ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو یہ
شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہیں ۔
ہم ایک کمرے کے گھر سے دو پھر تین کمرے والا گھر حاصل کر لیتے ہیں لیکن خوش
نہیں ہوتے۔ بہت سارے لوگ محنت اور خوش نصیبی سے سائیکل سے موٹر سائیکل ،
پھر چھوٹی گاڑی سے بڑی گاڑی ، بڑا گھر اور پہلے سے ذیادہ دولت کما لیتے ہیں
تا کہ زندگی کو آسان اور پُر آسائش بنا لیں ۔اسی طرح دیگر سہولتیں بھی حاصل
کر لیتے ہیں لیکن اس تمام ترقی کے با جود کچھ لوگ پھر بھی صحیح معنوں ’’خوش
‘‘ نہیں ہوتے۔
سارا مسئلہ اس حقیقت سے خراب ہوا ہے کہ انسان روحانی تقاضوں اور مادی
ضروریات میں توازن کے بگاڑ ک شکار ہوا ہے۔
خوشی کے موضوع پر سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہیں۔ تجربات کی روشنی میں مختلف
طریقے بتائے گئے ہیں جن کو ا پنا کر انسان ایک خوشحال اور پُر مسرت زندگی
گزار سکتا ہے۔ در حقیقت جدید انسان نے خوشی کو پانے کے بہت سارے گُر سیکھ
لئے ہیں۔
خوشی بھی دیگر نظاموں کی طرح ایک نظام یا ایک طریقت کا نام ہے۔ کئی عناسر
مل کر خوشی کا سبب بنتے ہیں۔ خوشی کا یہ نظام اسی کائنات میں پہلے سے موجود
ہوتا ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کراپنی استعداد کے مطابق اس میں سے اپنا حصہ لینا
ہوتا ہے او ر ایک خو شحال زندگی کا حقدار بننا ہوتا ہے۔
ہم اپنے محدود علم اور تجربے کی بنیاد پر آپکی خدمت میں کچھ ایسی باتوں اور
عادتوں کا ذکر پیش کر رہے ہیں، جنہیں اپنا کر کوئی بھی انسان ایک مطمئن اور
خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔
شکر گزاری کی عادت :
سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا ہے وہ شکر گزاری کی عادت اپنانی ہے۔ ہم اپنے
رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں بہت ساری جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں عطا ء
کر رکھی ہیں۔ چوبیس گھنٹے ٹوٹل فری آف کاسٹ آ کسیجن کا جاری و ساری ہونا اﷲ
کی رحمت ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے ارد گرد اور بھی بے شمار نعمتیں ا ور سہو
لتیں ہیں جن پر شکر گزاری کا رویہ ا نسان میں خوشی کے جذ بات پیدا کر سکتا
ہے۔
جو انسان اپنے رب کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس موجود اُن لو گوں کا بھی شکر
ادا کرتا ہو جو اُسکے لئے آسانی اور سہولت کا سبب بنتے ہیں، وہ انسان کبھی
غمگین نہیں ہو سکتا۔ ایسا انسان ہمیشہ خوش رہتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک پہلو یہ ہے کہ انسان کی تمام آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں ۔
اسی طرح ہر خواب کی تکمیل بھی نا ممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی ہر
آرزو اور خواب کی تکمیل کے بعد کسی اور تمنا اور خواب کا تعا قب شروع کرتا
ہے۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ اس جہان کی تمام نعمتیں درحقیقت ’’عکســ‘‘ ہیں۔
اصل نعمتیں اور سچی خوشیاں اس جہانی فانی سے دور کہیں ’’اور‘‘ ہیں۔ اگر جنت
والی خوشیوں جیسی یا ان سے بڑھ کر مسرتیں اور راہتیں اس دنیائے فانی میں
ممکن ہوتیں تو پھر جنت کی آرزو اور اسکے حصول کی کوششیں کون کرتا۔۔۔
اس حقیقت پر ایمان کے باوجود بھی خوش رہنا ممکن ہے کیو ں کہ زندگی کے
شاہراہ پر خوشی اور غم ا نسان کے پہلو بہ پہلو گامزن ہیں۔ انسان ایک مسافر
اور دکھ سکھ اسکے ساتھی ہیں۔ ان دونوں کو دل سے تسلیم کرنے کے بعد نیکیاں
خوشی کو اور برائیاں غم کو جنم دیتی ہیں۔
بندے کی آسودگی اور آسائش کے لئے کائنات کے گوشے گوشے میں خوشی کے ذرائع
دستیاب ہیں۔انسان کا خالق بے انصاف نہیں ہے۔ جو انسان اپنے خالق کی تقسیم
پر اعتراض کرتا ہے اور اپنے پاس دستیاب سہولتوں سے مستفید نہیں ہوتا وہ
ناخوشگوار زندگی گزارتا ہے۔ لیکن جو لوگ خالق کی تقسیم پر راضی بہ رضا والا
رویہ رکھتے ہیں ، وہی لوگ مسرتوں ا ور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔
مشہور صوفی سرفراز احمد شاہ صاحب اپنے کتاب ’’ کہے فقیر‘‘ میں توکل کے
عنوان سے لکھتے ہیں، ’’جب ہم نے رب کی طرف سے ملنے والی ہر شے کو، خواہ وہ
ہماری منشاء کے مطابق ہو یا اُس کے خلاف، ہنسی خوشی تسلیم کر لیا تو پھر
کوئی غم ہی نہیں رہے گا ‘‘۔
معاف کرنے کی عادت اپنائیں ، خوشی پائیں : سب سے بڑا معاف کرنے والا ہمارا
رب ہے۔ اگر اﷲ ہماری کو تاہیوں اور لغز شوں کے بدلے میں ہمیں سزائیں دینے
لگے تو ہم نافرمان انسانوں کی شکلیں بگڑ کر کچھ سے کچھ ہو جائیں۔ یا پھر ہم
نیست و نابود ہ ہی ہو جائیں۔ لیکن وہ ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو دیکھ کر
بڑی بڑی معا فیاں دیکر ہمیں نوازتا رہتا ہے۔
اگر انسان بھی اپنے ہم نفس انسانوں کی خطاوؤں اور غلطیوں کو معاف کرتا رہے
تو اپنے لئے خوشیوں اور مسرتوں کے اسباب پیدا کر سکتا ہے۔ ہم انسان اپنے
احساسات، جذبات اور خیالات کے اظہار میں ایک دوسرے سے مختلف ہو تے ہیں۔ اگر
کسی فرد کی کوئی بات، اسکا کوئی عمل یا رد عمل میرے معیار پر پورا نہیں
اترتا، تو در گزر سے کام لیکر مجھے اسے معاف کر دینا چاہئے۔ دل میں اس کے
لئے نفرت ، کینہ یا بغض رکھ کر ہم اطمینا ن اور خوشی کا پھل نہیں چکھ سکتے۔
میری ڈانٹ ڈپٹ یا نا راضگی اس انسان کا دل توڑ کراسے پر یشانی اور دُکھ سے
دوچار کر دیگی ۔لیکن میرے اس عدم بر د اشت والے برتاؤ کی وجہ سے خود میرے ا
عصاب بھی بوجھل ہوں گے۔ یوں میرا غصہ میرے بے سکونی کا سبب بن جائے گا۔
معافی مانگنے اور معافی دینے کی عادت انسان کی زندگی آسان اور با مسرت بنا
دیتی ہے۔ لیکن اسکے برعکس رویہ اپنا نے سے ہم انسان اپنے دلوں میں نفرت کی
میل کو جنم دیکر اسکی پرورش کینہ پروری اور اس شخص سے لا تعلقی اختیار کر
کے کرتے ہیں۔اس طرح کے ماحول میں ذہن و قلب کا سکون غا رت ہو جاتا ہے۔ ہر
رات اپنے دل سے نفرت اور انتقام کے جراثیم یہ سوچ کرنکال کر سو جائیں کہ
