اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ پیغمبر لوط علیہ السلام کو
ان کے قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجتے ہوئے انہیں ان کے قوم کے ان فواحش
ومنکرات کی اصلاح کی خاطر حکم دیتے ہوئے اپنے مقدس کلام قرآن مجید کے
اندرارشاد فرماتاہے کہ : ﴿وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ
الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ ،
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ
أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ﴾( اعراف : ۸۰-۸۱)
ترجمہ : اور ہم نے لوط( علیہ السلام) کو بھیجا جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے
فرمایا کہ تم ایسا فحش کا م کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیاجہان
والوں میں سے نہیں کیا ،تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ
کر ،بلکہ تم تو حد ہی سے گذرگئے ہو ۔
حضرت لوط علیہ السلام ایک نبی اور اپنے چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر
ایمان لانے والوں میں سے تھے ،وہ بحیثیت نبی اردن اور بیت المقدس کے درمیان
مقام سدوم کی طرف بھیجے گئےتھے۔کہاجاتاہے کہ یہ زمین نہایت ہی سرسبزوشاداب
اور یہاں ہرقسم کے غلے واناج اورطرح طرح کے پھلوںومیوجات سے مالامال تھی
۔جسے قرآن نے ’’موتفکہ ‘‘ یا’’ موتفکات ‘‘ کے الفاظ سے ذکرفرمایاہے ۔
حضرت لوط علیہ السلام نے غالباسب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی جو اپنے
قوم کی سب سے بڑی برائی تھی کہ وہ مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے اس کی
قباحت کو واضح کیا،چونکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی
قوم نے انجام دیاتھا۔ جس کی وجہ سے اس گناہ کا نام ہی لواطت یا عمل قوم لوط
پڑگیا۔
یہ ایک ایسا قبیح فعل اور گھنائونی حرکت ہے جس کی وجہ سےایسے افراد و
بستیوںپر فرشتوں کی لعنت اور رب العالمین کا قہر نازل ہوتاہےچنانچہ اس سے
پہلی امتوں کو جو اس فعل شنیع میں مبتلا ء تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے پتھروں
کی بارش کے ذریعہ ہلا ک وبرباد کردیا اور اُن کے اِن کےخبیث وسیاہ کرتوتوں
کو اپنے صحیفوںو کتابوںمیںہمیشہ ہمیش کے لیےمحفوظ کرکے دنیائے انسانیت
متنبہ کیااور ایسے عادات واطوارسے بچنے کی سخت تلقین کی ۔چنانچہ اللہ کا
فرمان ہے :﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ ، مُسَوَّمَةً
عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ﴾ (ہود : ۸۲-۸۳)
ترجمہ : پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کردیا اوپر
کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے ۔ تیرے
رب کی طرف سے نشان زدہ تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے ۔
اس آیت کریمہ میں ’’ هِيَ ‘‘ کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک وہ نشان زدہ
کنکریلے پتھر میں جوان پر برسائے گئے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع وہ
بستیاں ہیں جو ہلاک کی گئیں،جو شام ومدینہ کے درمیان تھیں
اور﴿الظَّالِمِينَ ﴾ سےمراد مشرکین مکہ اور دیگر مکذبین ہیں ۔ مقصد ان کو
ڈرانا ہے کہ اگرتم بھی ہم جنس پرستی جیسے گھنائونے افعال میں مبتلاء ہوگئے
تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا یا تمہیںبھی زمین میں دھنسا دیاجائے گا یا
