فتنہ خوارج : بنیادی عقائد اور پہچان

اسلام کے ابتدائی دور میں ہی کچھ فتنے اٹھے جنہوں نے اسلام کی شمع کو گل کرنے کی کوشش کی اور اس میں تفرقے کی بنیاد ڈالی، یوں تو متعدد گروہ وقتاً فوقتاً اٹھے اور اپنی موت آپ مر گئے لیکن کچھ گروہ ان میں قابل ذکر ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ابتدائی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا بلکہ ایسے گروہ آج بھی ہماری صفوں میں موجود ہیں اور اس وقت بھی مسلمانوں میں تفرقہ و فساد کی کوششوں میں مشغول ہیں۔ ایسے فرقوں میں سب سے اہم اور بڑا فرقہ ’’ خوارج ‘‘ کا ہے۔ خارجی عقائد کے ماننے والوں نے نہ صرف ابتدائی دور میں اسلام کے خلاف سازشیں کیں، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر لعن طعن کا دروازہ کھولا بلکہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں ضرورت ہے کہ ان کو پہچانا جائے اور ان کی چالوں سے بچا جائے۔ ہم یہاں فتنہ خوارج کے بارے میں مختصراً بیان کریں گے تاکہ قارئین ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور رہبر کے روپ میں کہیں رہزنوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اس لئے نقل کفر کفر نہ باشد کے تحت ہم یہاں ان کے عقائد بیان کریں گے۔ معروف اسکالر اور گزشتہ صدی کے عظیم مفکر سید ابو الاعلیٰ مودودی فتنہ خوارج کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’یہ گروہ جنگ صفین کے زمانہ میں اس وقت پیدا ہوا جب حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ اپنے اختلافات کا تصفیہ کرنے کے لئے دو آدمیوں کو حَکَم مقرر کرنے پر راضی ہوگئے۔ اُس وقت تک تو یہ لوگ حضرت علی ؓ کے حامیوں میں سے تھے۔ مگر تحکیم پر اچانک یہ لوگ بگڑ گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے بجائے انسانوں کو فیصلہ کرنے والا مان کر آپ کافر ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد یہ اپنے نظریات میں دور سے دور نکلتے چلے گئے اور چونکہ ان کے مزاج میں انتہائی تشدد تھا، نیز یہ اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والوں کے خلاف جنگ اور غیر عادل حکومت کے خلاف خروج( یعنی مسلح بغاوت) کے قائل تھے، اس لئے انہوں نے ایک طویل مدت تک کشت و خون کا سلسلہ برپا رکھا یہاں تک کہ عباسی دور میں ان کی قوت کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔ ان کا بھی سب سے زیادہ زور عراق میں تھا اور بصرہ وکوفہ کے درمیان البطائج کے علاقے میں ان کے بڑے بڑے اڈے قائم تھے۔ ان کے نظریات کا خلاصہ یہ ہے۔

۱۔ وہ حضرت ابوبکر ؓ و عمر ؓ کو خلافت کو درست مانتے تھے مگر حضرت عثمان ؓ ان کے نزدیک اپنی خلافت کے آخر زمانہ میں عدل اور حق سے منحرف ہوگئے تھے اور قتل یا عزل کے مستحق تھے۔ حضرت علی ؓ نے بھی جب غیر اللہ کو حکم بنایا تو گناہ کبیر کا ارتکاب کیا۔ نیز دونوں حَکَم (یعنی حضرت عمرو ؓ بن العاص اور حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری) اور ان کو حَکَم بنانے والے (یعنی حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ) اور ان کی تحکیم پر راضی ہونے والے ( یعنی حضرت علی ؓ و حضرت معاویہ ؓ کے سب ساتھی) گناہ گار تھے۔ جنگ جمل میں شریک ہونے والے سب لوگ بھی حضرت طلحہ ؓ،حضرت زبیر ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ام المومنین سمیت گناہ عظیم کے مرتکب تھے۔ (واضح رہے کہ یہ خوارج کے عقائد ہیں۔ اہل سنت والجماعت سمیت کسی بھی مسلمان گروہ کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ سلیم اللہ )

