31 اکتوبر 2018 بدھ کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی
سربراہی چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے اور ان کے ہمراہ پینل میں جسٹس آصف
سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے نے آسیہ مسیح جو توہین
رسالت کی پاداش میں 295 سی کے تحت پہلے نومبر 2010 میں ٹرائل کورٹ سے سزائے
موت کی حامل ٹھہری بعد میں لاہور ہائی کورٹ میں اکتوبر 2014 میں اپیل کرنے
کے بعد بھی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور تب سے آسیہ مسیح جیل
میں قید رہی -
سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کے نتیجے میں کل بدھ کے روز حتمی فیصلے کی
رو سے جو 57 صفحات پر مشتمل تھا اور جسے چیف جسٹس نے خود تحریر کیا آسیہ
مسیح کو استغاثہ کی طرف سے پیش کردہ دلائل اور گواہوں کے بیانات میں تضاد
کی بدولت رہا کر دیا گیا جس کے نتیجے میں کل سے تمام پاکستان میں حالات
کافی کشیدگی اختیار کر گئے ہیں تمام تعلیمی ادارے اور کافی علاقوں میں
ہڑتالیں اور مظہرے ہو رہے ہیں جس میں مزہبی جماعتوں کے ساتھ کافی تعداد میں
دوسرے لوگ بھی شامل ہیں-
چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے اپنا فیصلہ تحریر کرنا شروٰٰع کیا اور بارہا ذکر
کیا کہ جو کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہو گا اس کی سزا سزائے موت ہی ہے اور
کافی قرآنی آیات اور احادیث کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے اشعار کو بھی شامل
کیا اور ماضی میں باچا خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام میں ایک
طالب علم کو سب کے سامنے یونیورسٹی کے احاطہ میں بے دردی سے قتل کر دیا
جاتا ہے جبکہ بعد میں جب کیس کی پیروی کی گئی تو اس میں پتہ چلا کہ مشال بے
قصور تھا اس سے ذاتی رنجش کی مد میں توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے مار
دیا گیا کا حوالہ بھی دیا -
چیف جسٹس اور شریک باقی دونوں ججوں کے مطابق استغاثہ اپیل گزار کے خلاف
اپنا مقدمہ بلا شک و شبہہ ثابت کرنے میں ناکام رہی اور گواہوں کے بیانات
میں تضاد اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے آسیہ مسیح کو بری کر دیا-
ایک عورت جو پچھلے 8 سالوں سے اتنے سنگین گناہ میں قید و بند کی صوبتیں
جھیلتی رہی ہے اگر وہ بے قصور تھی تو کیوں ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ
نے اور پولیس کے تفتیشی افسر نے اسے مجرم اور اس گناہ کا حامل ٹہرایا اور
اگر اس سے واقع ہی توہین رسالت کا ناقابل معافی گناہ سرزد ہوا تو کیوں کر
سپریم کورٹ نے اس باعزت بری کر دیا-
اب ذمہ داری کا تعین کون کرے گا اگر آسیہ بی بی گنہار نہیں تھی تو مدعی
عینی شاہدین گواہوان تفتیشی پولیس افسر ٹرائل اور لاہور ہائی کورٹ کے
متعلقہ جج صاحبان ان کی کیا سزا بنتی ہے اور ان کا احتساب اور اس معاملے
میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کون کرے گا-
ایک اتنا حساس مسئلہ کہ جس کے معاملے میں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر
سکتا اور ان کے جزبات انتہائی مجروح ہوتے ہیں جب آقا دو جہاں نبی آخر و
زمانﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کرے-
میری چیف جسٹس اور متٰعلقہ جج صاحبان کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان سے
اپیل ہے کہ معاملے کی ازسرنو اور حقائق پر مبنی جانچ پڑتال کروائیں اور
گنہاگاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے نہیں تو ملک پاکستان کے حالات جو
کہ پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں اور بھی بدترین صورت اختیار کر سکتے ہیں جو
کہ ایک محب وطن پاکستانی کے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو- |