پتھروں کی بارش برساکرگذشتہ قوموں کی طرح ہلاک وبرباد کردیاجائے گا ۔
قرآن کریم نےاور خاتم النبین جناب محمدرسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے ارشادات کے
ذریعہ اس فعل بد کی مذمت کی ہےاور ان افعال میں شریک افراد کو معلون ومردود
قراردیااور فرمایا کہ ’’فاعل ومفعول ‘‘ دونوں کو قتل کردو ۔اور دوسری روایت
میں ہےکہ ’’ایسے مردودوں کورجم یعنی پتھر مارمار کر ہلاک کردو ‘‘۔ ( ابن
ماجہ )
اسی طرح مردوں کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺنے ایسے افراد پر بھی لعنت فرمائی ہے
جواپنی بیوی کی اگلی شرمگاہ کے علاوہ پچھلی شرمگاہ (دُبر)میںمجامعت
کرتاہے۔اور اللہ نے جس چیز کو حلال یاقضائے شہوت کا اصل محل اورحصول ِلذت
کی اصل جگہ قرار دی ہے اس کو چھوڑ کردبر کا استعمال کرتاہے ہے ، اور رب
العالمین کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہوئے اور اس کے عذاب کو دعوت دیتے
ہیں ،اسی کو اللہ کے حبیب ﷺ نے لواطت صغریٰ سے تعبیر کیاہے ،مسند احمد کی
روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ’’ بیوی سے دبر میں جماع
کرنا لواطت صغریٰ ہے ،ایسے لوگوں پر اللہ رب العالمین قیامت کے روز نظر
رحمت نہیں فرمائیں گے‘‘ ۔ ( ابن ماجہ ، مسند احمد )
مذکورہ تمام آیات واحادیث نبویہ اس بات پر دال ہیں کہ ہم جنس پرستی ایک
مذموم فعل اور عمل بد ہے ۔جس میں ملوث ہونے کی وجہ سے گذشتہ قوموں پر اللہ
کا عذاب آیا اور انہیں زندہ زمین میں دھنسادیاگیا اور ان پر پتھر کی بارش
برسائی گئی اور دنیا میںایسےبدبختوں( فاعل ومفعول دونوں)کو سنگسار کرنے کا
حکم دیاگیا ۔ کیونکہ یہ اتنا خطرناک جرم اور قبیح فعل ہے کہ اس کی وجہ سے
قوم درقوم ،نسل درنسل خراب ہوجاتی اور ہلاکت وبربادی کے دہانے پر پہنچ جاتی
ہے ۔
لیکن افسوس کہ آج کے اس عریانیت زدہ ،مادہ پرستی وفرقہ پرستی اور ترقی
یافتہ دور میں ایسے افعال شنیعہ میں ملوث افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
۔حکومت کی جانب سے ان کے حق میں مثبت فیصلے سنائے جاتے ہیں ، اور ہم جنس
پرستی ولواطت کی کھلی چھوٹ دے کر سماج ومعاشرہ اور ملک وملت کی کشتی کو
غرقاب کیاجاتاہے ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے اس کے مخالف
وموافق فیصلے سنائے جاتے ہیں ،کبھی اسے جائز سمجھ کر عام کیاجاتاہے تو کبھی
ناجائز سمجھ کر اس کے خلاف احتجاج کیاجاتاہے اور پابندیاں عائد کی جاتی ہے
۔چنانچہ ابھی چند دنوں قبل(۶؍ستمبر ۲۰۱۸ء بروز بدھ) کو ایک مرتبہ پھر
بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس فعل بد کو متفقہ طور پر پرانے
قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا۔اور اس کے موافق فیصلہ سناتے
ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ’’ دو بالغ افراد
کے درمیان، چاہے وہ ہم جنس پرست ہی ہوں، باہمی رضامندی سے قائم کیے جانے
والا جنسی تعلق غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے‘‘۔جب کہ بہت سالوں پہلے
بھارت میں 'سیکشن 377' کے نام سے معروف ہم جنس پرستی کے خلاف قانون
1861ءمیںبرطانوی راج کے دور میں بنایا گیا تھا جس میں "خلافِ فطرت اختلاط"
کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اس پر 10 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی۔لیکن
