرا قیام بھی حجاب میراسجود
بھی حجاب |