ہمار امعاشرہ جس نفسیاتی کیفیت کا شکار ہے اس میں اصلاح
کا امکان بہت کم رہ گیاہے۔ یہ بات نہیں کہ میں مایوسی کا شکار ہوں اوربہتری
کے امکانات سے فرار تلاش کرنے کی شعوری کوشش کررہا ہوں۔ مایوسی کفر ہے اور
اور کوئی بھی تخلیق کار کفر کا ارتکاب کیسے کر سکتا ہے ؟ تخیلق کار کام تو
لوگوں کی اصلاح کرنا،امید کی شمع روشن کرنا، فلاح و بہبود کے خواب دیکھنا ،روشنی
اور ہدائت کی جانب بلانا ،آزا دیِ رائے اور حریت کی فضا کو تخلیق کرنا ہو
تا ہے۔وہ محبت کی دنیا سجاتا ہے،وہ نغموں اورخو شبوؤں کی بات کرتا ہے،وہ
یگانگت اور اخوت کا راگ الاپتا ہے ، وہ محبت کے نور سے دامن بھرتا ہے۔وہ
انتہائی جبر میں بھی معاشرے میں بہتری کے امکانات کی جدو جہد جاری رکھتا
ہے۔وہ تاریکیوں میں سحر کے نمودار ہونے کی امید سجاتا ہے۔وہ الفت کے زمزمے
بہاتا ہے اور بنجر زمین سے لہلہاتی فصلوں کے اگنے کی نوید سناتا ہے لہذا
مجھ جیسا سماجی خدمتگار مایوسی کی بات کیسے کر سکتا ہے؟سوال یہ نہیں ہے کہ
اصلاحِ احوال کا دیباچہ بے رنگ اور بے کیف ہو گیا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ
ہمارے ہاں لوگوں نے جس طرح کے ذہنی رویے تشکیل دے لئے ہیں ان کا فطری نتیجہ
انتشار،بے چینی ،وعدہ شکنی اور تکذیب ہے ۔ مجھے روزانہ بے شمار لوگوں سے
واسطہ پڑتا ہے لہذا مجھے ان کے ذہنی رحجانات کا بخوبی اندازہ ہے۔ان میں ذمہ
داری کا احساس اور وعدوں کے ایفا کا جوہر دھیرے دھیرے دم توڑتا جا رہا
ہے۔نعرہ بازی،بھڑکوں اور نمودو نمائش کا کلچر عام ہے۔ہوس اور دولت پرستی کا
زہر معاشرے کے رگ وپے میں بری طرح سے سرائیت کر چکا ہے ۔ہر کوئی امیر بننے
کی دوڑ میں جٹا ہوا ہے لہذا اس کیلئے اقدار کا کوئی وجود باقی نہیں رہا ۔
وہ بڑے سے بڑے واقعہ کو بھی کاندھے اچک کرجھٹک دیتا ہے۔وہ جائز و ناجائز کی
حد بندیوں سے بہت دور جا چکا ہے۔اسے سمجھا نابہت مشکل ہے کیونکہ وہ اپنی
کھلی آنکھوں سے اخلاقیات کا جنازہ روز نکلتے دیکھتاہے لہذا اس پر وعظ اور
نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔وہ غربت کی چکی میں پسنے والوں کی بے حرمتی
او رسوائی کے مناظر روز دیکھتا ہے۔وہ اہلِ حشمت کی شان و شوکت کے مظاہر روز
دیکھتا ہے۔وہ دولت کی طاقت اور غربت کی بے بسی کے مناظر کا روزمشاہدہ کرتا
ہے۔وہ طاقتور کی قوت اور خاک نشینوں کی بے بسی سے دل گرفتہ ہوتا ہے ۔ اسے
دولت سے بھلے ہی محبت نہ ہو لیکن دولت کے معجزات کا تو وہ دل سے قائل ہوچکا
ہوا ہے۔وہ غربت اورامارت میں واضح فرق کا عینی شاہد ہے لہذا عینی شاہد کو
کوئی کیسے سمجھا سکتا ہے؟۔وہ ناولوں اور کتابوں میں لکھی گئی کہانیوں اور ا
فسانوں کے کرداروں کا نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسانی کرداروں کاشا ہد ہو تا
