غدیر اور امت مسلمہ۔۔۔؟!

پروردگار عالم نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہ سعادت کی تکمیل کے واسطے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اور دیگر ہادیان قوم کو مبعوث فرمایا۔جن کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہیں ۔ آیت قرآنی بھی اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبین
لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔ (سورہ احزاب ۴۰)
حضرت امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ’فقفی بہ الرسل و ختم بہ الوحی ‘
چنانچہ آپ (محمد)کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۱)
اللہ تبارک و تعالی نے پیغام توحید، رسالت اور دیگر احکام کی تبلیغ کی خاطرآپ کو سرزمین عرب پر مبعوث فرمایا۔ آپ کو خطہ عرب میں ’اس وقت بھیجا جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور ساری امتیں مدت سے پڑی سور ہی تھیں ۔ فتنے سر اٹھا رہے تھے۔۔۔۔ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے۔ ہلاکت و گمراہی کے پرچم کھلے ہوئے تھے ۔‘ (نہج البلاغہ خطبہ ۸۷)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔’جب اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا تو عربوں میں نہ توکوئی (آسمانی) کتاب پڑھنے والا تھا اور نہ کوئی نبوت و وحی کا دعویدار۔‘(نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۲)
عرب کے اس بگڑے ہوئے ماحول میں آپ کو مبعوث کرنے کا مقصد یہ تھا ’کہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کرلیں۔‘ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۵)
آنحضرت نے لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ۔ان کے مردہ ضمیروں میں انسانیت کے دیپ جلائے ۔بے شمار بتوں کی پوجا سے وحدہ لاشریک کا پیروکار بنایا ۔بے بیناد رسم و رواج سے آزاد کیا ۔ نومولود لڑکیوں کو آزادی حیات بخشی ۔ عرب و عجم کو فرق مٹایا۔ فتنیں کی آنکھیں پھوڑدیں۔ مردہ جسموں کو روح حیات بخشی ۔غلامی کے بار گراں سے آزاد کرایا اور اسلام بیداری کی ایسی مہم چلائی کہ لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے۔
آپ نے اپنی حیات آدمی کو انسان ،انسان کو مسلمان اور مسلمان کو فخر سلیمان بنانے میں صرف کردی۔ ہر لمحہ خدمت خالق و مخلوق میں گزارا۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید، رسالت، نماز، روزہ، حج،خمس، جہاداور دوسرے الٰہی احکام کو لوگوں تک پہونچایا۔ عرب کے غیر عاقلانہ عقائد اور رسم و رواج کو بے بنیاد قراردیا۔زمانہ جاہلیت کے غلط افکار و نظریات پر خط بطلان کھینچ دیا۔ ان تمام جدوجہد کے باوجود کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ آپ کو اپنی ذمہ داری کی تکمیل کی کوئی قرآنی سند ملی ہو۔ ہاں۔۔۔! اتنا ضرور ملتا ہے کہ جب آپ اپنے آخری حج سے لوٹ رہے تھے تو درمیان راہ میں اللہ تعالی کا ارشاد نازل ہوا: ’یا ایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وا ن لم تفعل فما بلغت رسالتہ ‘
اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہونچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگرآپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہونچایا۔ (سورہ مائدہ ۶۷)
آپ نے لوگوں میں منادی کرادی کہ جو آگے بڑھ گئے ہیں انہیں پیچھے بلا یا جائے اور جو ابھی ہم سے ملحق نہیں ہوسکے ہیں ان کا انتظار کیا جائے۔ جب تمام لوگ ایک مقام پر اکٹھا ہوگئے تو آنحضرت نے آگ برستی ہوئی گرمی میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا: ۔۔۔جب آپ نے لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لے لیا تو ارشادفرمایا: ’من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ‘
جس کا میں مولاہوں اس کا یہ علی مولاہے۔ (مستدرک ج ۳ ص ۱۰۹، دارالکتب العلمیہ ص ۱۰۷ وغیرہ)
حکم رسانی ہوناتھی کہ خداوند عالم کی طرف سے اکمال دین کی سند نازل ہوگئی۔ ’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ (سورہ مائدہ ۳)
اس فرمان الہی پر عمل درآمد ہونا تھا کہ مجہول منافقین معروف ہونا شروع ہونے لگے اور رسول اسلام کی وفات ہوتے ہیں دولت و حکومت کی طمع میں دبک کر بیٹھے لوگوں نے فتنے برپا کرنے شروع کردیئے اور... ۔
ولایت کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ اس کے نہ پہونچانے کے سبب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری رسالت پر حرف آسکتا تھا ۔ اس لئے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیئے اور حق کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ لہٰذا، اگر امت مسلمہ عزت دار اور آبرومندانہ زندگی گزارنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ حکم الٰہی کو قبول کرے تاکہ مسلمان بٹوارے کا شکار نہ ہوں۔