میں اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور مجھ سے ذ یادتی کرنے والوں
کو معاف کرتا ہوں۔
گھر ہو یا دفتر، محلہ ہو یا پورا معاشرہ معاف کرنے اور معافی مانگنے کی
عادت خوشی ، اور امن کے ماحول کو جنم دیتا ہ ہے۔
سفر کریں اور خوش رہیں :
سیرو تفریح، کاروبار اور مشاہدے کے لئے کیا گیا سفر وسیلہ ظفر بن جاتا ہے۔
۔ ایک ہی جگہ طویل قیام سے انسان بوریت ، یکسانیت اور آخرکا ر یاسیت کا
شکار ہوجاتا ہے۔ تغیر اور تعمیری تبدیلی کے لئے وقتاََ فوقتاََ سفر کرتے
رہنا چاہئے۔ ماحول بدلنے سے طبیعت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ مختلف ماحول میں
مختلف چہرے اور قسم قسم کے پکوان کھانے سے بوریت اور یکسانیت سے نجات مل
جاتی ہے۔ نئی نئی جگہوں پر وزٹ کرنے سے نئے نئے آئیڈیاز بھی ملتے ہیں۔ سفر
میں انسان کچھ وقت اپنے ساتھ بھی گزار لیتا ہے۔ اپنے من کے اندر جھانکنے کا
موقع مل جاتا ہے اور انسان اپنی کمزو ریوں اور قوتوں کو نئی سرے سے دریافت
کرتا ہے۔ سفر اور سفر کے دوران قیام میں سونے جاگنے کا معمول بدل جاتا ہے
جو انسان میں مثبت تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ چھوٹے شہر سے بڑے شہر اور بڑے
شہر سے چھوٹے شہر کی طرف سفر ا ور اسی طرح دیہات سے شہر اور شہر سے دیہات
کا سفر انسان میں خوشگوار تبدیلی لا سکتا ہے۔
ذرا تصور کریں کہ اگر کراچی جیسے بڑے شہر کا بندہ جب کراچی کے حدود سے نکل
کر حیدر آباد کی طرف جاتے ہوئے ٹول پلازہ کراس کر کے چالیس پچاس کلو میٹر
کا سفر طے کرتا ہے، وہ سڑک کے دونوں جانب ایک بدلا ہوا ماحول محسوس کرتا
ہے۔ کھلی فضاء، اور ساتھ ساتھ دوڑتے درخت اسے اچھے لگتے ہیں۔ حیدرآباد سے
پہلے جام شورو کے آس پاس تو ماحول اور بھی ہرا ہرا ہو جاتا ہے۔ ٹنڈو اﷲ
یار، ٹندو آدم، ہالہ اور ، نواب شاہ ، قاضی احمد، مورو، مہراب پور، بھریا
روڈ اور آگے سکھر لاڑکانہ کے آس پاس کے علاقے بہت زرخیز اور دلکش ہیں۔
قدرتی مناظر سے بھر پور ان علاقوں کے ہرے بھرے کھیتوں ، پھلدار درختوں ،
پکڈنڈیوں اور کھلی فضاء میں کراچی کے شہری۔۔۔۔ جو بھاگ دوڑ اور مشینی طرز
زندگی کا عادی ہو چکا ہے۔۔۔۔ کے لئے خوشی اور مشاہدے کے بہت سارے نظارے
موجود ہیں۔
اسی طرح لاہور کا شہری ملتان کی طرف جاتے ہوے جب پتوکی کراس کرتا ہے تو
اوکاڑہ، ساہیوال، چیچہ وتنی، خانیوال، میاں چنوں اور ملتان کے قریب آس پاس
کا ایریا دعوت نظارہ دیتا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب وسیع و عریض سر سبز کھیت
ہیں، مختلف اقسام کے درخت ہیں، کچے دیہاتی گھر نظر آتے ہیں، اوراب پکے گھر
بھی۔ چھوٹے چھوٹے بازا ہیں اور کہیں ذر ا بڑے بازابھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مشہور مغربی مفکر برٹرنڈ رسل اپنی کتاب ’’ خوشی پر فتح‘‘ میں کہتا ہے کہ
اگر آپ ٹرین یا بس میں سفر کے دوران سو چوں میں گم ہوں تو آپ سفر کو
