دین اسلام کی بنیادی اساس اللہ و رسول ﷺ کے احکامات پر
رضامندی، اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اللہ و رسول ﷺ کا حکم سنتے ہی اپنی گردن
جھکا دینا، سر تسلیم خم کر دینا دین کی بنیادی اساس ہے۔ اسلام تسلیم سے ہے
یعنی قرآن و سنت، اللہ و رسول ﷺ کے احکام کو تہہ دل سے تسلیم کرنا، ان کے
ہرامر، ہر حکم اورہر فیصلے پر راضی ہونا اور کوئی دوسری رائے نہ رکھنا
اسلام ہے۔ دین اسلام میں احکام شریعت کو ترجیح حاصل ہے۔ جو شخص اللہ و رسول
ﷺکے حکم، دین(نظامِ حیات) کو تسلیم نہیں کرتا اور کوئی دوسری رائے رکھتا ہے
وہ منکر و کافر ہے۔ ہر وہ شخص، ہر وہ جماعت ،گروہ اور تنظیم جس کا مرجع اول
وآخر صرف کتاب اللہ وسنت رسول ﷺ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ اللہ کا
منکر، رسول اللہ ﷺ اوردین کا منکرہے اور کافر ہے۔ ہر وہ نظام کفر ہے جو
اسلامی نظام کو چھوڑ کر اپنایا جائے۔ ہر وہ اصول کفر ہے، ہر وہ ضابطہ کفر
ہے جو اسلامی ضابطہ حیات کو چھوڑ کر اپنایا جائے۔ہروہ معاشرہ کافر و منکر
معاشرہ کو جو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند نہیں۔ ہر وہ امر، ہر وہ حکم کفر
ہے جو کتاب و سنت سے مطابقت و موافقت نہ رکھتا ہو۔
عام طور پر ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کلمہ نہیں پڑھتا اور اس کا دل سے اقرار
نہیں کرتا وہ کافر ہے گویا ہم اور ہمارا معاشرہ کلمہ کے اقراری کو مسلمان
سمجھتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بھی ہوں ہماری نظر میں وہ مسلمان ہے۔ یہاں
ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کلمہ گو تو مسلمان ہو گیااور جو کلمہ کا اقراری ہو
کر احکام کو نظر انداز کرے، حکم سے روگردانی کرے، نظر پھیرے، جی کترائے اور
عمل سے گریز کرے اسے کیا کہیں گے؟ جو اللہ و رسول ﷺ کا ماننے والا ہو کر
اللہ و رسول ﷺ کے احکامات کو ماننے والا نہ ہو، یا ان کے مطابقت عمل کرنے
والا نہ ہو اسے کیا کہیں گے؟ جو قرآن و حدیث کے فرامین سن کر پس پشت پھینک
دیں انہیں کیا کہیں گے؟ جو معاشرہ قرآن و سنت کا عامل ہو کر ان کے مطابق
احکام جاری نہ کرے اس معاشرہ کو کیا کہیں گے؟
ایک منٹ کے لئے علماء کے کافر سے متعلق معنی اور تعریف کو سائیڈ پر رکھ کر
آؤ! ذرا ہم کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ کریم نے کافر کی
تعریف کیا کی ہے؟ کسے کافر کہا ہے؟ کسے ظالم و جابر قرار دیا ہے؟ کسے فاسق
و فجاجر کا خطاب دیا ہے؟
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اِنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ
الْکَافِرُوْنَo
’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی
کافر ہیں۔‘‘
( سورۃ المائدہ 5: 44)
یہ صریح، واضح اور کھلا حکم ہے، کوئی متشابہات میں ڈھکی چھپی بات نہیں ہے
کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ یہ قرآن کا کھلا اور واشگاف الفاظ میں نوٹس ہے
۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ یا اپنے رسول ﷺ کے ذریعہ سے بتائے
ہوئے احکام میں سے کسی ایک کا ترک کرنا بھی کفر ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا
ہمارے حکمران، ہمارے اولی الامر اللہ رب العزت کے نازل کردہ احکام کے مطابق
حکم دے رہے ہیں؟کیا ہمارے اولی الامر کی طرف سے اللہ و رسول ﷺ کے احکامات
کی پیروی و اتباع کرنے اور کروانے کا کوئی پلان، کوئی اہتمام ، کوئی کوشش
جو سرکاری سطح پر کی گئی ہو؟ کیا ہماری عدالتیں اللہ ور سول ﷺ کی بنائی گئی
شریعت، قوانین اور اصولوں کے مطابق حکم دے رہی ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں قرآن
وسنت کے مطابق عدل و انصاف فیصلہ سنا رہی ہیں؟کیا ہمارے محکمے، ہمارے ادارے
قرآن و سنت اور شریعت مطہرہ کے اصولوں کے مطابق چل رہے ہیں یا ان کی تنفیذ
کی تگ و دو میں ہیں؟ ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا
ہے۔ کوئی حکومت، کوئی عدالت، کوئی محکمہ، کوئی ادارہ دین کی تنفیذ میں
سنجیدہ نہیں ہے۔ صرف نام کے اسلامی ہونے کا لبادہ اڑے ہوئے ہیں، اندر اسلام
والی کوئی بات نہیں۔ اب قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے تو واضح حکم صادر
فرما دیا کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں۔
اس آیت مبارکہ کی مد نظر رکھتے ہوئے ہم اور ہمارا مجموعی معاشرہ خود اپنا
مشاہدہ و محاسبہ کر لے وہ کہاں کھڑے ہیں؟کہیں یہ آیت مبارکہ ان کے کفر پر
دلیل تو ثابت نہیں ہو رہی؟
اب آگے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ظالم کی بھی تعریف فرما دی کہ حقیقی
ظالم کون ہے اور ظلم کیا ہوتا ہے؟ دنیا چاہے جسے ظالم کہتی پھرے،مگر قرآن
کی نظر میں ظالم کون ہے مندرجہ ذیل آیت مبارکہ کھلے الفاظ میں بیان کر رہی
ہے۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اِنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ
الظَّالِمُوْنَo
’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی
ظالم ہیں۔‘‘
( سورۃ المائدہ 5: 45)
اب ذرا اور آگے بڑھیں، اللہ جلاشانہ نے آگے فاسق و فاجر کی بھی تعریف و
نشاندہی فرما دی کہ فاسق کون ہوتا ہے؟ فاسق و فاجر کی نشانی کیا ہے؟ ہم اور
ہمارا معاشرہ تو اسے فاسق کہتا ہے جو گناہوں میں حد سے بڑھ گیا ہو۔مگر غور
کریں کہ قرآن تو کچھ اور کو فاسق کہہ رہا ہے۔ذرا سنجیدگی سے اور کھلے دل سے
سوچیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں وہ ہم اور ہمارا مجموعی معاشرہ تو
نہیں؟ کیا وہ فاسق ہم اور ہمارے حکمران، ہمارے محکمے اور اداروں کے نگران و
ذمہ دار آفسران تو نہیں؟
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اِنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ
الْفَاسِقُوْنَo
’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون و شریعت کے مطابق حکم نہ دیں، فیصلے
نہ کریں وہی فاسق ہیں۔‘‘ ( سورۃ المائدہ 5: 44)
قرآن کریم تو کھلے الفاظ میں نوٹس دے رہا ہے اور ہمار ی اس بڑے نوٹس پر نہ
کوئی توجہ ہے نہ کوئی فکر،نہ کوئی ڈر اور خوف۔ اللہ رب العزت نے تو واضح
فرما دیا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی
کافر ہیں، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم
ہیں، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
قرآن کریم کے اس صریح اور واضح حکم کے باوجود ہم نہ کافر، نہ ظالم اور نہ
ہی فاسق؟ اگر ہم نہیں تو بتائیں کہ قرآن کی ان آیات کی رو سے کافر کون ہے؟
ظالم کون ہے؟ اور فاسق کون ہیں؟جو لوگ حقیقی کافر ہیں ، سرے سے جن کا قرآن
و حدیث پر ایمان ہی نہیں ہے ان کا معاملہ تو الگ ہے اور وہ اللہ بہتر جانتا
ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیاکرے گا مگر جو مان کر، ایمان رکھ کر،یقین کر کے
روگردانی کریں، جو ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال کر پس پشت پھینک دیں،
جو زبان سے تو اقرار کریں کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت برحق ہے اور یقین سے
بھی رکھیں مگر ان کے اعمال اس کے موافق نہ ہوں، ان کے کردار اس کے برعکس ہو
تو ان کا حشر یقیناًبہت ہی برا ہو گا۔ اور یہ حشر، ذلت و رسوائی، خواری و
ناداری ہم دنیا میں ظاہری آنکھوں سے دیکھ بھی رہے کہ آج دنیا میں سب سے
ذلیل و خوار قوم مسلمان ہے۔دنیا کے جس کونے میں دیکھو ہم مسلمان ہی ذلیل و
رسواء ہو رہے ہیں۔دین سے دوری اور بے یقینی اس کا سبب ہے۔
سن اے تہذیب حاضر کے غلام
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی
آگے چل کراللہ کریم اور ارشاد فرماتے ہیں کہ جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ
مانا ، ان کے مطابق عمل نہ کیا وہ آگ میں بند کر دئیے جائیں گے۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاآیَاتِنَا ھُمْ اَصْحَابُ الْمَشْاَمَۃِ o
عَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o (سورۃ البلد90: 19-20)
’’اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا( نہ مانا، ان کے مطابق عمل نہ
کیا)وہی بائیں یعنی دوزخ والے ہیں۔ انہیں چاروں اطراف سے آگ میں بند کر دیا
جائے گا۔‘‘
آج دیکھیں دنیا میں کون ہر سو آگ میں بند ہے؟کس قوم پر ہر سمت آگ و آہن کی
بارش ہو رہی ہے؟دنیا میں جس سمت دیکھو ہم مسلمانوں پر ہی آگ برس رہی ہے۔
اگر آج دنیا میں ہماری نظروں کے سامنے قرآن کی آیت سچ ثابت ہو رہی ہے اور
آخرت تو ہے ہی احکام قرآن کو سچا ثابت کرنے کی۔یہ قرآن کریم کی حقانیت کا
منہ بولتا ثبوت ہے کہ اللہ کریم نے فرمایا کہ جنہوں نے ہماری
آیتوں کو نہ مانا اور اس کے مطابق عمل نہ کیا وہ آگ میں بند کر دئیے جائیں
گے۔تو کیا آج دنیا کا منظر اس کی عکاسی نہیں کر رہا ہے؟ اگر آج دنیا میں ہم
چار سو آگ میں بند ہیں تو ممکن ہے کہ آخرت میں بھی وہ ہم ہی ہوں غفلت و
کوتاہی اور عدم اتباع کی وجہ سے؟ ممکن ہے ہمارا حشر ان سے بھی بد تر
ہوجنہیں ہم کافر سمجھتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں،اپنے جمہوری
معاشرت و رہن سہن کو دیکھیں، اپنے طرزِ حیات اور اصول و ضوابط کو دیکھیں،
اپنے نظام سلطنت جمہوری نظام کو دیکھیں کہ کیا ہماری اس جمہوریت میں کتاب و
سنت رسول ﷺ کے مطابق احکامات جاری کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ جمہوری نظام قرآن
و سنت کے نفاذ کا حامی ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہا ہے؟ اگر نہیں کر رہا تو
یہ کفر ہے اور ہم سب اس کفر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم اس نظام کو
ووٹ دیتے ہیں، سپورٹ کرتے ہیں جو قرآن و سنت کا حامی نہیں ہے، جو کتاب اللہ
کے نفاذ میں مخلص نہیں ہے۔ جس نظام کا قبلہ قرآن و سنت کے سوا کوئی اور
ہواس کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔گویا ہم یہ جانتے ہوئے کہ یہ نظام
ہمارے اسلامی اصول و ضوابط کے موافق ہے ، یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم دیدہ و
دانستہ اسے سپورٹ کریں تو ہم کیا ہوئے؟ جمہوریت قرآن و سنت، اللہ و رسول ﷺ
کا واضح کردہ نظام سلطنت نہیں ہے اور اس کے مطابق احکام جاری کرتا ہے تو یہ
