تحقیق پر مبنی یکساں نظام تعلیم کا نعرہ

سب جانتے ہیں کہ جاپان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اسکی کامیابی کا راز کیا ہے ؟ جی ہاں جاپان کی ترقی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جوان نسل کو اخلاقی تعلیمات سے روشناس کیا۔جماعت سوم تک انہوں نے قوم کے بچوں کو اخلاقیات کی تعلیم دی۔بچوں کو آداب زندگی سکھائے۔ان کی عملی طور پر تربیت کی۔ بچوں کو جھوٹ نہ بولنے اور سچ بولنے کی عملی تربیت کی ۔ بچوں میں صفائی کی عادت ڈالنے کے لئے پریکٹیکل طور پر بچے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر سکول کی صفاءٰی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں تعلیم کی ابتدا اخلاقیات سے کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچے اور بچیاں اخلاقی زیور سے روشناس ہو کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنی نسل نو کی اخلاقی لحاظ سے آبیاری کی اور اپنی قوم کو دیانت دار بنانے میں کامیاب ہو گئے اور یوں ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے بام عروج تک پہنچ گئے اور دنیا کی امامت ان کے قدموں تلے آگری۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جاپان عالمی گاؤں کا پرامن و پرسکون ملک ہے۔اگر کسی سے کوئی چیز گم ہو جائے تو لوگ اسے امانت سمجھتے ہوئے پولیس سٹیشن میں جمع کرا دیتے ہیں اور پولیس کسی بھی طریقے سے مالک کو ٹریس کر کے امانت پہنچا دیتی ہے اگر تین ماہ کے دوران وارث نہ مل سکے تو یہی رقم قومی خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے او ر اسکا تیسرا حصہ انعام کے طور پر پولیس سٹیشن کو امانت پہنچانے والے کو مل جاتے ہیں ۔ یہ سب جاپان قوم کی تعلیم وتربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ ان کے معیار تعلیم کا کمال ہے۔اسی ماڈل کو پاکستان میں بھی اپنا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔کسی بھی ملکی نظام کی اصلاح سے پہلے اس ملک کے نظام تعلیم کی اصلاح بہت ضروری ہوتی ہے۔یہ نظام تعلیم ہی ہے جس کی کوکھ سے بچے اور بچیاں جنم لیتے ہیں اور پھر ساری زندگی انہی خطوط پر گزار دیتے ہیں اگر ہم فن لینڈ کے نظام تعلیم کا جائزہ لیں تو حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے جو یورپ کے شمال میں واقع چھوٹا سا ملک ہے جو آبادی کے لحاظ سے ۱۱۴ اور رقبے کے لحاظ سے ۶۵ نمبر پر ہے۔ لیکن پھر بھی معیار تعلیم کمال کا ہے فن لینڈ تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا کے سر فہرست ممالک میں سے ہے۔ ۲۰۲۰ تک فن لینڈ عالمی گاؤں کا وہ واھد ملک ہو گا جہاں مضمون نام کی کوئی چیز نہی پائی جائے گی بلکہ اس میں عملی طور پر تعلیم دی جاتی ہے۔ پرابلم سالونگ اور ریسرچ کی بنیاد پر تعلیم دی جاتی ہے۔ فن لینڈ کے کسی سکول میں زیادہ سے زیادہ طلباء کی تعداد ۱۹۵ ہوتی ہے جبکہ ۱۹ سٹوڈنٹس پر ایک ٹیچر ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے لمبی بریک فن لینڈ میں ہوتی ہے جو ۷۵ منٹ کی ہوتی ہے۔جس میں بچے کھیلتے کودتے ہیں اور یوں سکول میں انجوائے کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر اس قسم کی لمبی بریک کسی تیسری دنیا کے ملک میں دی جائے تو شاید کہ والدین اپنے بچوں کو نکال لیں کہ یہاں تو پڑھائی ہی نہیں بلکہ حقیقت یہ کہ فن لینڈ میں روایتی طریقہ تدریس کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم دی جاتی ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم اور مختلف سرگرمیوں کی مدد سے تعلیم دی جاتی ہے۔تحقیق کے زریعے آگے بڑھتے ہیں۔اس سے تعلیم مزید دلچسپ اور د یر پا ہو جاتی ہے اور طلباٗ میں شوق کا مادہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی برابر کی توجہ دی جاتی ہے جبکہ اساتذہ ر وزانہ اپنی تدریسی مہارتیں بڑھانے کے لیے وقف کرتے ہیں جس سے یقیناً طلباء کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ سات سال سے پہلے بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا او اور نہ ہی پندرہ سال سے پہلے کسی امتحان سے گزارا جاتا۔یہ سن کر آپ کو یقیناًحیرانگی ہو گی کہ فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے بہت مشکل ہے۔ وہاں کی یونیورسٹیوں کے ٹاپ ٹین کو خصوصی تربیت کے بعد امتحان لیا جاتا ہے جس میں کامیابی کے بعد انہیں ٹیچر بننے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ پھر اس ملک میں استاد کو ایک خاص مقام حاصل ہو جاتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن ممالک میں اساتذہ کی قدر زیادہ کی جاتی ہے ان ممالک میں شرح خواندگی بھی زیادہ ہوتی ہے اور قدردان قومیں ترقی یافتہ بھی ہوتی ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نظام تعلیم پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے بچوں کو روزمرہ زندگی سے مطابقت رکھنے والی جدید تعلیم سے نوازا جاتا ہے۔ ان کے ہاں نظام تعلیم پر زبردست چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر قومی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔بچوں کو نقل، رٹا سسٹم سے دور رکھا جاتا ہے۔دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم کی بدولت طلبا ء میں تجسس کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک سے وطن عزیز کے نظام تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے وطن عزیز میں سالانہ جی ڈی پی کا دو فیصد خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس سے کئی گنا زیادہ صرف کیا جاتا ہے مغربی اقوام نے اپنے اپنے ملکوں میں تعلیم کو ترجیح نمبر ایک بنایا ہوا ہے گزرتے لمحات کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بھی اگرچہ بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ملکی نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا کہ یہاں رٹہ سسٹم ہے۔ طلبا ء سوالات یاد کرتے ہیں ، امتحان دیتے ہیں اور پاس ہو جاتے ہیں ۔ان کی لکھنے اور بولنے کی مہارتوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ رٹے کی مہارت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ملک عزیز کے شاہینوں کو ایک نصاب،ایک نظام تعلیم ، یکساں ماحول اور یکساں مواقع کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے فی الواقع ترقی کرنی ہے تو ہمیں لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام تعلیم کو ترک کرتے ہوئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ یکساں نظام تعلیم کی بنیاد ڈالنی ہو گی جسکی بنیاد پرابلم سالونگ پر ہو،تحقیق اور تخلیقیت پر ہو۔

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 23 Articles with 45756 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More