قرآن پاک کا ظاہر و باطن،مرشد کامل ، خیالی جنّت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم کا اسوہ حسنہ اور ناجی فرقہ

ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اس کتاب(قرآن پاک)کے اللہ کی کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں یہ پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے جو لوگ غیب پر ایمان لانے والے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ(حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و سلّم ) پر اتاراگیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ،یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں
اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں‘‘(البقرۃ: ۵) ۔

ان آیات کریمہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ قرآن ان لوگوں ہدایت کی راہ دکھاتا ہے جو کہ پرہیز گار ہیں، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں،نماز کو قائم کرتے ہیں اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں وغیرہم۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن پاک کو اللہ تبارک و تعالیٰ کاکلام تو مانتے ہیں مگر انکا کہنا ہے کہ قرآن پاک کی آیات کا ایک ظاہری معنی ہے اور ایک باطنی معنی، اور در حقیقت باطنی معنی ہی معتبر ہیں ا نکا کہنا ہے کہ ’’ قرآن پاک کی آیات کے ظاہری معنی پر نہ جاؤ بلکہ اسکی روح پر عمل کرو‘‘۔

سوال یہ ہے کہ قرآن پاک کے باطنی معنی اور اسکی ’’ روح‘‘ کے بارہ میں کون آگاہ کرے گا؟ تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ صرف ایک مرشد کامل ہی اس بارہ میں بہتر جانتا ہے اور کسی کو اسکا پتہ نہیں۔

لہٰذا انھوں نے قرآن پاک کچھ الفاظ کے معنی اپنے خیال و گمان کے مطابق گھڑ رکھے ہیں مثلاً:
نماز کے بارہ میں ا نکا کہنا ہے کہ ہم یہ ظاہری نماز ہر گز نہیں پڑھتے بلکہ ’’ باطنی نماز‘‘ پڑھتے ہیں اور وہ بھی مدینہ میں اور بیٹھے آپ کو یہیں نظر آئیں گے۔

اور جنّت کے بارہ میں انکا کہنا ہے کہ اسکا درحقیقت کوئی وجود نہیں بلکہ یہ تو مومنوں کو عبادت میں لگانے کیلئے ایک فریب دیا گیا ہے تاکہ وہ دودھ و شراب کی نہروں اور حور و قصور کے چکروں میں ماتھے گھساتے پھریں۔ اور حج کے بارہ میں کہتے ہیں کہ کسی کو حج کو جا نے اور طواف و سعی کے چکروں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس کیلئے توصرف ’’مرشد کامل کا دیدار ہی کافی ہے‘‘ جو کہ لاکھوں اورکروڑوں حج کرنے کے برابر ہے ۔

قرآن پاک کے الفاظ کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کی بجائے اسکے باطنی معنی معلوم کرنے کیلئے کسی مرشد کامل کی تلاش یا الفاظ کی بجائے اسکی’’روح‘‘ پر عمل کا دعوٰی کرنے والوں نے دین اسلام کو ایک معمّہ اور طلسم ہوشربا بنادیا ہے۔ امّت مسلمہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ جو معنی قرآن پاک کے الفاظ سے ظاہری طور پر سمجھے جائیں گے وہی معتبر ہیں اور انھیں پر عمل کیا جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کے صحابہ کرامؓ نے ساری زندگی جو نمازیں مسجدوں میں جاکر باجماعت ادا کیں وہ ظاہری تھیں یا باطنی؟ یہی صورت حال رمضان المبارک کے روزوں کی ہے، اسی طرح ا نھوں نے جو حج عمرے کئے وہ اپنے ظاہر جسموں سے کئے تھے یا ’’جسم مثالی‘‘ اورنیند کے عالم میں کئے؟ اور اب جو امّت مسلمہ انکی اتباع میں نماز روزہ اور حج ادا کر رہی انکے بارہ میں کیا خیال ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑے ہادی اور مرشد کامل خاتم الانبیآء حضرت محمد الرّسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم ہیں جنھوں نے قرآن پاک کے ظاہری و باطنی معنی اور اسرار ورموز اللہ تبارک و تعالی ٰ سے براہ راست سیکھے اور پھر اپنی امّت کو بتائے، آپ کے اسوہ حسنہ میں دین اسلام کے چاروں سلسلے یعنی شریعت، طریقت ، حقیقت و معرفت کی مثالیں موجود ہیں، صحابہ کرامؓ نے آپ کی معیّت میں سلوک و معرفت کی جو منازل طے کیں کوئی دوسرا نہ آج تک کر سکا ہے اور نہ ہی قیامت کر سکے گا۔

جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم کے اسوہ حسنہ سے رو گردانی کرکے کسی اور مرشد کامل کی تلاش میں ہے وہ درحقیقت گمراہ اور بے دین ہے، اسلامی تعلیمات سے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے اوراپنی خیالی جنّت میں بس رہاہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلّم سے پوچھا گیاکہ اسلام کے تہتّر فرقوں میں سے کونسا فرقہ صحیح ہے ، نجات پانے والا ہے اور جنّت میں جائے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے جواب دیا کہ’’ جس پر اور

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 321152 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More