تحریر: ساحر مرزا
ماسٹر صاحب نے لسی پیتے ہوئے حیرت زدہ نگاہوں سے اس بھرے ہوئے صفحے کی جانب
دیکھا، جس پر انہی کے قلم سے لکھے اعداد و شمار تھے جب کہ دوسری طرف ان کے
اداراتی شناختی کارڈ کی ایک کاپی تھی، جس پر لکھا ایک جملہ انہیں مزید ایک
ہی خیال میں اُلجھا رہا تھا۔ وہ صبح سے بلکہ پچھلے چار ہفتوں سے روزانہ
اپنا رجسٹر اور بستہ پکڑے نکلتے اور رجسٹر کے صفحات پر ایک ہی طرح کے
سوالات کے صرف ایک ہی طرح کے جوابات لکھتے لکھتے تھک گئے تھے، جسمانی طور
پر نہیں بلکہ ذہنی و اعصابی طور پر۔
جو کچھ سوچا تھا،سنا تھا ،پڑھا تھا سب کچھ حقیقت کے منافی تھا۔اب انہیں یہ
سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جو دِکھ رہا ہے وہ سچ ہے یا جو الفاظ سنے تھے، پڑھے
تھے اور سمجھے تھے وہ سچے ہیں۔ابھی انہیں سوچوں میں غلطاں تھے کہ اتنے میں
پاس کھڑے فوجی جوان نے کہا۔’’ماسٹر جی دوپہر کے کھانے سے پہلے یہ اگلا گھر
بھی رجسٹر پر اُتار لیں، گرمی زیادہ ہے، جلدی کیجیے‘‘۔
ماسٹر جی اپنے خیالوں کی باگھ کو دوبارہ سمیٹ کر اپنا بستہ اُٹھائے چل
پڑے۔اگلے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، رجسٹر کھولا، پھر سے وہی ہزار بار
دہرائے سوالات کو دہراتے ہوئے وہ صفحے پر بنے مختلف خانوں کو پُر کرتے ہوئے
گھر کے سربراہ سے پوچھ رہے تھے۔ کتنی بیٹیاں ہیں؟ جواب آیا پانچ، اور بیٹے
؟ ’’جی ماسٹر صاحب اﷲ دا بڑا کرم اے 7‘‘۔ اچھا بیٹے کتنا کتنا پڑھے ہیں ؟ماسٹر
صاحب روانی سے پوچھتے ہوئے کسی معجزے کو سوچ رہے تھے۔جواب میں وہ شخص کہنے
لگا، ماسٹر جی !ساڈے بالاں نوں کِتھے نصیب اے کتاباں، کاپیاں تے، سکول دیاں
گلاں، بس ماڑا موٹا ناں لکھ لیندے نیں ماسٹر جی ( ہمارے بچوں کو کہاں نصیب
یہ کتابیں، کاپیاں اور اسکول کی باتیں، بس برا بھلا نام لکھ لیتے لیں)۔
ماسٹر جی نے تاسف سے اگلا سوال پوچھا ، اور بیٹیاں ؟کہنے لگا،بس جی، پنڈ دی
بی بی خیراں کولوں قرآن پاک پڑھ لیا اے ساریاں نیں، ہور خرچے کِتھوں لیائیے
اسی غریب۔(بس جی گاؤں کی بی بی خیراں سے قرآن پاک پڑھ چکی ہیں، باقی کے خرچ
کہاں سے لائیں، ہم غریب لوگ)ماسٹر جی نے رجسٹر بند کیا اور تاسف سے اپنے
اداراتی شناختی کارڈ کی پشت پر لکھا جملہ دہرایا۔ ’’ہمارا پنجاب، پڑھا لکھا
پنجاب‘‘۔ |