حضرت بن عامر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ و سلم ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے، میری والدہ نے (میری جانب بند
مٹھی بڑھا کر) کہا: یہاں آؤ میں تمہیں دوگی (جیسے مائیں بچے کو پاس بلانے
کیلئے ایسا کرتی ہیں) آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا:
تمہارا اسے کیا دینے کا ارادہ تھا؟ والدہ نے جواب کہ میں اسے کھجور دینا
چاہتی تھی، تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اسے کھجور
نہ دیتی تو تمہارے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھوٹ کا معاملہ کتنا نازک ہے۔ چاہے وہ مزاح وغفلت
میں کیوں نہ ہو۔ اکثر لوگ جھوٹ بولتے ہیں جب پوچھا جائے کہ جھوٹ کیوں بولتا
ہے یہ تو گناہ ہے؟؟؟ تو جواب عرض کرتاہے کہ میں مزاح کرتا ہو، حالانکہ اس
کو یہ خبر نہیں کہ مزاح میں جھوٹ بولنا بھی گناہ ہے اگر گناہ نہ ہوتا تو
نبی علیہ السلام نہ فرماتے کہ تمہارے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا۔
عام طور پر ایسے الفاظ سے کام لیا جاتاہے کہ بظاہر وہ سچ سمجھا جاتا ہے
لیکن حقیقت میں وہ جھوٹ ہوتا ہے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ بڑھئی کے گھر آدمی
آیا اور مطالبہ کیا کہ میرے لئے کوئی چیز بنا کے دو۔ بڑھائی کا بیٹا گھر
میں موجود تھا، اس نے ایک چھوٹے سے درخت کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا: جب
یہ درخت بڑا ہو جائے تو اس سے آپ کے لئے بنا دیں گے۔ وہ شخص اس جملہ سے
مطمئین ہو کر چلا گیا۔
بڑھئی کو جب پتہ چلا تو بیٹے سے پوچھا کہ وہ آدمی کیسے رخصت ہو گیا؟ تو
بیٹے نے کہا کہ اباجان اس کو اس درخت کا طمع دیکر رخصت کر دیا۔ بڑھئی نے سر
پہ ہاتھ رکھ کر کہا: تم نے بڑی غلطی کی یہ درخت تو کل بڑا ہو جائے گا تو تم
نے ضرور بنانا ہو گا، اگر تم اس کو یہ کہہ کر رخصت کرتے کہ ہو جائے گا تو
اس میں زمانہ گزر جاتا۔
بڑھئی نے ''ہوجائیگا'' اس جملے کو غنیمت سمجھا کہ اس سے جان چھڑاؤ حالانکہ
جھوٹ گناہ کبیرہ ہے اور جھوٹ کو نبی علیہ السلام نے منافق کی خاص علامت
قرار دیا۔ حدیث میں ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے
جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اسے امین بنایا جائے تو اس میں خیانت
کرے۔
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے جھوٹ کو منافق کی خاص نشانی فرمایا ہے۔
جھوٹ وہ گناہ ہے جس کی وجہ سے رحمت کا فرشتہ دور چلا جاتا ہے۔ حدیث شریف
میں ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ''جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی
وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتاہے''۔
جب رحمت کا فرشتہ چلا جائے تو پھر زحمت ہی زحمت ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ حفاظت
فرمائے۔ اس کے باوجود ہمارا کوئی پروا ہی نہیں بے دھڑک جھوٹ بولا جاتاہے۔
دکاندار کاہک کو راضی کرنے کے لئے جھوٹ بولتاہے۔ بیٹا باپ کو راضی کرنے کے
لئے جھوٹ بولتا ہے۔ شاگرد استاد کو راضی کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ بیوی
شوہر کو راضی کرنیکیلئے جھوٹ بولتا ہے۔ عرض جھوٹ نے پورہ معاشرہ اپنے لپیٹ
میں لیلیا ہے۔
بعض دیندار لوگ بھی اس گناہ میں مبتلاہیں حالانکہ اس کو خبر بھی نہیں کہ یہ
بھی جھوٹ ہے۔ استادِ محترم جناب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
مدظلہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ میرے پاس ایک مرتبہ ایک اور شہر سے ایک صاحب
ملنے کے لئے تشریف لائے، پڑھے لکھے اور نماز روزے کے پابند، ذہین اور تعلیم
یافتہ، بڑے خوش مزاج اور ستھرے ادبی ذوق کے مالک بڑے خوب صورت شعر کہنیوالے
چہرے سے لیکر انداز و ادا تک ہر چیر میں شرافت جھلکتی ہوئی، کافی دیر تک
انہوں نے اپنی دلنوازی صحبت سے مجھے مستفید کیا، جب چلنے کا وقت آیا تو میں
نے پوچھا''کب تک قیام رہیگا'' کہنے لگے کہ پہلے تو میرا ارادہ کل واپس جانے
کا تھا، مگر بعض عزیزوں کے اصرار پر اپنا قیام میں نے چند روز کیلئے اور
بڑا لیا ہے، اور آج ہی میں اپنے دفتر کو میڈیکل سر ٹیفکیٹ بھیجا جاتا'' میں
نے پوچھا '' کیا خدا نخواستہ آپ کی طبیعت ناساز ہے؟'' فرمایا ارے نہیں
بھائی، اﷲ کی فضل سے میں بالکل تندرست ہوں، لیکن دفتر سے چونکہ مزید چھٹی
ملنے کا کوئی اور راستہ نہیں، اس لئے میڈیکل سرٹیفکیٹ ہی بھیجنا پڑے گا۔
اس جناب کو علم نہیں تھا کہ یہ بھی جھوٹ ہے ورنہ وہ اس کا ارتکاب ہرگز نہ
کر تے۔ عرض ہر بات کو سوچ سمجھ کر کرنا چائیے۔ چاہے حقیقت ہو یا مزاح تاکہ
اس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ سچ اگرچہ کڑوا لگتا ہے لیکن انجام بہتر ہو گا۔ |