ہر چیز کو جانچنے کا معیار ہوتا ہے. کسی چیز کے اچھا یا
برا ہونے کا پتا اسکے معیار سے لگایا جاتا ہے. انسان کو بھی جانچنے کا ایک
معیار الله کی طرف سے طے کردہ ہے.. تقویٰ... تم میں سے برتر وہ ہے جو زیادہ
تقویٰ اختیار کرنے والا ہے. روۓ زمین پر کچھ معیار ہم انسانوں نے بھی مقرر
کیے ھوئے ہیں. جن کی بنیاد پر سب کچھ پرکھا جاتا ہے . ہر معاشرے کے اپنے
مخصوس معیار بھی ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک پاکستان میں ہر شخس کے اپنے مقرر
کردہ معیار ہیں جو وہ لوگوں کو جانچنے کے لیے استعمال کرتا ہے . جب کسی شخس
سے پہلی دفہ ملاقات ہوتی ہے تو جو معیار سب سے پہلے مدنظر رکھا جاتا ہے وہ
ہے قیمتی لباس. مانا کہ لباس شخصیت کا آئینہ ہے مگراس کے لیے اسکا قیمتی
ہونا تو ضروری نہی ہے. برانڈڈ لباس، گھڑی اور قیمتی موبائل فون سے امپریس
ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے. یہ سب چیزیں دیکھنے کے بعد متاثر
ہونے والوں کے پاس الفاظ کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں واضح عزت
نظر آنے لگتی ہے. کم از کم اس شخس کے بولنے کا تو انتظار کیا جاے. کیا اسکے
الفاظ بھی اتنے ہی قیمتی ہیں جتنا اسکا لباس. کیا یہ سب کسی کی شخصیت یا
قابلیت جانچنے کے لیے کافی ہے؟. ایک پڑھے لکھے باشعور انسان کی ذہانت،
قابلیت اور الفاظ کی چمک ایسا معیار رکھنے والوں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے
جو بہت افسوس ناک ہے.
دوسرا معیار ہے انگریزی. انگریزی زبان کا آجکل زیادہ استمال دوسروں پر رعب
جمانے کے لیے کیا جاتا ہے. انگریزی کے دو چار جملے جھاڑ کر سمجھا جاتا ہے
کے ہم نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا. جو انگریزی بول رہا ہے وہ بہت زہین
فطین سمجھا جاتا ہے. اپنی قومی زبان اردو کا استمال باعث شرم سمجھا جاتا ہے.
انگریزوں کی پیروی کرتے کرتے ہم بھول گئے ہیں کہ انکی تو قومی زبان انگریزی
ہی ہے. دوسرے ممالک جیسا کہ چین اور ملایشیا میں اپنی قومی زبان کو سرکاری
زبان کے طور پر استمال کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ڈاکٹر آف فلاسفی کی تعلیم
بھی قومی زبان میں حاصل کی جا سکتی ہے. اور یہاں نرسری کلاس کے بچوں کی
مائیں بہت فخر سے بتاتی ہیں "میرے بچے کی اردو کمزور ہے ذرا، انگلش میڈیم
سکول میں پڑھتا ہے نہ اس لیے". افسوس ہوتا ہے ایسے معیار دیکھ کر.
مجھے اس بات کا زیادہ احساس دوسرے ممالک کو دیکھنے کے بعد ہوا. وہ لوگ کیسے
بہت فخر سے اپنی قومی زبان ہر جگہ استمال کرتے ہیں. اور ایک ہم ہیں جن کا
ذہانت، شخصیت، قابلیت غرض سب پہلو جانچنے کا معیار غیر ملکی زبان ہے. میرے
اردو بولنے پر میری قابلیت اور ڈگری پہ شک کیا جاتا ہے. جبکہ انگریزی کے دو
چار الفاظ اس معاشرے میں میری قابلیت اور ڈگری پہ قبولیت کی مہر لگا دیتے
ہیں. میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ دنیا میں ترقی کرنے کے لیے
بینالاقوامی زبان کا سیکھنا ضروری ہے مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہی ہونا چاہیے
کہ اس زبان کو ذہانت ور قابلیت جانچنے کا معیار بنا لیا جاے .
ایسے اور بھی بہت سارے خود ساختہ معیار ہیں جو ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ
ہیں. ان پر ذرا سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی معیار کی تبدیلی کے لیے سوچ
کی تبدیلی ضروری ہے.
ڈاکٹر بینی راجپوت
|