اس سال بھی عید الاضحی کے موقع پر یورپ میں مقیم مسلمانوں
کی خوشیاں دو عیدوں کے ہاتھوں ماند سی گئیں۔ سوشل میڈیا اور نجی محافل میں
اپنی علمی اور فکری سطح کے مطابق ہر کوئی اسی موضوع پر اظہار خیا ل کرتا
نظرآتا ہے۔ مساجد کے ائیمہ اور انتظامی امور کے ذمہ داران کو بھی کڑے
سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام الناس کو علمی و تحقیقی اختلافات سے
غرض نہیں بلکہ ان کی ایک معصومانہ سی جائز خواہش ہے کہ سارے مسلمان ایک ہی
دن عید کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے ہر شہر بلکہ
گھر گھر میں دودو عیدیں جگ ہنسائی اور ذہنی کوفت کا سبب بنتی ہیں۔ عام لوگ
اس اختلاف کی نوعیت سے بے خبر ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ شاید علمائے
کرام کی ضد بازی ہی اس اختلاف کا باعث ہے۔پچھلی دو دہائیوں میں راقم نے اس
مسئلے کے حوالے سے بہت سے اجلاس میں شرکت کی اور جید علمائے کرام سے اس
موضوع پر گفت و شنید بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان مواقع پر کچھ لوگ اس مسئلہ کو
’’بریلوی دیوبندی‘‘ یا’’ وہابی، شیعہ و سنی‘‘ کا رنگ دے کر اک نئی الجھن
پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ مجالس میں زیر لب اس بات کو بھی اچھالا
جاتا ہے کہ یہ مسلکی اختلافات کا شاخسانہ ہے۔ حالانکہ حقائق یہ بتاتے ہیں
کہ کم علمی اور صورت حال سے ناواقفیت کی بنا پر یہ غلط فہمیاں پیدا کی جاتی
ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔اصل میں یہ مسلکی نہیں بلکہ ایک
علمی اور نظریاتی اختلاف ہے۔کچھ علماء صرف سعودی عرب کے اعلان پر انحصار کر
کے عید یا رمضان کا اعلان کرتا ہے جبکہ دیگر اپنے ملک یا قریب ترین اسلامی
ملک کے چاند کی روئت کے مطابق عید یا رمضان کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر یہ مسلکی
اختلاف ہو تا تو بریلوی مکتبہ فکر کے علماء و مشائخ، حزب العلماء کے
سینکڑوں دیوبندی علماء، دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ خصوصا شیخ الحدیث سعید
احمد پالنپوری، جماعت اسلامی کے سکالرز، دیوبندی ،بریلوی اور شیعہ مکاتب
فکر کے مذہبی ٹی وی چینلز اور علماء سعودی اعلان کی پیروی میں عید کرنے کی
بجائے امکان روئت کے موقف پر ہم آواز نہ ہوتے۔ اسی طرح اگر یہ اختلاف مسلکی
ہوتا تو ریجنٹس پارک مسجد کے حنبلی اور شافعی مقلد علمائے عرب، اہلحدیث
مکتبہ فکر کے غیر مقلد مذہبی سکالرز اور تبلیغی جماعت کے مراکزسے تعلق
رکھنے والے دیوبندی حنفی علماء فقط سعودی اعلان کی پیروی کرکے عید کرنے میں
کبھی ہم خیال نہ ہوتے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مسلکی اختلاف ہر
گز نہیں ہے۔ چاند کا مسئلہ ایک فقہی، تحقیقی اور اجتہادی مسئلہ ہے۔ بریلوی،
دیوبندی اور جماعت اسلامی سب ہی تو فقہ حنفی کے پیروکار ہیں۔ جید علماء
احناف کے فتاویٰ اور مستند کتب فقہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل یقینی طور
پر ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اہلحدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے روئت ہلال کے اصول
بھی فقہ حنفی سے حد درجہ قریب تر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش،
انڈیا،مراکش اور دیگر ممالک کی روئت ہلال کمیٹیوں میں سالہاسال سے جملہ
مکاتب فکر کے علماء کرام اکٹھے نظر آتے ہیں اورچاند دیکھنے کیلئے ایک ہی
اصول استعمال کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ اور دیگر مغربی
ممالک افق کے اعتبار سے غیر معتدل ہیں۔ لیکن پھر بھی اسلامی شرعی اصولوں کے
