قربانی عربی زبان کا لفظ ہے جو قرب سے مشتق ہے۔ قرب کس
چیز کے نزدیک ہونے کو کہا جاتا ہے۔ قربانی ایسا عمل ہے جس کا مقصد قربِ
الٰہی کا حصول ہے۔جانور کو ذبح کرنے کا عمل بندے کو اﷲ تعالیٰ کے انتہائی
قریب کردیتا ہے۔قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے
ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی
اور پھر امتِ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم تک تقریباً ہر ملت و مذہب والے اس پر
عمل پیرا رہے ۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا۔ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے: ’’ او ر ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ
وہ اﷲ کے دیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر ذبح کے وقت اﷲ کا نام لیں‘‘۔(سورۃ
الحج: ۳۴)اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر امت میں قربانی کا تصور رہاہے ۔
البتہ سابقہ امتوں اور امتِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان قربانی میں
فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی
آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جب کہ امتِ
محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ
ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا گیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی
گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال قیام کے
دوران ہر سال قربانی دی ہے اور صحابہ کرام کو بھی قربانی کرنے کا حکم دیاا
ور اس کے احکام سکھائے۔انہیں احکام کے مطابق امت مسلمہ قربانی کا عمل جاری
رکھے ہوئے ہے۔ ہزاروں سال گزرجانے کے باوجود آج بھی عید الاضحی حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں منائی جاتی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے اپنے صاحبزادے حضرت
اسماعیل علیہ السلام کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے لیے لے گئے تھے لیکن جب
قربان کرنے لگے تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جنتی مینڈھا بھیج دیا گیااور حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اس مینڈھے کو ذبح کردیا۔ آج مسلمان اسی واقعہ کی
یاد میں عید الاضحی کے موقع پر مخصوص جانور اﷲ کی راہ میں قربان کرکے اﷲ کی
رضا و خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے
دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! یہ قربانی کیا ہے؟
فرمایا:تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت)ہے،
صحابہ کرام نے عرض کیا : پھر اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا:جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی ،صحابہ نے
عرض کیا: (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی)اُون (میں کیا ثواب ہے؟)آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔(ابن ماجہ:
۳۱۲۷) اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں خوش دلی کے ساتھ قربانی کرنے کا حکم دیا
گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا : ابن آدم (اِنسان)نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا،
جو اﷲ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور
قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ
آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا
ہے، لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی: ۱۴۹۳)ایک اور حدیث میں رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید
رکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے
گی۔(المعجم الکبیر: ۲۷۳۶) اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون
پر اجر وثواب کی اُمید رکھو،اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے،
لیکن وہ اﷲ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(المعجم الاوسط: ۸۳۱۹)
بے شک اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور اس میں بے حد
حکمتیں ، مصالح اور فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں۔ قربانی میں بھی متعدد مصالح اور
فوائدپوشیدہ ہیں۔ قربانی کا مقصد مسلمانوں کے اندر وہی روح اور وہی کیفیت
بیدار کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں
کیا تھا۔ عیدالاضحٰی میں جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی
جاتی ہے کہ اﷲ کے دیے ہوئے جانوروں کو جب اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو
اپنے ایمان کو تازہ کر لیتے ہیں کہ ہماری جان ہمارا مال سب کچھ اﷲ کا ہے۔
اور وقت آنے پر ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں
گے۔قربانی کے مقصد کو دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتا ہے۔ ایک اجتماعی مقصداور
دوسرا ذاتی مقصد۔ جہاں تک اجتماعی مقصد کا تعلق ہے تو اس ضمن میں سب سے اہم
مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اہلِ ثروت اور مالدار لوگ اﷲ کی راہ میں جانور
قربان کریں اور اس کا گوشت غرباء اور فقراء میں تقسیم کریں جو اپنی غربت
اور فقر کی وجہ سے پورا سال گوشت سے محروم رہتے ہیں۔ اسی طرح قربانی کا
ذاتی مقصد یہ ہے کہ اﷲ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ قربانی کا مطلب ہی قربِ
الٰہی کا حصول ہے۔ جب کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اﷲ کی بارگاہ میں اس کا
تقویٰ دیکھ اجاتا ہے۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہوگا جب خالص اﷲ کی رضا
کے لیے قربانی کی جائے ۔ اﷲ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ
جانور جو قربانی کے لیے پیش کیے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ
قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نگاہ رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ
قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نمود و نمائش کا اظہار ہو
، اﷲ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول
کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔ اسی لیے قرآن مجید میں ارشاد
فرمایا گیا: ’’اﷲ تعالیٰ کے پاس ان (جانوروں ) کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا
بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (سورۃ الحج: ۳۷)اﷲ تعالیٰ کو
قربانی کے جانور کے گوشت ، پوست اور جسامت سے کوئی غرض نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کی
ذات یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ قربانی کرنے والے میں خوف خدا اور پرہیزگاری کی
کیا کیفیت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اﷲ تو صرف ان کی قربانی قبول کرتا ہے
جو متقی ہوتے ہیں۔ (سورۃ المائدۃ:۲۷)اسی طرح حضور نبی کریم علیہ السلام نے
فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا
بلکہ وہ تو تمہارے دل کی نیت کو دیکھتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۴۱۴۳) الغرض در ج
بالا آیاتِ مبارکہ اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح قربانی کا مقصد
جانور قربان کرکے گوشت تقسیم کرنا ہے اسی طرح قربانی کی اصل روح اور فلسفہ
حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ قربانی کاجانور ذبح کرنے کے ساتھ
ساتھ انسان کااپنی انا، خود غرضی، مطلب پرستی ، نفسانی خواہشات کو بھی ذبح
کرناہے ۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر انسان غرو ر اور تکبر کا شکار ہے
اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کر رہاہے۔ اﷲ رب
العزت کے احکام کی حکمتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا رمضان المبارک کے
بابرکت مہینے میں روزوں کے ذریعے نفسانی خواہشات کو قابو کرنا تھا اور اب
عید الاضحی کے موقع پران قابو کی گئی نفسانی خواہشات پر چھر ی پھیرنی ہے
تاکہ انسان اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر روحانیت کے مقام پر فائز
ہوسکے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں قربانی کا اصل مقصد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین |