بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مولاناتنویراحمداعوان
اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی راہنمائی کے لیے قرآن اور حدیث کی صورت میں
احکامات نازل فرمائے ہیں،جو انسانوں کو غلامی سے نکال کر حریت اور آزادی کا
درس دیتے ہیں ،توہمات سے نکال کر حقیقت،معقولیت اور اعتدال کی روشنی میں
لاکھڑا کردیتے ہیں ،یہ احکامات انسان کو مشکلات اور تکلفات سے چھٹکارا عطا
کرتے ہیں ،بنی نوع انسان سے متعلق جتنے بھی امور ہیں ان کے بارے میں
تعلیمات الٰہیہ غیر مبہم انداز میں موجود اور محفوظ ہیں جو معاشرے میں پائی
جانے والی توہمات اور غلط رسومات کا مکمل نفی کرتی ہیں۔
تقویمِ اسلامی کے دوسرے مہینے'' صفر المظفر'' کے حوالے سے اسلام سے قبل
بالخصوص عرب معاشرہ اور بالعمومپوری دنیا توہمات اور شرکیہ رسومات کا شکار
تھی،مشرکین اس مہینہ میں سفر کرنے سے اجتناب کرتے تھے،چونکہ حرمت کے مہینوں
کے بعد پہلا مہینہ ہونے کی وجہ سے اس میں قتل وقتال کا سلسلہ دوبارہ شروع
ہو جاتا تھااورلوگ خوف کی وجہ سے اپنے گھروں کو خالی کردیتے تھے،اس لیے اسے
نحوست والا مہینہ سمجھا جاتا تھاجب کہ برصغیر پاک و ہند میں اس کو'' تیرہ
تیزی ''کا مہینہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پہلے تیرہ دنوں میں مصیبتیں اور
بلائیں اترتی ہیں،یہ عقیدہ بھی اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ اس کے پہلے تیرہ
دن پیغمبر اسلام ﷺ کو بخار ہوا تھا جو کہ حقیقت کے بلکل خلاف ہے ۔ایک یہ
عقیدہ بھی عام ہے کہ اس ماہ کے آخری بدھ کو رسول اﷲ ﷺ نے غسل صحت کیا تھا
اس لیے اس دن کو عید جیسا منایا جائے، جب کہ سیرت طیبہ سے یہ بات معلوم
ہوتی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بیماری ہی صفر کے آخری ایام میں شروع ہوئی تھی ۔
ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ اس ماہ میں آسمان سے لولے لنگڑے جن زمین پر اترتے
ہیں، اس لیے چلتے وقت قدم بسم اﷲ پڑھ کر رکھے جائیں تاکہ ان کو ایذاء نہ
ہو،اور یہ نظریہ باطلہ بھی موجود ہے کہ اس مہینہ میں شادی،بیاہ اور خوشی کی
تقریبات،کسی کاروبار کا افتتاح یا کسی اہم کام کی ابتداء نہ کی جائے بصورت
دیگر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔بعض لوگ اس ماہ کی نحوست کو مٹی کے برتن
توڑ کر اور بعض لوہے کے" چھلے "تقسیم کرکے دور کرتے ہیں اور یہ بات بھی
مشاہدے میں عام ہے کہ لوگ اس ماہ کی نحوست سے بچاؤ کے لیے اس ماہ کی تیرہ
تاریخ کو "گھونگنیاں "یعنی چنے یا گندم ابال کر تقسیم کرتے ہیں اور بعض
علاقوں میں گندم کی روٹی کی دیسی گھی میں چوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے ۔
بلاشبہ اسلام نے روز ِاول سے ہی عقیدہ کی پاکیزگی اور توہمات کی نفی کی
تعلیم دی ہے ،حضرت ابوہریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد
مبارک ہے "ایک بیماری کا حکم الہٰی کے بغیر دوسرے کو لگ جانا ،پرندے سے
بدفالی اور نحوست لینا،الُواور ماہ صفر کو منحوس سمجھنے میں کوئی حقیقت
نہیں ہے ۔ ـ"(مشکوٰۃ ۔4579 ) نفع و نقصان،خوشی و غمی،کامیابی و
ناکامی،زندگی وموت کا اختیار صرف اﷲ کریم ہی کوہے اگر ان صفات میں کسی
دوسری چیز ،جگہ ،وقت اور شخصیت کو مؤثر مانا جائے تو یہ شرک فی الصفات
کہلاتا ہے جو کسی صورت معاف نہیں ہوتا ہے سوائے توبہ کے ۔اﷲ کریم نے کوئی
شے منحوس نہیں پیدا کی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اﷲ کے حکم کے بغیر نفع اور
نقصان دے سکتی ہے ۔دنیا میں نظر آنے والی ہر شے کا مالک اﷲ ہے اور دن و
رات،ہفتے اور مہینے ،زمین اور آسمان سب اﷲ کریم کی تخلیق ہیں اور اس نے کسی
کو منحوس نہیں بنایا۔ آپ ﷺ نے تکرار کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ'' کسی چیز کو
منحوس خیال کرنا شرک ہے،کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے،'' (مسنداحمد)قرآن
پا ک میں حالات کے بننے اور بگڑنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ''انسانوں نے
اپنے ہاتھوں جو کمائی کی اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔''(الروم۔41)نبی
کریم ﷺکی بعثت کے بعد ماہ صفر کو'' صفر المظفر''اور ''صفر الخیر ''کہا گیا
یعنی یہ کامیابیوں اور خیر و برکت کا مہینہ ہے تاکہ منحوس ہونے کا تصور و
نظریہ مسلمانوں کے دلوں سے نکل جائے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ توہمات،رسومات ،بدعات اور بے راہ روی صرف اسلامی
تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں، جب تک مسلمانوں نے کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ
ﷺ پر مشعل راہ بنایا ہوا تھا ،اسلامی تعلیمات
پر عمل کرنے میں سستی اور کاہلی سے کام نہیں لیتے تھے اس وقت جہالت،شرک اور
بدعات کے اندھیرے اپنی راہ لے چکے تھے ۔صرف اﷲ رب العزت کی ذات پر غیر
متزلزل یقین نے ہی سلف صالحین کا ہمیشہ کے لیے امر کیا ہوا ہے اورموجودہ
دور میں صرف اور صر ف قرآنی تعلیمات اور رسول اﷲ ﷺ کی پاکیزہ اسوہ ہی ہمیں
تمام غلط عقائد ،توہمات،مشکلات اور بدشگونیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔ |