دہشت گردی اور یونیورسٹیاں

جیو نیوز کے نمائندہ طلحہ ہاشمی کے مطابق کراچی میں دہشتگردی کا سلسلہ سن 2000 کے اوائل سے شروع ہوا۔ پہلے امریکن قونصلیٹ اور پھر شیرٹن بم دھماکے کیے گئے۔
انصار الشریعہ کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم کی شناخت ہوگئی، ڈی جی رینجرز سندھ
2002 میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا اور پھر قتل تھا۔ اس کا مرکزی دہشت گرد شیخ عمر لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیاتھا۔ اسی نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اسی نے ڈینیل پرل کو موت کے گھاٹ اتارا۔
2004 میں کور کمانڈر کراچی کے قافلے پر کالعدم جند اللہ کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور اس تنظیم کے تقریباً تمام ہی دہشت گرد کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے جب کہ ان کا تعلق ایک مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم سے بھی رہ چکا تھا۔
کراچی میں ہی 2005 میں القاعدہ کا آئی ٹی ایکسپرٹ نعیم صبور خان عرف ابو طلحہ پکڑا گیا، اس پر امریکی حکومت نے 50لاکھ ڈالر انعام رکھا تھا۔
انصارالشریعہ کے سربراہ کا انتہائی مطلوب دہشتگرد عبداللہ بلوچ سے رابطے کا اعتراف
لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عظیم شیخ کا تعلق حیدر آباد سے تھا، وہ جسٹس مقبول باقر کے گھر پر حملے سمیت دیگر کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، وہ اپنے ساتھی فرحان کے ہمراہ 2013 میں گرفتار ہوا اور اِس وقت جیل میں ہے ،وہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹرانکس انجینئر ہے۔
سانحہ صفورہ میں ملوث دہشت گرد سعد عزیز اور علی رحمان عرف ٹونا بھی اعلیٰ یافتہ تھے۔ یہ دونوں داعش کے ساتھ منسلک رہے اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں 2015 میں پکڑے گئے جب کہ گزشتہ سال منگھوپیر میں مقابلے کے بعد مارا گیا داعش کا دہشت گرد کامران عرف گجر بھی گریجویٹ تھا۔
اس سال گلستان جوہر میں ڈی ایس پی ٹریفک فیض محمد شگری پر حملے میں ملوث دہشتگرد حذیفہ آئی ٹی ایکسپرٹ تھا۔ وہ منگھوپیر میں حساس ادارے اور پولیس سے مقابلے میں مارا گیا جب کہ اس کا ایک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ساتھی اس وقت افغانستان میں ہے۔
خواجہ اظہار پر حملہ: ہلاک دہشتگرد کے پی ایچ ڈی ہونے کا انکشاف
رواں سال سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخواجہ اظہار الحسن، ریٹائرڈ لیفٹنٹ کرنل طاہر ناگی، ڈی ایس پی ٹریفک کریم آباد، سائٹ، بہادر آباد میں پولیس اہلکاروں اور گلستان جوہر میں پولیس فاونڈیشن کے گارڈ کے قتل میں ملوث انصار الشریعہ کے دہشت گرد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
اس کے سربراہ سے لے کر ٹارگٹ کلرز تک تمام ہی برطانیہ، این ای ڈی ، اور کراچی یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے کے علاوہ ٹیکنالوجی کے بھی ماہر ہیں۔ القاعدہ، تحریک طالبان، جنداللہ، اور لشکر جھنگوی سے لے کراب نئی ابھرنے والی انصار الشریعہ تک، ایسی کئی کالعدم تنظیمیں ہیں جن کے ہائی پروفائل دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔
میڈیا کے مطابق دینی مدارس کے علاوہ ہماری یونیورسٹیوں میں بھی داعش اور طالبان کے عناصر داخل ہوچکے ہیں اور ہمارے قیمتی طالب علموں کو دہشت گردی میں ملوث کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
دہشت گردوں سے بچاو کے لئے ان کی چیدہ چیدہ علامات ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں وطن عزیز کی سالمیت اور ملت پاکستان کے تحفظ اور دفاع کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو دہشت گروں کی شناخت کروائیں تاکہ ہماری نوجوان نسل ان کے فریب اور دھوکے میں نہ آئے۔
۱۔مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کے عقائد میں حضورِ اکرم ﷺ کے صحابہ کرامؓ اور اولیاءِ کرام ؒ کے مقدس مزارات نعوذباللہ شرک کے مراکز ہیں لہذا تمام مزارات کو منہدم کرنا واجب ہے۔اس سلسلے میں بری امام سے لے کر عبداللہ شاہ غازی اور داتا دربار سے لے کر جنّت البقیع تک یہ اپنی مذموم کاروائیاں کرچکے ہیں۔
۲۔مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کے نزدیک بھی سنّی اور شیعہ دونوں ہی کافر اور مشرک ہیں اور دونوں کا خون بہانا جنّت میں جانے کا باعث ہے۔اس بات کاثبوت ان کے فتووں سے بھی ملتاہے اوران کے خودکش حملہ آوروں کے بیانات سے بھی۔
۳۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دعامانگنا حتّیٰ کہ مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھنا بھی شرک اور کفر ہے۔
۴۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ختمِ نبوّت کی توہین ان کا بھی مسّلمہ عقیدہ ہے ۔ان کے مطابق حضرت محمد رسول اللہﷺ بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور جو شخص ان کی فضیلت کا قائل ہے وہ بھی مشرک اور کافر ہے۔[1]