بھارت کے ہم جنس پرست حلقے اس قانون کے خلاف گزشتہ کئی دہائیوں سے احتجاج
کرتے رہے ہیں اور اس قانون کے خلاف عدالتی جنگ 1990ء کی دہائی سے جاری
تھی۔اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے 2009ء میں ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز
قراردے دیا تھاجس کے خلاف بعض مذہبی رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا
تھا۔ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ نے 2014ء میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو
کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ قانون کو دوبارہ بحال کردیا تھاجس کے خلاف ہم
جنس پرست تنظیموں کے نمائندوں نے اپیلیں دائر کی تھیں۔چنانچہ دوبارہ فیصلہ
لیت ہوئےعدالت نے کہا ہے کہ 'سیکشن 377' بھارت کی ہم جنس پرست کمیونٹی کو
ہراساں کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا تھا۔عدالتی فیصلے میں
کہا گیا ہے کہ کسی شخص کے جنسی رجحان کی بنیاد پر اس کے ساتھی امتیازی
برتاؤ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ریاستی سطح پر اجازت نہیں
دی جاسکتی۔مذکورہ قانون کے خاتمے کے نتیجے میں بھار ت میں ہم جنس افراد کے
خلاف باہم رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے پر قانونی کارروائی نہیں کی
جاسکے گی۔
غرض ملک وسماج میں بھی بے حیائی کو پھیلانے وعام کرنے کا یہ ایک حربہ ہے جس
سے یقینا معاشرہ میں فحاشیت وبے حیائی کو فروغ ملے گا ،جو یہ اغیار کی ایک
سوچی سمجھی سازش ہے جو ہمارے شناخت کو بگاڑنے اور جذبات وکردار کو مجروح
کرنے کے لیے اسے رائج کررہے ہیں اسے قانونی درجہ دے کر ایسے بدکردار
افرادکی ہمت افزائی کررہے ہیں یورپ ومغربی ممالک سمیت ہندوستان میں بھی ان
افعال بد (ہم جنس پرستی ) کو قانونی درجہ دے کر اس کے فروغ میں کوئی دقیقہ
فروگذاشت نہیں کیا جارہاہے او رنہ ہی اتنے قبیح وغلیظ عادت کوجرم ،فحاشی
اور غلط سمجھتے ہیں ۔ بلکہ کھلے عام ایسے گھنائونے ،رذیل اورنازیبا حرکات
کیئے جارہے ہیں جسے دیکھ وسن کر انسانیت شرمسار ہوتے ہیں ۔
یقیناملک عزیز میں بھی سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنس پرستی کو قانونی
اتھارٹی وپاور دیناکہ ایک مرد دوسرے مرد اور ایک عورت دوسری عورت سے شادی
کرسکتے ہیں اور دونوں آپس میں ہم بستر ہوسکتے ہیں ۔(نعوذ باللہ من ذلک )
جسے شریعت نے لواطت یاعمل قوم لوط سے تعبیر کیاہے جو ایک گھنائونا فعل اور
سماجی ومعاشرتی جرم ہے ،جس پر قدغن لگانے کی سخت ضرورت ہے اور عوام الناس
کو اس کے خلاف ایکشن لینے اور احتجاج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک وسماج کا
امن وامان غارت نہ ہو جس سے معاشرے کا معاشرہ ،خاندان کا خاندان اور قوم
وملک تباہ وبرباد ہوجاتاہے اورایسے لوگ دنیا وآخرت میں ذلیل ورسواء تے
ہیں۔
لہذا ہمیں عمل قوم لوط وہم جنس پرستی جیسے مذمو م خصلت اور قبیح فعل سے
اپنے آپ کو بچانا چاہئے اورمعاشرہ وسماج کی اصلاح کی خاطر اس کے خلاف اپنے
زبان وقلم کے ذریعہ احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو اپنے فیصلے کو واپس لینے کی
اپیل کرنی چاہئے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام لوگوں کو اس فعل بد سے مامون ومحفوظ رکھے اور
ان کاموں میں ملوث مرد و خواتین کی اصلاح فرمائے اور اغیارکے خرافات وسازشی
چالوں سے ہمیں مامون و محفوظ رکھے ۔ آمین! |