حج و قربانی کا سبق

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

آج شرفو کی حج سے واپسی ہے، خوش آمدید کہنے کے لئے دوست احباب ایئرپورٹ پر جمع تھے، عدنان صاحب جن کا شرفو ملازم تھا اور انھوں ہی نے شرفو کو حج پر روآنہ کیا تھا ، وہ بھی ایئرپورٹ پر پہنچے ہوئے تھے، حج روانگی سے پہلے اس کا اھتمام نہیں کیا کہ شرفو کچھ مسائل سیکھ لے ، عدنان صاحب نے جاتے ہوئے جلدی میں کچھ باتیں بتا دیں تھیں ، اس میں ایک یہ بات بتائی تھی کہ رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے نفلی طواف اس وقت کرنا جب رش کم ہو۔

شرفو ایئرپورٹ سے باہر نکلا ، سب نے ہار پہنائے ،گلے لگے، مبارک باد دی، عدنان صاحب بھی بہت خوش تھے کہ ان کو یہ سعادت ملی کہ انھوں نے ملازم کو حج کرایا، مبارک بادی کے بعد عدنان صاحب نے شرفو سے پوچھا کہ حج کیسا رہا؟ بہت زبردست حجر اسود کو خوب بوسے دیئے، شرفو نے فخریہ انداز میں جواب دیا، عدنان صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ حجر اسود کو اتنے رش میں بوسے کیسے لے لئے؟ شرفو نے کہا کہ صاحب آپ نے کہا تھا ناں کہ جب رش نہ ہو تو طواف کرنا ،تو میں نے دیکھا کہ ۸ اور ۹ ذالحجہ کو حرم خالی تھا میں نے خوب طواف کیے اور خوب بوسے لئے، عدنان صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

کسی عمل میں کچھ نہیں رکھا ، اﷲ تعالی کا حکم اصل ہے ، اگر حکم ہو تو نماز پڑھنا عبادت اور اگر چھوڑنے کا حکم آئے تو نماز چھوڑنا عبادت،حکم آیا کہ کھا لو تو کھانا عبادت اور اگر حکم ہو کہ کھانے سے رک جاؤ تو رک جانا عبادت۔ اس لئے ہر وقت یہ مدنظر رہے کہ فی الوقت کون سا حکم متوجہ ہے ، اپنی خواہش اور عقل پر چلنا دین نہیں ہے۔ حج و قربانی میں خاص تربیت ہوتی ہے کہ بظاہر معمولی سے کام کو بڑی عبادت بنا دیا اور بڑے بڑے کام کو چھڑوادیا، منی میں ۸ تاریخ کو کوئی خاص عمل نہیں صرف ۵ وقت نماز ہے لیکن اس کی خاطر حرم کے طواف اور نماز کو چھڑوادیا، میدان عرفات میں سارے حاجی جمع ہوئے ، خوب دعائیں کیں اپنی سابقہ زندگی سے تائب ہوئے اور پھر ایسے بن گئے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے ، سب گناہ معاف ہوگئے، میدان عرفات سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلا حکم متوجہ ہوا کہ مغرب کی نماز چھوڑ دو ، اب اگر کسی کے دل میں خیال آئے کہ ابھی تو توبہ کی ہے کہ اب نماز نہیں چھوڑیں گے لیکن حکم آرہا ہے کہ نماز چھوڑ دو ، اب نماز کا چھوڑنا عبادت بن گیا ، اس طرح بندے کی خاص تربیت ہو رہی ہے کسی عمل میں کچھ نہیں رکھا اصل چیز اﷲ تعالی کا حکم ہے ۔

قربانی میں بھی یہ تربیت ہو رہی ہے کہ عقلی گھوڑے نہ دوڑاؤ ، ورنہ تو عقل یہ کہے گی کہ تم ایک جان ہو اسی طرح جانور بھی ایک جان ہے ، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کہ اپنی لذت کی خاطر ایک جان کا قتل کر دو، ہندو یہ استدلال کر تے ہیں کہ کسی جان کو قتل کر کے اسکا گوشت استعمال کرنا ظلم ہے ، اس لئے ہندو گوشت نہیں کھاتے ، انکے لئے آسان سا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالی ہمارے مالک ہیں اور جانور کے بھی مالک ہیں ، مالک اجازت دے رہے ہیں کہ جانور کو ذبح کر لو لیکن ذبح کرتے وقت میرا نام لے لینا کہ یہ اجازت ہمیں اﷲ تعالی نے دی ہے ، اس لئے ہم مالک کی اجازت و رضا کے ساتھ ذبح کرتے ہیں اور جانور مالک کی مرضی کے ساتھ آسانی سے ذبح ہو جاتے ہیں ، بعض اوقات جب گائے ،اونٹ وغیرہ بپھر جاتے ہیں تو انکو قابو کرنا ور ذبح کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے ، یہ اتنے بڑے بڑے جانور آسانی سے ذبح ہو جاتے ہیں یہ اﷲ تعالی کا احسان ہے اور اسکی ایک نشانی ہے ،اسی طرح چند دن جانور کو چارہ کھلانے سے وہ کھلانے والے کو کیسے پہچان لیتے ہیں اور اس کے مطیع ہو جاتے ہیں ، ہم اﷲ تعالی کی کتنی نعمتیں استعمال کرتے ہیں لیکن اس اعتبار سے کیا ہم اﷲ تعالی کی اطاعت بھی کرتے ہیں؟اس لئے فرمایا کہ جو نعمت استعمال کر کے اطاعت نہ کرے وہ جانور سے بھی بد تر ہیں ۔

الغرض حج و قربانی میں ایک عظیم درس ہے کہ عمل بظاہر کتنا ہی بڑا اور شاندار ہو ، اگر اس میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم موجود نہیں تو اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں، اس سے بدعت کی جڑ کٹ جاتی ہے ، اور عمل میں بندہ بے اعتدالی اور غلو سے بچ جاتا ہے

Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.