۵۔بالکل مرزائیوں اور خارجیوں کی طرح ان کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ یزید حق پر تھا اور نعوذباللہ حضرت حسین۔۔۔
۶۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح اپنے اکابرین کو نعوذباللہ حضور اکرمﷺ اور ان کے اصحاب سے افضل جانتے ہیں۔[2]
۷۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں سے فطری طور پر کینہ اور بغض رکھتے ہیں اور انہیں پاکستان کا امن و امان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹنے سے لے کر خود کش حملوں تک سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرتے ہیں۔
۸۔ مرزائیوں اور خوارج کی ماننداللہ ہی اللہ اور اسلام ہی اسلام جیسی چکنی چپڑی باتیں کرکے پاکستان میں مرزائیوں کی طرح مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاکر ان کی مساجد پر قبضہ کرنا ان کی سیاست کا عملی حصّہ ہے۔
۹۔مرزائیوں کی مانندان کے ہاں اولیاء کرام کی کرامات بدعات اور خرافات ہیں جبکہ اپنے اکابرین کے ہاتھوں سے معجزات رونما ہونے کے بھی معتقد ہیں۔[3]
۱۰۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح صرف یہ خودمسلمان ہیں،ان کے سوا باقی سب گمراہ ہیں۔ اس لئے جہاد بھی صرف یہی کرسکتے ہیں۔
۱۱۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح خود کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر عالمِ اسلام کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔[4]
۱۲۔ ان کے فتووں اور سوچ کے مطابق “پاکستان ،کافرستان ہے ،پاک فوج ناپاک فوج ہےاورقائداعظم ،کافرِ اعظم ۔
۱۳۔ خوارج کی طرح مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریّت کو بھڑکاکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا ان کا معمول ہے۔جیساکہ ایک طرف تو انہوں نے “تحفظ ناموس صحابہ” کا ڈھونگ رچاکرسادہ لوح مسلمانوں کو مشتعل کیا اور دوسری طرف جنّت البقیع میں صحابہ کرام کے مزرات کو مکمل طور پر منہدم کردیا۔
اسی طر ح انہوں نے ایک طرف تو “تحفّظ ختمِ نبوّت”کے نام پر گلے پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کی توجہ حاصل کی اور پھر سادہ لوح لوگوں میں اس عقیدے کی تبلیغ کی کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ بھی ہمارے جیسے بشر اور آدمی ہیں۔
۱۴۔یہ مرزائیوں کی ماننددنیا کے ہر کونے اور ہر گوشے میں ہر اس شخص ،تنظیم اور تحریک کے خلاف ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ہے اور ہر اس ٹولے کے ساتھ ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کا حامی ہے۔یہ حماس سمیت فلسطینی عوام کے خلاف ہیں اور اسرائیل کے ظالم حکمرانوں کےساتھ ہیں۔اسی طرح افغانستان کی عوامی آواز کے خلاف ہیں جبکہ شدّت پسند ٹولوں کے ساتھ ہیں۔
یہ جس طرح عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں سے گھبراتے ہیں اسی طرح یوم القدس کی ریلیوں سے بھی سراسیمہ ہوجاتے ہیں چونکہ ان جلوسوں اور ریلیوں سے ایک طرف تو لوگوں میں عشقِ رسول ﷺ موجزن ہوتاہے اور دوسری طرف ملّت اسلامیہ بیدار ہوتی ہے۔
قادیانیوں کی طرح یہ نہیں چاہتے کہ ملّت اسلامیہ بیدار ہوکر آمریّت اور ڈکٹیٹر شپ کی ذلت سے نجات حاصل کرے۔
اب ہم اپنے قارئین سے انصاف کے نام پر بھیک مانگتے ہیں اور انسانیّت کے نام پر سوال کرتے ہیں کہ آپ چاہے سنّی ہوں یا شیعہ ان لوگوں کی سازشوں اور چالوں سے ہوشیاررہیں۔ آپ عراق،بحرین،یمن،لیبیا،تونس اور مصر سمیت پوری دنیامیں دیکھ لیں یہ آج بھی مظلوم مسلمانوں کے خلاف ہر ڈکٹیٹر اور آمر کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
۱۵۔خلافت عثمانیہ سے غداری ۔۔خلافت عثمانیہ یعنی جب اسلامی دنیامیں ترکوں نے فقہ حنفی کے تحت سلطنت عثمانیہ قائم کر رکھی تھی اورخلافت عثمانیہ سامراج کی آنکھوں میں کانٹابن کر کھٹک رہی تھی تو ایسے میں انہوں نے خلافتِ عثمانیہ سےغداری کی اورخلافت پرکاری ضرب لگائی ۔
عراق میں جب تک صدام رہا یہ اس کی ناک کے بال بنے رہے۔صدام کی آمریّت کے خلاف انہوں نے کبھی اعلان جہاد نہیں کیا اور جب عوام نے سیاسی فعالیّت شروع کی تویہ عوام کے خلاف میدان میں اتر آئے۔
لیبیامیں قذافی جیسا آمرایک لمبے عرصے تک برسرِ اقتدار رہا ،اس کی آمریّت کو یہ خلافت اسلامیہ کہتے رہے ،ان کے مفتیوں نے کبھی قذافی کی آمریّت کے خلاف طبلِ جہاد نہیں بجایا لیکن جب وہاں کی عوام اپنے حقوق کے لئے اٹھی تو انہوں نے قذافی کی مدد کے لئےکمر کس لی۔