انجوائے نہیں کر سکتے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر آپ این ٹر ر ور ڈ (اندرون بین )
ہونے کی بجائے ایکسٹروورڈ ( بیرون بین) ہوں تو سفر سے ذیادہ سے ذیا دہ لطف
اُٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ کہنا چاہتا ہے کہ سفر کے دوران باہر کے خوب صورت
نظارے دیکھیں۔
سیکھتے رہنا اورکتاب سے تعلق:
انسان اور دیگر جانداروں میں بنیادی فرق جو لوگ مذید سیکھنا اور کتاب پڑھنا
چھوڑ دیتے ہیں وہ جلد ہی یکسانیت اور جمود کی خوراک بننے لگتے ہیں۔
اگر سیکھنے کا عمل جاری رکھا جائے تو بوریت سے بچا جا سکتا ہے۔ مکینک کا
کام ہو ، ٹیلر کا یا ذراعت کا، اگر اس میں پوری دل چسپی کے ساتھ نت نئی
اخترا عات اور ایجا دات کا استعمال سیکھا جائے ، تو نہ صرف آمدن میں اضافہ
ہوگا بلکہ اس بات کا انسان کے مزاج پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
اسی طرح کتاب سے تعلق ہو، تو انسان اَپ گریڈ بھی رہتا ہے اور ذہنی طور پر
ترو تازہ بھی۔ جو پڑھے لکھے لوگ کتاب سے ناتہ توڑ دیتے ہیں وہ ذہنی جمود کا
شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح جب انکی تخیل کی پرواز رُک جاتی ہے تو وہ اپنا
ایکسٹرا ٹا ئیم غیرتخیلی اور غیر تخلیقی کاموں میں صرف کرنے لگتے ہیں۔ ایسے
لو گ جیتے ہیں ، کھاتے ہیں، پیتے ہیں ، پیسے کماتے ہیں یوں انکا وقت کٹتا
تو ہے لیکن وہ ذہنی ارتقاء سے محروم ہو جاتے ہیں، جو انکے دلی اطمینان اور
سکون کا باعث ہے۔ لہذا اپنے من کی خوشی کے لئے کتب بینی کے لئے لازمی طور
وقت نکالنا چاہئے۔ کتب بینی اپنے من میں جھانکنے کا عمل ہے ، خود کو پہچا
ننے کا عظیم پرو سس ہے۔ اور یہ عمل تا مرگ جاری رکھا جاسکتا ہے۔
رشتے داروں سے تعلق جوڑنے والا:
دلوں کو جوڑنا ، رشتوں کو جوڑنا ایسا ارفع عمل ہے جس سے دل کو اطمینان اور
ذہن کو بے انتہا خوشی ملتی ہے۔ رشتے توڑنے والا کبھی خوش نہیں ہو سکتا۔
ایام کی گردش اپنوں کو کمزور اور غریب کر سکتی ہے ایسے میں جو رشتہ دار
نسبتاََ خو شحال ہو، اسے کمزور رشتے داروں کا خیال رکھنا چائے۔ اس عمل سے
اسکی خو شحالی میں کوئی کمی نہیں آئیگی بلکہ اضافہ ہوگا اور دل کا اطمینان
الگ سے نصیب ہو گا۔ اسی طرح اپنے قول و عمل سے دوسروں کے دلوں کو توڑنے ،
اور دکھ پہنچانے ولا بھی کبھی خوش نہیں ہو سکتا۔ ہم خونی رشتوں کے معا ملے
میں اپنی خوش اخلاقی، خندہ پیشانی، برداشت اور بہتر سلوک سے اپنے دلوں میں
اطمینان اور خوشیوں کی بہاریں لا سکتے ہیں۔
ا نسان روح اور جسم کا مرکب ہے۔ جب ہم دن رات اپنی زندگی صرف جسمانی تقاضوں
اور خواہشات کی تکمیل میں کھپاتے ہیں اور روح کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے
ہیں تو ہماری روح بے چین ہو جاتی ہے اور ہم خوشی اور اطمینان سے محروم
ہوجاتے ہیں۔ ہم اگر جسمانی خواہشات کو روحانی تقاضوں کے زیر سایہ رکھ کے
زندگی گزاریں گے تو ہی ہمیں اصلی اور دیر پا خوشی نصیب ہوگی ۔ |