آزادکشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد نا صرف خطہ کے دس
اضلاع سے تعلق رکھنے والے تمام زبانوں رنگ و نسل علاقوں کے سب ہی مکاتب فکر
پیشہ وارانہ فرائض سے منسلک افراد بلکہ مقبوضہ کشمیر کے قریہ قریہ نگر نگر
کے باشندگان اور پاکستان مقیم کشمیری مہاجرین کے عزیز اقارب اسمبلی سے لیکر
ملازمت ‘ تجارت ‘ صحافت ‘ وکالت سمیت تمام شعبہ جات سے منسلک وابستگان کا
گلدستہ شہر ہے ‘ جس کا بطور دارالحکومت وجود اور خطہ میں ایک ملک جیسا نظام
تہذیب و ثقافت جغرافیائی محل وقوع و آزادی مقبوضہ کشمیر کے تناظرکی بنیادوں
پر کھڑا ہے جو آج کل اپنے موسمیاتی ماحول اور دو دریاؤں کے سنگم کو درپیش
بحرانوں کا بروقت حل نہ کرنے کے باعث آزمائش سے دوچار ہو چکا ہے ‘ جس کا
احساس رکھنے والے آٹا میں نمک سے بھی کم لوگ سوشل میڈیا سمیت مختلف مقامات
پلیٹ فارم پر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جن کا وجود بالکل
دریاؤں میں زور و طاقت کا مزاج و عمل ختم ہو جانے کے بعد چلتے پانی کے
احساس کی طرح غنیمت ہے اچھا ہے اس میں نیلم جہلم کی طرح پہلے والا جوش و
شور نہیں ہے کیوں کہ اس کو قلیل المدت نہیں طویل مدتی ‘حکمت و تسلسل برقرار
رکھتے ہوئے قائم و دائم آواز برائے جہد مسلسل درکار ہے ‘ کیوں کہ اسمبلی
حکومت نظام سرکار سے لیکر اخلاقی ‘ سماجی ‘ نفسیات دھکا سٹارٹ مائنڈ سیٹ بن
چکی ہے اس طرح کے حقیقت حال گھن چکر میں نیلم جہلم بستیوں کے مکینوں بلکہ
ان کی نئی نسلوں کو ناصرف پینے و استعمال کے صاف پانی اور سازگار موسمیاتی
ماحول کے مسائل کا سامنا ہو چکا ہے بلکہ ان کے حل سے پہلے سیوریج یعنی باتھ
رومز سے لے کر گھر ‘ دکان ‘ دفتر پر جگہ ہر کونے کھدرے میں بڑی سے لیکر
چھوٹی چھوٹی گندگی ‘ کوڑا کرکٹ اور ملبہ تک کے ٹھکانے لگانے کا محفوظ
انتظام کرنا سب سے زیادہ لازمی ناگزیر ہے ‘ جو اس وقت تک پینے ‘ استعمال کے
پانی ‘ موسم کو خوشگوار رکھنے والے یہ دریا ہی اپنے اندر سمو کر برداشت کر
رہے تھے اور سارے نظام و سماج کی بداعمالیوں ‘ نااہلیوں ‘ ناکامیوں ‘
گندگیوں کو چھپائے پردہ ڈالے ہوئے تھے اب جب ان دریاؤں سے پینے و استعمال
کے صاف پانی سمیت موسم کی سختیوں کو کم رکھنے کے لیے جھیلوں و دیگر انتظام
وا نصرام کے مطالبے و تجاویز فارمولے زور اختیار کر چکے ہیں سوال یہ پیدا
ہوا ہے سیوریج وغیرہ کے متبادل نظام بغیر گندگی و غلاظت کے نالے نو کیوسک
پانی کو مجموعی مدت خصوصاً موسم سرما میں سڑکوں پر آئے اُبلتے گٹروں ‘
نالیوں کی غلاظت ‘ بارشوں کے پانی مل جانے سے جیسی ‘ کیچڑ کا منظر ہی پیش
کرے گا اور پھر شاید پینے کے استعمال کے صاف پانی کی سبزیوں فروٹ وغیرہ کی
طرح ہزارہ راولپنڈی یا نیلم آٹھمقام جا کر ٹرک منگوانے پڑیں گے اس لیے پانی
‘ جھیل وغیرہ کے بچہ پیدا ہونے کے ناموں کے مرحلے سے پہلے کیچڑ و گند کے
نالوں کے رُخ کامتبادل محفوظ مستقل انتظام کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کا
زور دار دباؤ تحریک لازمی ہے خواب دیکھنے کے بجائے نوسیری سے پینے کے صاف
پانی کیلئے الگ پائن لائن دریا کے بغیر واٹر سسٹم تک قائم کرنا اصل حل ہو
گا جس کے بعد جھیلوں اور دریا کے دونوں اطراف شجر کاری وغیرہ کر کے پانچ سے
چھ سالوں میں قابل برداشت ماحول کی عمارت اور انتظام کا انصرام کچھ نہ ہونے
سے کچھ ہونے جیسا اطمینان بن سکے گا ‘ اگرچہ یہ آزادکشمیر کی گزشتہ حکومتوں
محکموں کی غفلت لاپرواہی بشمول لوگوں کی بے حسی کی سزا ہے مگر اب حکومت
پاکستان اور واپڈا کا فرض بنتا ہے وہ نئے ڈیمز بشمول کالا باغ کو بنا کر
ملک کو دشمنوں سے بڑے خطرات سے نکالنے کے لیے کامیابی کو مظفر آباد شہر کو
دریا کے بغیر ترقی ‘ سہولیات کا شاہکار بنا کر مخالفت کرنے والوں کو بطور
عملی مثال پیش کرے جس کے لیے پانچ نہیں پچاس ارب بھی خود واپڈا سمیت قومی
اداروں کے زیر انتظام استعمال میں آ جائیں تو یہ پاکستان اور ملت پاکستان
سے زیادہ قیمتی بلکہ زرہ بھر حیثیت نہیں رکھتے ہیں ۔ |