مطابق وقت، حالات اور ماحول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یقینا اجتماعی
طور پر کوئی قابل عمل حل نکال کر اپنی قوم کے مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ
لائی جا سکتی ہے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑا جا سکتا ہے۔ تحقیق و جستجو کے بعد
کوئی ایسا فارمولا ضرور بن سکتا ہے جس پر سب متفق ہوں۔ اس سلسلے میں ایک
تجویز پیش خدمت ہے جس پر عمل کر کے چاند کے مسئلے کو شاید حل کیا جاسکے۔
لندن اور اس کے مضافات میں اس مسئلے کے الجھاؤ کا بڑا سبب یہ ہے کہ ریجنٹ
پارک لندن کی مرکزی مسجد سعودی عرب کے اعلان پر عید یا آغاز رمضان کا اعلان
کر دیتی ہے جبکہ لندن کی کافی مساجد اسی اعلان کی تقلید کرتی ہیں۔سعودی عرب
سمیت دنیا بھر کے مختلف مکاتب فکر کے بے شمار مفتی صاحبان کے فتوے موجود
ہیں جن میں انہوں نے اپنے اپنے ممالک کے افق پر چاند کی روئت کے مطابق آغاز
رمضان اور عیدین کرنے کا شرعی حکم دیا ہے۔ اس سال بھی ایک وڈیو نظر سے گزری
جس میں ایک حاجی نے حرم شریف کے ایک عالم دین سے یہی سوال کیا تو انہوں نے
کہا کہ سعودی اعلان اپنے ملک کیلئے ہوتا ہے لھذااس پر پر عمل کی بجائے آپ
اپنی علاقائی روئت پر عمل کرکے عید مناؤ۔یہ بھی ایک غلط بات مشہور کردی گئی
ہے کہ حج ہوجائے تو اگلے دن عید ہوگی۔ اگر یہی بات ہوتی تو پاکستان، بنگلہ
دیش ، مراکش، بھارت اور دیگر ممالک کے علماء کیوں حج کے دو دن بعد عید
مناتے؟ تجویز یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کے مسلمان لارڈز اور ایم پیز کے
ساتھ ایک میٹنگ کر کے اس مسئلہ کی نوعیت اور پیچیدگی سے آگاہ کیا جائے۔ وہ
سعودی عرب کے برطانیہ میں تعینات سفیر سے وقت لے کر اس مسئلہ کو زیر بحث
لائیں۔ انہیں سعودی علماء و مفتیان کے وہ فتوے دکھائیں جن میں انہوں نے
علاقائی روئت پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے۔ اگر سعودی ایمبیسڈر’’ریجنٹ پارک
کی مسجد انتظامیہ‘‘ کو اپنے اثر ورسوخ سے آزاد کرکے برطانیہ کے دیگر علمائے
کرام سے مل کر ایک متفقہ روئت ہلال کمیٹی بنانے کے فارمولے پرمتفق ہوجائیں
تو اس مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت ممکن ہے۔ بعد ازاں ہر مسلک یا جماعت کے
دو دو افراد لیکر ایک جامع ’’روئت ہلال‘‘ کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔ برطانیہ
کے مسلمان اس روئت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کر کے اتحاد کی فضاء
قائم رکھیں۔محترم لارڈ نذیر احمد نے اس قبل بھی کوشش کی تھی لیکن بوجوہ
کامیابی نہ ہو سکی۔ صورت حال اس قدر گھمبیر ہے کہ جب تک اس سطح پر اس مسئلہ
کے حل کی کوشش نہیں ہوتی اور ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام حسب روایت اپنی
علمی بصیرت کے مطابق اعلان کرتے رہتے ہیں تو قیامت کی صبح تک ایک عید کا
خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔مانا کہ ہر ایک کے پاس دلائل ہیں اور بحث
کیلئے مواد بھی لیکن روز بروز صورت حال بہت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ہماری نئی
نسل الجھنوں کا شکار ہو کر ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔ ہماری اس
تجویز میں کوئی خامی ہے تو رد و بدل کردو۔ اتفاق و اتحاد کی اور صورت بنتی
ہے، وہ اختیار کرلو۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بہت ہوچکیں ۔اب کمیونٹی کے
مذہبی، سیاسی و سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اور
اپنا کردار اداکرکے بہتر حل کی کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
|