کفر ہے، شرک ہے اور شیطان کی عبادت ہے، جمہوریت کے پجاری شیطان کے پجاری
ہیں۔
کیا کسی شیطان کے ساتھ لفظ اسلام لگا دیا جائے تو وہ مشرف بہ اسلام ہو جاتا
ہے؟ کیا کسی شیطانی و کافرانہ نظام کے ساتھ لفظ اسلام لگا دیا جائے تو وہ
اسلامی نظام بن جاتا ہے؟ جیسے کسی کافرانہ نظام سوشلزم، لبرلزم، سیکولرزم
کے ساتھ اسلام لگانے سے وہ نظام کفر ہی رہتا ہے تو پھر ایک کافرانہ نظام
جمہوریت کے ساتھ اسلام لگانے سے وہ کیسے مشرف بہ اسلام ہو جائے گا؟ کیا اگر
کسی فاسق و فاجر شخص کے نام کے ساتھ لفظ محمد لگا دیا جائے تو کیا وہ شخص
محمد کریم ﷺ کے اوصاف کا حامل ہو جاتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا
کہ ایک کافرانہ نظام جمہوریت کے اسلام لگاد ینے وہ نظام اسلامی اوصاف کا
حامل نہیں ہو جا تا وہ نظامِ کفر ہی رہتا ہے۔ہمارے ہاں آج کل نظام کفر
جمہوریت کے ساتھ لفظ اسلامی لگا ہے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ کیا اسلامی
لفظ کے اضافہ سے جمہوریت مشرف با اسلام ہو کر پاک صاف ہو گئی ہے؟ کل اگر
کوئی کافرانہ نظام سوشلزم کے ساتھ لفظ اسلامی دیتا ہے تو کیا وہ نظام بھی
پاک ہو جائے گا؟ کل کلاں اگر اور کوئی شاطر دماغ اٹھ کر اسلامی سود کاری
متعارف کروا دیتا ہے تو کیا وہ جائز ہو جائے گی؟ کیا اگر کوئی اسلامی
یہودیت، اسلامی عیسائیت کا فلسفہ ایجاد کر لیتا ہے تو کیا اسے بھی قبول کر
لیا جائے گا؟ آخرکار اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے استعمال کی گئی کتاب و
سنت سے ثابت شدہ اصطلاحات اور صد فیصد کامیابی سے ہمکنار نظام خلافت اور
نظام شورائیت سے پہلو تہی اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟
ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظامِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار
و روایات، اصول و ضوابط اور نظریہ حیات کا آہینہ دار ہوتاہے۔ اس لیے اگر آج
مسلمانوں میں اسلامی نظامِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے
اسلام کو محض زبانی دعوؤں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین
، ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا، اسے ایک کامل دین اور
ایک مکمل نظامِ ہائے زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی
۔ اس کی بجائے جو ضابطہ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام
(معاشرت، معیشت، عدل و انصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہرہے۔اِسے جو
چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظامِ حیات ہرگز نہیں ہے ۔ کیا قرآن و سنت
( اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ کاتعین کردہ نظام حق نہیں ہے؟ اگر حق
ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور
جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے۔
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفَوْنَ o
(یونس32:)
’’نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے
تو تم کہاں بہکے جاتے ہو۔‘‘
اللہ کریم اور اس کے پیار ے رسول ﷺ کا متعین کردہ نظام و قانون ہی برحق ہے
اور اس سے ذرہ برابر بھی روگردانی کفر ہونے کی دلیل ہے۔اس راہ سے ، اس نظام
قانون سے ذرا برابر بھی ہٹ کر چلنا شیطان کی راہ پر چلنا ہے۔ ہم اور ہمارا