۲۔ گناہ ان کے نزدیک کفر کا ہم معنی تھے اور ہر مرتکب کبیرہ کو (اگر وہ توبہ و رجوع نہ کرے) وہ کافر قرار دیتے تھے اس لئے اوپر جن بزرگوں کا ذکر ہوا ان سب کی انہوں نے علانیہ تکفیر کی، بلکہ ان پر لعنت کرنے اور انہیں گالیاں دینے سے بھی وہ نہ چوکتے تھے۔ علاوہ بریں عام مسلمانوں کو بھی انہوں نے کافر ٹہرایا، کیوں کہ اول تو وہ گناہوں سے پاک نہیں تھے ۔دوسرے وہ مذکورہ بالا اصحاب کو نہ صرف مومن بلکہ اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث سے احکام شرعیہ ثابت کرتے ہیں۔

۳۔ خلافت کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ وہ صرف مسلمانوں کے آزادانہ انتخاب سے ہی منعقد ہوسکتی ہے۔

۴۔ وہ (یعنی خوارج ) یہ بات نہیں مانتے تھے کہ خلیفہ کا قریشی ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے تھے کہ قریشی یا غیر قریشی، جس صالح آدمی کو بھی مسلمان منتخب کریں وہ جائز خلیفہ ہوگا۔

۵۔ ان کا خیال تھا کہ خلیفہ جب تک عدل اور صلاح کے طریقے پر قائم رہے تو اس کی اطاعت واجب ہے،مگر جب وہ اس طریقے سے ہٹ جائے تو پھر اس سے لڑنا اور اس کو معزول یا قتل کردینا بھی واجب ہے۔

۶۔ قانونِ اسلام کے بنیادی مآخذ میں سے وہ قرآن کو تو مانتے تھے، مگر حدیث اور اجماع دونوں کے معاملے میں ان کا مسلک عام مسلمانوں سے مختلف تھا۔ ان میں سے ایک بڑا گروہ ( جو النّجدات کہلاتا تھا) اس بات کا قائل تھا کہ خلافت (یعنی ریاست ) کا قیام سرے سے غیر ضروری ہے۔ مسلمانوں کو خود ہی حق کے مطابق اجتماعی طور ہر عمل کرنا چاہئے۔ تاہم اگر وہ خلیفہ منتخب کرنے کی حاجت محسوس کریں تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔

ان کا سب سے بڑا گروہ (ازارِقہ) اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک کہتا تھا۔ اس کا مسلک یہ تھا کہ خوارج کو اپنے سوا کسی کی اذان پر نماز کے لئے جانا روا نہیں، نہ کسی دوسرے کا ذبیحہ حلال ہے، نہ کسی دوسرے سے شادی بیاہ کا تعلق جائز ہے، نہ ہی خارجی و غیر خارجی ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں۔ یہ دوسرے تمام مسلمانوں کے خلاف جہاد کو فرض عین سمجھتے تھے، اُن کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا اور ان کے مال لوٹ لینا مباح جانتے تھے اور خود اپنے گروہ کے اُن لوگوں کو بھی کافر قرار دیتے تھے جو اس جہاد کے لئے نہ نکلیں۔ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ خیانت کو حلال سمجھتے تھے۔ ان کے تشدد کا حال یہ تھا کہ غیر مسلموں کو ان کے ہاں مسلمانوں کی نسبت زیادہ امان نصیب تھی۔ (خلافت و ملوکیت از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی)

قارئین کرام ہم اس فورم پر نہ تو کسی کو کافر قرار دے رہے ہیں اور نہ ہی کسی کے اوپر خارجی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں بلکہ نقلِ کفر کفر نہ باشد کے مصداق ہم نے بحالت مجبوری انکے یہ عقائد یہاں بیان کئے ہیں تاکہ عوام کو ان کے بارے میں آگاہی دی جاسکے اور ان کے عقائد کی روشنی میں ان کو پہچاننا آسان ہوجائے، بالخصوص اگر اوپر بیان کیے گئے ان کے عقائد میں سے پہلے، دوسرے، اور چھٹے عقیدے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس گروہ کے ارکان کو جاننے میں بہت آسانی ہوجائے گی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455164 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More