تحریر: ابن نیاز، اسلام آباد
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یہ شعر اس موضوع پر کتنا موزوں ہے۔ جن بچوں
کو تعلیم کے بل بوتے پر آگے بڑھنا ہوتا ہے، اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
ہنر مند بننا ہوتا ہے انھیں ہم اگر اپنے باپ کی دولت کے بل پر سڑکوں پر
موٹر سائیکل سے ون ویلنگ کرتے دیکھیں، یا پھر سائلنسر نکال کر یوم آزادی
پاکستان 14 اگست کے دن پورے ایریا میں شور و غل مچائے رکھیں تو اس علم کا
فائدہ۔ جس قوم کے نوجوان اپنے لیڈران کے اندھے پیروکار ہوں یہ جانتے بوجھتے
کہ انھوں نے اس اک دھرتی کا بھلا کبھی نہیں کیا۔ جو ترقیاتی کام کرائے ان
میں بھی ان کا اپنا مفاد ہی سامنے رہا، تو ان نوجوانوں کو خود دار کیسے
کہیں گے؟
جو طالب علم آج بھی رٹا سسٹم کی پیروی کرتے ہوں یا پھر ان کے مدنظر صرف
سرکاری ملازمت کا حصول ہو تو وہ کیا ہنر سیکھ پائیں گے۔ انھوں نے تو صرف
پیسہ کمانے کے لیے پڑھنا ہے۔ آج کے دور میں اقبال والی خودی یا جسے آپ خود
داری کہیں بالکل ناپید ہے۔ کیا خود دار ایسے ہوتے ہیں؟ بھیک مانگنے کا نیا
طریقہ پڑھا لکھا طبقہ یہ کام کرتا ہے۔ سوشل میڈیا جو دیکھ لیں۔ یہاں بڑھکیں
تو بڑھ چڑھ کر ماری جاتی ہیں اور ان کا سارا ہنر بس ایک دوسرے کی ٹانگ
کھینچنے میں لگ جاتا ہے۔ کوئی اپنے مسلک اور فرقوں کی تبلیغ کرتا ہے تو
دوسرا اس کے خلاف فتوے لگاتے ہوئے اس کو کافر قرار دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ
اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے علم کو استعمال کریں۔ بجائے کفر کے
فتوے لگانے کے دین کو دنیا میں پھیلانے کا کام کرتے، اپنی زبان کی چرب
زبانی سے مسلم کو جہنم کی آگ سے بچانے کی راہ بتاتے۔
جب جاگیرداروں اور وڈیروں کے بچے اسکول کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ان
کو یہ زعم ہوتا ہے کہ پڑھائی صرف دنیا کو دکھانے کے لیے کرنی کیونکہ ان کے
پاس زمین جائیداد بہت ہے، ساری عمر بیٹھ کر کھائیں تو بھی کم، یہ الگ بات
ہے کہ وہ زمین جائیداد غریبوں کی قبضہ کی ہوئی ہوں گی۔ تو ا آپ ایسے بچوں
کو خود دار کہیں گے؟ جو بجائے وطن کی خدمت کرنے کے بس بیٹھ کر کھانے کے
عادی ہوں۔ ایسے عادی لوگوں کی جب زمینیں اور جائدادیں بک جاتی ہیں اور ان
کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا تو پھر یہ بے ہنر لوگ اپنی خود داری کو مزید داغ
لگا دیتے ہیں کہ ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ تو پھر یہ وطن کو کیا دیں گے؟
جو اپنے باپ کی حرام کمائی پر عیش کریں اور جب اس حرام کا حساب پوچھا جائے
تو اس پیسے کے تانے بانے اپنے آباؤ اجداد تک پہنچاتے ہیں، جو اپنی زندگی
میں صرف سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہوتے تھے جو اپنی محنت سے نہ کما سکیں
وہ خود دار نہیں ہوتے وہ اصل بھکاری ہوتے ہیں اور ان جیسے بھکاری ملک کے
معمار کبھی نہیں بن سکتے بلکہ یہ تو وہاں بھی رکاوٹ بنتے ہیں جہاں ملک کے
مستقبل کی بہتری کے لیے کوئی آگے بڑھتا ہے تو یہ اس کو روکنے کی ہر ممکن
کوشش کرتے ہیں۔ پھر جب اس طرح کی رزق جسم کا حصہ بنتی ہے تو یقیناروحانی و
جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ وہ اخلاقی طور پر بھی کمزور ہوتے ہیں اور
جسمانی طور پر بھی۔ جسمانی طور پر بظاہر بہت مضبوط ہوں گے، لیکن وہ وقتی
ہوتا ہے، جیسے ہی وقت گزرتا ہے سب کچھ ڈھے جاتا ہے۔
بہت سے طلبہ علم بھی حاصل کرتے ہیں، ہنر بھی سیکھ لیتے ہیں یعنی جسے ہم
پروفیشنل کہہ سکتے ہیں لیکن ان کو ان کے پروفیشن یا ہنر کے مطابق ان کو
روزگار فراہم نہیں ہوتا۔ تو ان کی خود داری کب تک ان کا ساتھ دے گی۔کبھی
نہیں،کہیں نہیں۔ ان طلبہ کو بگاڑنے میں اگر کچھ ہاتھ ان کا خود ہوتا ہے تو
اس سے زیادہ ہاتھ ہماری حکومت کی پالیسیوں کا ہوتا ہے۔ پاکستان بننے سے آج
تک کوئی حکمران شاید ہی اس طرح کا کوئی گزرا ہو گا جس نے طلبہ میں محنت اور
لگن کو ابھارا ہو اور اس محنت کے صلے میں ان کو مثبت نتیجہ ملا ہو۔ دعا ہے
کہ کوئی حکمران اس طرح کا اﷲ پاکستان کو عطا فرمائے صرف عوام کے بارے میں
سوچے اور یہ سوچے کہ اگر دریائے سندھ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر
گیا، تو اس کی پوچھ اس سے ہوگی۔ اگر کبھی کسی نے غربت کی وجہ سے اپنے بچے
مار دیے اور خود سوزی کر لی تو قیامت کے دن اس دنیا کی اس معمولی سی آگ کے
بدلے اس کو جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں گرا کر جلایا جائے گا ۔ کاش ایسا
حکمران نصیب ہو۔
|