تحریر: شافعہ افضل
معاشرے میں میڈیا کا کردار بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی طالبِ علم کی زندگی
میں ایک استاد کا۔ اگر استاد اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرے تو طالبِ
علم کی زندگی سنور سکتی ہے اور وہ بہتر تعلیم اور تربیت حاصل کر سکتا ہے
لیکن اگر استاد اپنے فرض سے غفلت برتے تو طلباء کی زندگی برباد ہو جاتی
ہے۔میڈیا کی دونوں اصناف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے۔ معاشرے کو باخبر کرنے کی اور سنوارنے کی۔ اگر میڈیا
اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ اور
خاص طور پر نئی نسل بے شمار فوائد حاصل نہ کر سکے۔ آج کل کے دور میں
الیٹرانک میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا اسقدر طاقت ور ہو چکا ہے کہ پرنٹ
میڈیا کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مگر پھر بھی بنیادی طور پر اس
کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کسی بھی ملک میں جہاں جمہوری نظام رائج ہو وہاں میڈیا کی حیثیت ایک ستون کی
سی ہوتی ہے۔ میڈیا کی آزادی کو جمہوریت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ مگر آزادی
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا بے جا استعمال کیا جائے یا اسے لوگوں کو گمراہ
کرنے ، چٹپٹی خبروں کے زریعے مزہ لینے یا کسی کی کردار کشی کے لیے استعمال
کیا جائے۔ اس کا اصل مقصد حقائق کو عوام کے سامنے لانا ہونا چاہیے۔ بد
قسمتی سے اور دوسرے شعبوں کی طرح میڈیا میں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں
بہت سے ایسے لوگ شامل ہو گئے ہیں جن کا مقصد سستی شہرت حاصل کرنا اور لوگوں
کو گمراہ کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے میڈیا جیسی طاقتور صنف بد نام ہو کر رہ گئی
ہے۔
کسی بھی چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ میڈیا کے معاملے میں بھی یہی
ہے۔ ٹیلی وژن پر آج کل جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ کسی بھی طرح ہمارے
معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ چاہے وہ ڈرامے ہوں ، ٹاک شوز ، مارننگ شوز ہوں
یا دوسرے پروگرام۔ ان میں معاشرے کے کچھ خاص طبقوں کو اجاگر کیا جاتا ہے جو
کہ صحیح نہیں ہے۔ وہ اگر چاہیں تو اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دے سکتے ہیں
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ شوز میں جس قسم کی
ایکٹیویٹیز دکھائی جاتی ہیں وہ مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ، ساتھ اپنے اندر
ہتک کا پہلو بھی لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ ٹی وی کے معلوماتی
پروگرام نوجوان نسل کے لیے دلچسپی اور معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوا کرتے
تھے۔ مگر اب تو دور، دور تک ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اس کے بر عکس اس
قسم کے تمام پروگرام محض ناچ گانے اور لچر پن پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہی حال خبر نامے کا بھی ہے۔دنیا کی معلومات فراہم کرنے کے بجائے یہ عوام
کے اندر اشتعال ، فرسٹریشن اور سسپنس پیدا کرنے کا کام کر رہا ہے جو کہ
افسوس ناک ہے۔ سوشل میڈیا کی طرف آئیں تو وہ اس حد تک طاقت ور اور ہم سب کی
زندگیوں پر اثر انداز ہو چکا ہے کہ اس نے ہماری زندگیوں میں بہت ساری چیزوں
کی جگہ لے کر اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے۔ اب ہماری زندگیوں میں رشتوں ،
لوگوں اور معاشرتی اقدار کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم رشتے نبھاتے بھی
ہیں تو فیس بک ، ٹوئٹر یا واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے۔ پہلے خوشی یا غم کے
موقعے پر لوگ ایک دوسرے کے گھر جایا کرتے تھے تاکہ ان کے خاص موقعوں پر ان
کے ساتھ ہوں مگر اب ہم فیس بک پر اسٹیٹس ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ
ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ فاتحہ خوانی تک سوشل میڈیا پر ہی ہو جاتی ہے۔
اگر اس کو مثبت طور پر دیکھا جائے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم باخبر رہتے
ہیں اور دور رہنے والے لوگ بھی ہمارے غم اور خوشیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔
دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ سمٹ گئی ہے۔ انٹر نیٹ کے جہاں نقصانات ہیں
وہاں بہت سے فوائد بھی ہیں۔ ہمیں کسی بھی موضوع پر بہت آسانی سے معلومات
حاصل ہو جاتی ہیں۔ فیس بک کے زریعے بہت سے اچھے لوگوں سے رابطہ رہتا ہے۔
بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔بس ہمیں اپنی حدود کا اندازہ ہونا چاہیے
اور صحیح اور غلط کا فرق کرنا آنا چاہیے اور یہی چیز ہمیں اپنی نوجوان نسل
کو بھی سمجھانی ہے ان میں منتقل کرنی ہے۔ اگر انھیں صحیح اور غلط کا پتہ ہو
تو وہ کبھی بھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوں گے۔ یہ کام مشکل تو ضرور ہے
مگر ناممکن نہیں ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
کوئی بھی چیز اس وقت تک بری نہیں ہوتی جب تک اس کا بے جا یا منفی استعمال
نہیں کیا جائے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے تب ہی
میڈیا معاشرے میں اپنا اصل کردار ادا کر سکے گا۔
سوشل میڈیا کو بھی اگر تعلیمی اور اصلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو
بہت سے لوگ اس سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ
ہم اصلاح کرنا تو چاہتے ہیں مگر دوسروں کی اپنی نہیں۔ جو اقوال یا اچھی
باتیں ہم سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں کبھی خود ان پر عمل کرنے کے بارے میں
نہیں سوچتے۔ کیوں کہ ہم خود کو بالکل پرفیکٹ سمجھتے ہیں۔ اگر ہر شخص دوسروں
کو ان کی غلطیاں اور کمزوریاں گنوانے کے بجائے اپنی کمزوریاں دور کرنے کی
کوشش کرے تو معاشرے میں کوئی مسئلہ باقی ہی نہ رہے۔
بعض لوگ سوشل میڈیا کو ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سوشل
میڈیا کے زریعے لوگوں سے تعلقات بڑھانا اپنا اوّلین مقصد بنا لیتے ہیں اور
اپنی حدود بھی بھول جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، ایسے لوگ بھی ہیں جو سوشل
میڈیا کو علمی اور ادبی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو
آگے بڑھنے کے مواقع فرہم کر رہے ہیں جن میں صلاحیتیں موجود تھیں مگر انھیں
ان کو منوانے کے لیے کسی پلیٹ فارم یا فورم کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے بہت سے
قابل لوگ متعارف ہوئے ہیں اور ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں ہیں۔ سوشل
میڈیا کی وجہ سے لوگوں کے اندر اعتماد پیدا ہوا ہے ان کو اپنی رائے دوسروں
تک پہنچانے کا موقع ملا ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر زیادہ ہے
کہ آپ کی بات منٹوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ لہذاا
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اچھی بات کریں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ یہ
ہمارا معاشرتی فریضہ بھی ہے اور وقت کا تقاضہ بھی۔
|