ویڈیو گیمز بچوں کو تباہ کر رہی ہیں

اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ممالک میں والدین بچوں میں الیکٹرانک گیمز کے لیے پیدا ہونے والے جنون اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے پریشان ہیں۔ دنیا میں پہلی کمپیوٹر گیم 1962ء میں بنائی گئی تھی۔ جس کا نام Space War رکھا گیا تھا۔ گو الیکٹرانک گیمز کا سلسلہ اس زمانے میں شروع ہوگیا تھا لیکن ہر کسی کی کمپیوٹر تک رسائی نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ عام نہیں ہوا تھا۔ اس سلسلے کو تقویت اس وقت ملی جب 1980ء کے بعد طاقتور پرسنل کمپیوٹر عام ہونا شروع ہوئے۔ اس کے بعد کمپیوٹر گیمز میں بھی تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ اب ان گیموں کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ مارکیٹ میں ہر طرح کی گوئز گیمز، ایڈوانچر گیمز اور ایکشن گیمز انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں۔ کرکٹ، آئس ہاکی، فٹ بال اور گالف سے متعلق گیمز بھی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی ایسی گیمز بھی ہیں جو تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات سے بھی بھرپور ہیں۔ مارکیٹ میں ایسی گیمز بھی ہیں جن میں آپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ہوائی جہاز اڑاتے ہیں اور دنیا کے گرد چکر لگاتے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں لیکن اوپر بیان کی گئی گیمز کی اقسام کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی بھی ہیں جن پر کڑی تنقید کی جاتی ہے اور وہ تنقید کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ یہ مناظر اور واقعات معاشرے میں بالخصوص بچوں پر بہت بُری طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان گیمز میں کھلے عام لوگوں کو قانون کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ایک انسان جو دراصل کمپیوٹر آپریٹر ہوتا ہے درجنوں کو جدید ہتھیاروں سے ہلاک کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔

آن لائن خطرناک گیمز
ان گیمز نے اس وقت ایک نیا روپ دھار لیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مشہور گیم Britannia نام کی ہے۔ گیم میں بھی برطانیہ ایک ملک ہے جس کی آبادی دو لاکھ ہے۔ اس ملک میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ لوگ کاروبار کرتے ہیں، تعمیرات کے کاموں میں مشغول ہیں، آپس میں لڑائیاں کرتے ہیں لیکن اس سب ماحول میں کوئی چیز بھی حقیقی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک کمپیوٹر گیم ہے جو محض انٹرنیٹ پر کھیلی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ پر کوئی بھی شخص یہ گیم کھیل سکتا ہے۔ جب کوئی بھی شخص اس گیم میں حصہ لینے کے لیے انٹری دے گا تو وہ اس دو لاکھ کی آبادی میں سے اپنے کسی بھی پسندیدہ کردار کا روپ دھار کر کھیلنا شروع کر دے گا۔ اس طرح کی بے شمار گیمیں آن لائن موجود ہوتی ہیں۔ آن لائن گیمز دوسری گیمز سے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ دوسری گیموں میں کمپیوٹر آپریٹر کے علاوہ دوسرے تمام کرداروں کو کمپیوٹر چلاتا ہے اور یہ کردار پہلے سے آٹومیٹک طریقے سے اس میں فیڈ کر دیئے جاتے ہیں جبکہ آن لائن گیمز سے ماحول میں کردار کے پیچھے ایک آدمی ہوتا ہے جس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے، مذہب اور قوم سے ہو سکتا ہے۔ اس گیم میں ہزاروں لوگ بیک وقت شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مشہور گیم Ultioma Online سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس گیم میں دنیا کے 114 مختلف ممالک سے افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس گیم کے شرکاء باہمی چیٹ بھی کر سکتے ہیں۔ اس گیم میں داخل ہو کر انسان اپنے آپ کو گلوبل کمیونٹی کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔

نئی نسل کا اخلاق تباہ ہو رہا ہے
یہاں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ساری گیمز ہی مثبت خصوصیات نہیں رکھتیں۔ مارکیٹ میں ان گنت کمپیوٹر گیمز موجود ہیں جن میں کھلے عام قانون کی خلاف ورزیاں دکھائی جاتی ہیں۔ ان کے مناظر تشدد سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان میں جنسی جرائم کی عکاسی بڑے پرکشش انداز میں کی جاتی ہے۔ عام طور پر ان گیمز میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے بڑی لغو اور گھٹیا ہوتی ہے بلکہ بازاری زبان سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتی ہے۔ امریکی نیشنل انسٹیٹیوٹ فارمیڈ یا اینڈ فیملی کے صدر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے یہ ایک ایسا تباہ کن سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو ہماری نئی نسل کو اخلاقی طورپر تباہ کر رہا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ متاثر ہونے والے بجے 10 سے 15 برس کی عمر کے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق نوجوانوں کی تعداد کا 80 فیصد ایسی گیمز کھیلنے کو ترجیح دیتا ہے جو تشدد سے بھرپور ہوتی ہیں نیز یہ مختلف قسم کے جرائم پر مبنی ہوتی ہیں۔ ایک ماہر نفسیات نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم کمپیوٹر گیمز کو محض کھیل سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو غلط سمت لے کر جارہی ہے اور ہم اپنے بچوں کو کمپیوٹر گیمز کے ذریعے وہ سب کچھ سکھا رہے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جو شخص شاید حقیقی زندگی میں 60 سال تک ہتھیار کا میگزین لوڈ کرنا نہ سیکھ پائے لیکن کمپیوٹر کی مدد سے وہ نہ صرف جدید ہتھیاروں کے استعمال میں مہارت حاصل کر لیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں اور دوسری جاندار اشیاء کو گولیوں سے چھلنی کرنا بھی سیکھ لیتا ہے۔‘‘

1976ء میں جب Eart Race نامی فائٹنگ گیم مارکیٹ میں آئی تو امریکی عوام نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ یہ گیم تشدد اور جرائم پر مبنی تھی لیکن آج کل فائٹنگ گیموں میں بدترین تشدد اور جرائم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان گیمز کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کی سی ڈیز سے دکانیں بھری پڑی ہیں۔ مارکیٹ میں ایک فائٹنگ گیم Carmagaddon ہے جس کے فائنل راؤنڈ تک پہنچنے کے لیے 35000 انسانوں کو گن سے فائرنگ کر کے ہلاک کیا جاتا ہے۔ یہ گیم دوسری روایتی گیمز سے اس لحاظ سے مختلف اور سنگین ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں جو کمپیوٹر آپریٹر سے رحم کی درخواست کرتے دکھائی دیتے ہیں اور موت سے بچنے کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں اور پنجوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں تاکہ ان کی زندگی بچ سکے۔ لیکن کمپیوٹر آپریٹر فائنل راؤنڈ تک پہنچنے کے لیے ان سب کو اپنی شارٹ گن کی گولیوں سے بھونتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہر طرف خون ہی خون کے مناظر دکھائی دیتے ہیں اور گیم کھیلنے والا اس سارے منظر کو بہت انجوائے کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے امریکہ میں بڑی تحقیق کی گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ اس وقت معاشرے میں ہونے والے جرائم اور ان ویڈیو گیمز کا بہت گہرا تعلق ہے۔ بچے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر جب یہ گیمز کھیل رہے ہوتے ہیں تو وہ حقیقی طور پر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہوتے لیکن جب وہ یہی عمل حقیقی زندگی میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو معاشرے کے بہت سے افراد کو متاثر کرتے ہیں یعنی گیمز بچوں کو سوچ کی مجرمانہ سوچ میں تبدیل کر رہی ہیں۔

گیمز میں قتل کرنے کی ٹریننگ
جہاں تک کمپیوٹر گیمز اور بچوں کا تعلق ہے تو بچوں کو بھی ان گیمز میں بالکل اسی طرح کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ان کے اندر خون بہانے کی خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کی مہارت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ منطقی اعتبار سے ان کی یہ مشقیں فوجیوں کی مشقوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ عام فائٹنگ گیمز بدترین قسم کے تشدد سے بھرپور ایک فلم جو ٹیلی ویژن یا سینما پر دیکھی جاتی ہے کی نسبت زیادہ برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارا کردار صرف دیکھنے کی حد تک محدود ہوتا ہے لیکن جب کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر گیم کھیلتے ہیں تو ہم گیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی گیمز جن میں ہیلمٹ اور عینک کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں تو بچے آس پاس کی بیرونی دنیا سے بالکل ہی کٹ جاتے ہیں اور خود مکمل طور پر اس گیم کے ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں، پھر گیم ہارنے یا جیتنے کی صورت میں انہی حقیقی جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ جو حقیقی زندگی کا حصہ ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ غیر حقیقی جذبات حقیقی جذبات کا اٹوٹ حصہ بن جاتے ہیں ور پھر یہ بچے حقیقی زندگی میں بھی انہی کے زیراثر رہتے ہیں ا ور وقت آنے پر ان کا ردعمل بھی انہی جذبات کے زیراثر رنگ دکھاتا ہے۔