ہے،وہ تذلیل و تقدیس کے سارے مناظر کا خود شاہد ہو تا ہے لہذا اس کی سوچ
بڑی واضح،غیر مبہم اور دو ٹوک ہو چکی ہے۔وہ اس چیز کے حصول کا جویا بن گیا
ہے جو عزت و تکریم کا اصلی پیمانہ ہے۔ایک ایسا پیمانہ جس میں انسانوں کو
تولا جاتا ہے اور جس سے ان کی قدر ماپی جاتی ہے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ
کسی امیر کا نالائق بیٹا جاہ و حشمت کا حقدارٹھہرے جبکہ کسی غریب کے ذہین
بیٹے کا مقدر محرومی اور ناداری بنے ۔ کوئی تو ہم نفس اس بات کا علم بلند
کرے کہ دنیا کے سارے انسان رنگ و نسل اور عقیدے کے اختلاف کے باوجود واجب
التکریم ہیں۔ان کے مدارج کا ان کی دولت اور عہدے سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔
ان کی عزت ،ان کا وقار ان کا مان کسی ایسے پیمانے کا محتاج نہیں ہے جسے
انسانوں نے خود اپنی سہولت کیلئے تخلیق کر رکھا ہے۔سب کوان کی خصا ئص ،ان
کے کمالات ، ان کے جواہر کے مطابق برابری کے مواقع دینا شرفِ انسانیت ہو نا
چائیے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور مدارج کے انہی خود ساختہ پیمانوں نے
مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کیا ہے۔جب قوم طبقات میں تقسیم ہو جاتی ہے تو پھر
اس کی ترقی اور اس کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔جب اخلاقیات کا
بیانیہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے تو پھر ایسا کون سا پیما نہ باقی رہ جاتا ہے
جس پر دوسرے انسانوں کو مجتمع کیا جا سکے ۔؟
ہمارا روز جھوٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔کمال یہ ہے کہ جھو ٹ بولنے والوں کو کسی
قسم کی کوئی ندامت اور شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ۔انھیں یہ احساس تک نہیں
ہوتا کہ وہ غیر اخلاقی اور غیر سماجی حرکات کے سزاوار ہو رہے ہیں۔اس میں
کوئی دو رائے نہیں کہ اس طرح کی حرکات کسی بھی معاشرے کی تباہی کا پیش خیمہ
ہوتی ہیں ۔احساس کا رشتہ کمزور ہو جائے تو پھر جھوٹ اور مکرو فریب کے عارضی
سہاروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ رشتے انسانیت کا دامن تو فخر سے بھر نہیں
سکتے لیکن اس سے انسان کے کئی نفسیاتی پہلووں کی تسکین ہو جاتی ہے۔دھوکہ
دہی سے دوسروں کو نیچا دکھانا بھی تسکین کی ایک صورت ہے جو ہمارے عاشرے میں
بڑی بے رحمی سے رائج ہے۔تفاخر کا اظہار اور بڑا بننے کا خواب اگر حقیقی
دنیا میں اپنا وجود نہیں رکھتا تو پھر خالی دعووں،بیانات اور نعروں سے اسے
تسکین تو دی جا سکتی ہے۔اسے تصنع ،جھوٹ اور مکرو فن سے روشن کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔اسے سدھار کی ضرورت ہے ۔اسے
بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں اقدار کا جوہر بھرنے کی ضروت ہے۔اس میں ایک