مصر میں کتنے ہی عرصے سے حسن مبارک جیسا مکروہ ڈکٹیٹر برسرِ اقتدار رہالیکن انہوں نے کبھی اس کے خلاف اعلانِ جہاد نہیں کیا لیکن جب وہاں کی مسلمان عوام ڈکٹیٹر کے خلاف اٹھی تو یہ میدان میں اتر آئے۔

تونس کے مسلمان کتنی ہی مظلومیّت کے دور سے گزرے لیکن کبھی انہوں نے اپنی زبان پر تونس کے ڈکٹیٹر کے خلاف جہاد کا لفظ نہیں لایا۔

افغانستان میں اگر امریکہ اورسعودی عرب کی ڈکٹیٹر شپ کے زیرِ سایہ طالبانی آمریّت کی بات کی جائے تو یہ بغلیں بجانے لگتے ہیں،ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں لیکن اگر افغانستان میں ایک آزادعوامی اور اسلامی حکومت کی بات ہو تو ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ایران میں جب تک شہنشاہِ ایران برسرِ اقتدار رہا انہوں نے کبھی اس کے خلاف اعلان جہاد نہیں کیا لیکن جب وہاں اسلامی انقلاب آیا تو انہوں نےبانی انقلاب کے خلاف کفر کے فتوی بھی دیے اور اسلامی انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کی کھل کر مدد کی اور آج تک کررہے ہیں۔
چلیں اب شام اور سعودی عرب کا ذکر کرتے ہیں،یہ نام نہاد مجاہدین شام کے شاہی خاندان کے خلاف ہیں اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کی محبت ان کی توحیدمیں شامل ہے۔ شام کے شاہی خاندان سے ان کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا شاہی خاندان اسرائیل اور امریکہ کا کٹر دشمن ہےلیکن چونکہ سعودی عرب کا شاہی خاندان امریکہ ،اسرائیل اور برطانیہ کا مکمل طور پر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے اس لئےسعودی شاہی خاندان کی محبّت ان کے نزدیک عین توحید پرستی اور خالص ایمان ہے۔
اس کے بعداب آپ پاکستان کو ہی لیجئے جب تک قائداعظم ؒ نے برطانوی سامراج کے خلاف پرچمِ جہاد بلند نہیں کیا تھا انہوں نے بھی قائداعظم کو کافرِ اعظم نہیں کہا تھا۔جب قائداعظم مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لئے سرگرمِ عمل ہوئے تو انہوں نے بھی قائداعظم کے خلاف ہرزہ سارئی شروع کردی۔



ن
 

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74647 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.