بلاشبہ نیک اور پرہیزگار بیویاں ہر قیمت پر شوہروں
کی مطیع اور فرمانبردار ہوتی ہیں اور شوہر کی موجودگی اور غیر موجودگی میں
بھی ان کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں۔ میاں بیوی کے مثالی تعلق
میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے
اس پر ذمہ داریاں عائد کی جائیں، ظاہر ہے کہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے
لئے شوہر ہی زیادہ موزوں ہوسکتا تھا چنانچہ شریعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم
میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہے، اور بڑی ذمہ داریاں اسی پر
ڈالی گئی ہیں۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ مرد عورتوں کے سربراہ اور ذمہ
دار ہیں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے سربراہ و ذمہ دار اپنے
سرتاج کی حیثیت سے شوہر کی بات مانے اور بیوی ہونے کی حیثیت سے جو مخصوص
خانکی ذمہ داریاں ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔ قرآن کریم کی سورۃ
النساء میں فرمایا گیا ہے ’’نیک بیویاں شوہروں کی فرمانبردار ہوتی ہیں، اور
شوہر کے پیچھے بھی اس کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں‘‘ ۔ اگر عورت
شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی کا رویہ اختیار کرے
تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہلے کشمکش اور پھر خانہ جنگی ہوگی، جو
دونوں کی دینی و دنیاوی بربادی کا باعث ہوگی۔ اس لئے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ
وسلم نے عورتوں کو شوہرو ں کی اطاعت و فرمانبرداری اور رضاجوئی کی تاکید
بھی فرمائی ہے ، اور اس کا عظیم اجروثواب بیان فرما کر ترغیب بھی دی ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’
عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرم
و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبردار رہے تو پھر (اسے حق ہے کہ) جنت
کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ہو۔ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ عورت پر
سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے۔ (مستدرک
حاکم)۔ ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم
دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘‘ (ترمذی)۔ کسی
مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے
زیادہ بلیغ اور مؤثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہوسکتا جو رسول اﷲصلی اﷲ علیہ
وسلم نے اس حدیث میں بیوی پر شوہر کا حق بیان فرماکر اختیار فرمایاہے۔ اس
حدیث کا مطلب اور مدعا یہی ہے کہ کسی کے نکاح میں آجانے اور اس کی بیوی بن
جانے کے بعد عورت پر اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہوجاتا
ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رضا جوئی میں کوئی کمی نہ
کرے ،اور ہمہ وقت اس کی خدمت کو عبادت سمجھے۔
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! خاوند کاعورت پر
کیا حق ہے ارشاد فرمایا وہ بلائے تو انکار نہ کر اگرچہ تجھے کتنی ہی
مصروفیت کیوں نہ ہو،اور رمضان کے سوا کوئی روزہ اس کی اجازت کے بغیر نہ رکھ
،اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا خود بخود نکلی تو رحمت کے فرشتے
اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ لوٹ کر نہ آئے۔حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں
کہ ہم نے حضرت کعب کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی
نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔ حضرت امام
حسنؓسے روایت ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر سے بھاگ نکلے تو اس کی نماز
قبول نہیں ہوتی حتیٰ کہ واپس آجائے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہے
کہ میں حاضر ہوں جو سلوک جی چاہے کرو‘‘۔ موجودہ پر فتن دور میں عورتیں اپنے
شوہر کے ساتھ بعض اوقات سخت ترین بد تمیزی کی مرتکب تک ہوجاتی ہیں اور بعض
جاہلیت کے باعث غیر مردوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتی ہیں، موبائل فون اور
دیگر کئی دوسرے ذرائع سے ان سے گفتگو کرتی ہیں ، حالانکہ عورتوں کی آواز
بھی پردہ رکھتی ہے عورت وہی جنتی ہے جو اپنے شوہر کی عزت کی پاسداری کرتی
ہے اس میں خیانت نہیں کرتی اس کے بستر کو گندہ نہیں کرتی ، اوراپنے خیالات
میں شوہر کے علاوہ کسی اور کی محبت کو جگہ نہیں دیتی ۔مردوں کو سجدہ کرنے
کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعداری میں انتہا کردے اور اس کی خدمت کو عبادت کا
درجہ دے کیونکہ عورت سے مکان گھر بنتے ہیں اور مردوں سے گھر سنورتے ہیں اگر
مرد نہ ہو تو عورت کی گھر میں کوئی قدر نہیں۔اس لیے ہماری ماؤں بہنوں کو
اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک اورحسن خلق والا رویہ رکھنا چاہیے تاکہ مرد
انہیں دیکھ کر خوش ہوں۔ اﷲ پاک عورتوں کو مردوں سے وفاداری کرنے کی توفیق
عطا فرمائے، اور میاں بیوی دونوں کو اپنے فرائض اور حقوق اچھے طریقے سے ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
ؐؐ٭……٭……٭……٭\ |