ایسی میزان کھڑی کرنے کی ضرورت ہے جو وعظ اور پندو نصائح پر مشتمل نہ ہو
بلکہ اجلے اور داغ کردار کے عملی مظاہروں سے اسے دیکھنے والے خود میں
تبدیلی کی تڑپ محسوس کریں۔عمل اپنی اثر پزیری کے لحاظ سے سب سے قوی اور
منفرد ہو تا ہے۔جس طرح ایک تصویز ہزاروں الفاظ پر بھاری ہوتی ہے اسی طرح
عمل کا اثر لا محدود ہو تا ہے۔دعووں اور باتوں سے معاشرے نہیں بدلتے بلکہ
معاشرے اعمال و کردار سے بدلتے ہیں ۔اگر ہم واقعی اس بات میں سنجیدہ ہیں کہ
ہمیں اپنے معاشرے کو بدلنا ہے تو پھر ہمیں خو دمیں تبدیلی لانی ہو گی۔آجکل
ویسے بھی تبدلی کی ہوائیں بڑے زوروشورسے چل رہی ہیں لہذا اس وقت کو غنیمت
سمجھ کر اس سے استفادہ کرنا چائیے۔اقبال نے سچ کہا تھا کہ ( خدا نے آج تک
اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے )
قوم اس وقت گہرے انتظار میں ہے ۔وہ تبدیلی کو عملی شکل میں دیکھنے کیلئے بے
تاب ہے۔اس کی امنگیں جوان ہیں،ان کی خواہشیں توانا ہیں اورتبدیلی کیلئے
ذہنی طور پر تیار ہے ۔وہ بوسیدہ اور گلے سڑھے نظام سے نجات چاہتی ہے ۔وہ
ایک نئے کلچر اور نئے بندو بست کے خواب دیکھ رہی ہے اس کی آنکھیں خوابوں سے
بوجھل ہو چکی ہیں۔وہ سوتے جاگتے سپنے دیکھ رہی ہے ۔قوم وطنِ عزیز کو دنیا
کے نقشہ پر انتہائی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں دیکھنے کی متمنی ہے ۔وہ
محرومیوں کا خاتمہ چاہتی ہے ۔وہ دلدل سے نکلنا چاہتی ہے ۔وہ غلاظت اور
گندگی کو خیر باد کہنا چاہتی ہے ۔وہ منفی ہتھکنڈوں سے جان چھڑوانا چاہتی ہے
۔وہ جھوٹ ،منافقت،بد دیانتی،مکاری ،عیاری، ریا کاری اور وعدہ شکنی کو عمیق
سمندر میں بہا دینا چاہتی ہے ۔وہ اجلتاکا پیکر بننا چاہتی ہے ۔وہ نفاست کا
لباس زیبِ تن کرنا چاہتی ہے ۔وہ امانت و دیانت کے ساتھ جینا چاہتی ہے ۔وہ
سچائی کا علم تھامنا چاہتی ہے ۔ وہ ایثار اور قربانی میں سب سے بازی جیتنا
چاہتی ہے ۔وہ وطن کی محبت میں جان کی قربانی دینا چاہتی ہے ۔وہ نسلی
امتیاز،خاندانی تفاخر اور مدارج کے سارے بتوں کو یک مشت ذبح ہوتے ہوئے
دیکھنا چاہتی ہے ۔وہ انسان سے انسان کی محبت کے گیت گانا چاہتی ہے ۔وہ
انسانی عظمت پر اپنی خوشیاں قربا ن کرنا چاہتی ہے ۔وہ انسانیت کی سر بلندی
کیلئے اپنا سب کچھ نچھا ور کرنا چاہتی ہے ۔وہ عزتِ نفس کے پیمانوں سے
متعارف ہونے کی چاہ میں اب بوڑھی ہو تی جا رہی ہے۔ ہماری قومی قیادت کی
مسلسل بیوفائی ، عہد شکنی،کھلواڑ ، دوغلہ پن اور اپنی آرزؤں اور خوابوں کے
قتل کے بعد وہ سنگدل بن کرغلط راہوں پر نکل چکی ہے ۔اب وہ دوسروں سے انتقام
کی راہیں تلاش کرتے کرتے اس نہج پر پہنچ چکی ہے جس کا ذکر میں نے کالم کے
آغاز میں کیا ہے۔ہے کوئی سدھار کی صورت ؟ |