خواتین

’سویڈن کے اخبار‘‘پر سویڈن میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بظاہر ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کے دعویدار، مالی لحاظ سے خوشحال ممالک کی حالت کیسی دردناک اور فکر انگیز ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سویڈن میں تقریباً ہر سال بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئیں

ملکی ترقی میں خواتین کا کلیدی کردار ہے جسے کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے باوجود بھی خواتین کو تسلیم کرنے میں اورملکی ترقی میں خواتین کے کردار کوبعض مرد حضرات فراموش کر بیٹھے ہیں۔آبادی کا آدھا حصہ ہونے کے باوجود، اپنے حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں خواتین ابھی بھی کمزور ترین مخلوق ہیں۔ مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود وہ سیاست اور معاشرے میں ابھی تک کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کر سکیں۔وہ خواتین جو شہری علاقوں میں رہتی ہیں وہ عام طور پر تعلیم یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ آزادی سے گھوم پھر سکتی ہیں، تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کا خود انتخاب کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے، دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ دی جائے۔ اگر ایک غریب حاملہ عورت گر کر بے ہوش ہو جائے، تو ہو سکتا ہے کہ اس کا شوہر یا اس کا خاندان اسے کلینک لے جانے سے ہی انکار کر دیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے شہری اور دیہی گھر ایسے ہیں جہاں شوہر اور ان کی بیویاں ایک میز پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے، یا شوہر پہلے کھانا کھاتے ہیں اور ان کی بیویاں بعد میں کھانا کھاتی ہیں۔جبکہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک اور بالخصوص مسلمان ممالک پر اکثر ہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ ظلم کہیں پر بھی ہو وہ ظلم ہی ہے اور قابل مذمت ہے۔ خود ان ممالک میں بھی عورتوں پر تشدد کے واقعات کچھ کم نہیں ہیں۔ ’’سویڈن کے اخبار‘‘پر سویڈن میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بظاہر ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کے دعویدار، مالی لحاظ سے خوشحال ممالک کی حالت کیسی دردناک اور فکر انگیز ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سویڈن میں تقریباً ہر سال بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئیں اور یہ اعداد و شمار بڑھ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والی عورتیں اب پولیس کو اطلاع کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ اعداد و شمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تشدد کرنے والا کون ہے لیکن تشدد گھر کی چار دیواری میں اور عورت کا کوئی واقف کار ہی کرتا ہے۔خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہمارے معاشرے میں بہت بہتر کام ہو رہا ہے مختلف ادارے عوام میں یہ شعور اجاگر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ خواتین کا احترام یقینی بنایا جائے اور اسی وجہ سے ہی طالبات کیلئے مختلف اداروں میں کورسز کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جہاں پر وہ تربیت کے حصول کے بعد معاشرے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر کے معاشرے کی خدمت میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔اب ہوتا کیا ہے کہ جب ہم حق بات کو سننے کی ہمت نہیں رکھتے تو پھر معاشرتی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں ۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے بہت زیادہ کام کیا جا رہا ہے جس کی سب زیادہ عمدہ مثال یہ ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف ملک میں قانون منظور کیا جا چکا ہے جس کے مطابق اگر کوئی فرد کسی خاتون کو ہراساں کرتا ہے تو اسے دفعہ509کے مطابق پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یقیناً یہ ایک احسن اقدام ہے کیونکہ ماضی میں بہت سی خواتین محض ہراساں ہونے کے خوف سے اپنی ملازمتوں کو خیر آباد کہہ چکی تھیں مگر اب تمام خواتین مکمل تحفظ اور اعتماد کے ساتھ اپنے امور انجام دے رہی ہیں اور بہت سی خواتین سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات صرف نچلے طبقے یا متوسط طبقے میں زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ واحد چیز ہے جو ہر طبقے کے لوگوں میں مشترک ہے بڑے بڑے تعلیم یافتہ افرادبھی خواتین پر تشدد کے مواقعے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایک بات ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ معاشرے پر تمام افراد کا برابری کی سطح پر حق ہے اور اگر کوئی فرد کسی کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر اسے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اس لئے اپنے حقوق کا تحفظ کیجئے اور دوسروں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالنے سے گریز کریں۔

Wajahat Hussain Qazi
About the Author: Wajahat Hussain Qazi Read More Articles by Wajahat Hussain Qazi: 17 Articles with 15074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.