ویڈیو گیمز میں قتل کرنے کا رجحان
تشدد عموماً اور جنسی تشدد خصوصاً ویڈیو گیم انڈسٹری کا حصہ ہے۔ موجودہ رجحان یہ چل نکلا ہے کہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے جرائم بچے کی تصوراتی دنیا میں عملی اقدام کرتے ہوئے زیادہ پوائنٹ لینے کے لیے قتل اور حملہ کرتے ہیں اس کے لیے وہ معصوم لوگوں کا قتل کرتے ہیں اگرچہ ان گیمز کو M ریٹڈ یعنی میچور لوگوں کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے لیکن یہ سب سے زیادہ کم عمر لڑکوں میں مقبول ہے۔ مثال کے طور پر Grant Theft Auto-3 سب سے زیادہ بکنے والا گیم ہے اس میں پوائنٹ حاصل کرنے کے لیے کار جیکنگ اور منشیات فروشوں سے منشیات لے کر بھاگنا ہوتا ہے۔

اسی طرح (Carmageddon) میں کھیلنے والے پیدل چلنے والوں کو کچل کر پوائنٹ حاصل کرتے ہیں اور اس وقت ان کی ہڈیوں کی چٹخنے کی آوازیں حقیقی تاثر پیدا کرتی ہیں۔ جبکہ (Duke Nukem) میں شوٹر اپنی مہارت بڑھانے کے لیے پرونوگرافک پوسٹر میں عورتوں کو ٹارگٹ بنا کر مشق کرتے ہیں۔ وہ اس وقت بونس پوائنٹ حاصل کرتے ہیں جب وہ برہنہ طوائف کو جو درخواست کرتے ہوئے کہتی ہے مجھے مار دو (Kill me) اور وہ اسے نشانہ بناتے ہیں۔ پوسٹل ڈیوڈ (Postal Dude) میں اس وقت پوائنٹ ملتے ہیں جب کھیلنے والا اندھا دھند ہر شخص پر فائرنگ کرتا ہے جن میں چرچ سے نکلنے والے لوگ، ہائی اسکول کے بچے وغیرہ شامل ہیں پوسٹل ڈیوڈ پروگرام میں کہا جاتا ہے کہ ’’صرف میری بندوق ہی مجھے سمجھتی ہے۔‘‘

2001 Mnets کے مطالعے کے مطابق 32 فیصد بچے جن کی عمریں 9 سے 17 سال کے درمیان ہیں وہ ہر روز یہ ویڈیو گیم کھیلتے ہیں ان میں سے 60 فیصد ان کی طرح حرکتیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیول یونیورسٹی کے پروفیسر کے پیکیسٹی اور جیکس ڈی گائز کی تحقیق کے مطابق 80 فیصد ٹی وی تشدد کینیڈا میں امریکہ کے پروگراموں سے منتقل ہوتا ہے مجموعی طور پر 87.9 فیصد تمام تر تشدد ایکٹ 9pm میں دکھائے جاتے ہیں اس طرح 39 فیصد 8pm سے پہلے دکھائے جاتے ہیں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے ٹی وی زیادہ دیکھتے ہیں۔

اس طرح سلوموشن میں گولی کو لوگوں کے سینے میں پیوست ہوتا ہوا اور لوگوں کو خون میں لت پت دکھانا اب میڈیا میں ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ جسے دنیا بھر میں لاکھوں ناظرین دیکھتے ہیں اس طرح عورتوں کی ریسلنگ میں خواتین ریسلر کا ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنا، بال کھینچنے کی وجہ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا گیم ہے۔

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 51854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.