مجموعی ذرا برابر تو نہیں اسلامی قانون شریعت سے بہت ہٹ کے چل رہا ہے تو
کیا ہم شیطان کی طرف نہیں جا رہے؟ اسلامی نظام حیات سے ہٹ کر چلنا جہالت
اور شیطان کی اتباع و اطاعت کی دلیل ہے اور اللہ نے شیطان کی اطاعت کو
شیطان کی عبادت قراردیا ہے ۔
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ اَنْ لَا تَعْبُدُوْا
الشَّیْطَانَ
اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (سورۃ یٰسین 36: 60)
’’اے آدم کی اولاد! کیا ہم نے تمہیں صریح حکم و تاکید نہیں کر دی تھی کہ
شیطان کی عبادت مت کرنا وہ تمہارا کھلادشمن ہے ۔ ‘‘
اب شیطا ن کی عبادت تو بظاہر کوئی نہیں کرتا اور نہ کبھی تاریخ میں سنا گیا
کہ کبھی کہیں کسی جگہ شیطان کی بھی عبادت ہوتی رہی ہے۔ بظاہرتو ایسا کہیں
نظر نہیں آتامگر حقیقتاً ایسا ہے اور خود ہمارے معاشرہ میں ہے کہ ہر طرف
شیطان کی پوجا کی جارہی ہے۔ ذرا فکر سے سوچیں کہ یہاں اللہ کریم کا شیطان
کی پوجا، شیطان کی عبادت سے مراد کیا ہے؟ یہاں شیطان کی عبادت و پوجا سے
مراد شیطان کی راہ پر چلنا ہے، شیطانی نظام اور اصولوں کو اپنانا ہے، شیطان
کی اطاعت و اتباع کرنا ہے۔ طریق دین کو چھوڑ کر کسی بھی طریق پر زندگی بسر
کرنا شیطان کی عبادت کرنا ہے۔اللہ کریم کے نظام کو چھوڑ کر کسی اور نظام کو
اپنا لینا گویا اسی طرح ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا معبود بنا لینا۔
اللہ کریم نے قرآن حکیم میں واشگاف الفاظ میں نوٹس دے دیا تھا کہ اللہ کے
سوا کسی کو معبودنہ بنا لینا ورنہ اس کے دائرہ رحمت سے نکل جاؤ گے، راندہ
درگاہ بنا دئیے جاؤ گے، ملامت زدہ اور بے کس و بے سہارا ہو کر رہ جاؤ گے۔
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا
مَّخْذُوْلًاo
اللہ کے سوا کسی اور معبود نہ بنا لینا( کسی اور کے نظام کو نہ اپنا لینا،
کسی اور کی ہدایت پر نہ چلنا) ورنہ ملامتیں سن کر اور بے کس ہو کر بیٹھے رہ
جاؤ گے۔ (بنی اسرائیل 17 : 22)
اس آیت مبارکہ کی مخاطب پوری انسانیت ہے خاص تر وہ لوگ جو اس پر ایمان
رکھتے ہیں یعنی مسلمان۔اب ذرا حاضر دنیا کا مشاہدہ کریں کہ مسلمان اللہ کے
نظام ، اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر کس کے نظام، کسی کی ہدایت پر چل رہے
ہیں؟اور آیت کے مطابق انجام دنیا کے سامنے ہے۔اس وقت دیکھیں کہ دنیامیں کون
ملامت زدہ ہے؟ کون بے کس و بے سہارا ہو کر دنیا میں رہ گیا؟ اس آیت مبارکہ
کے مخاطب تو عام انسان تھے مگر اگلی آیت مبارکہ میں اسی طرح کا بیان فرمایا
اور مخاطب پیغمبر اسلام ﷺ کو فرمایا یعنی اگر پیغمبر ﷺ بھی اللہ کے متعین
کردہ نظام کو چھوڑ دیتے تو ان کا بھی یہی انجام ہوتا۔
ذٰلِکَ مِمَّا اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ وَلَا تَجْعَلْ
مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًا
مَدْحُوْرًاo
اے پیغمبر ﷺ ! یہ ان ہدایتوں میں سے ہیں جو اللہ نے حکمت کی باتیں تمہاری
طرف وحی کی ہیں اور اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہ بنانا ورنہ ایسا کرنے سے
ملامت زدہ اور راندہ درگاہ بنا کر جہنم میں ڈال دئیے جاؤ گے۔
اسلام میں اطاعت کو ترجیح حاصل ہے عبادات کو نہیں۔ عبادات کے چھوٹ جانے پر
معافی ہو سکتی ہے مگر عدم اطاعت پر نہیں۔ اطاعت اللہ رب العزت کے متعین
کردہ نظام پر چلنے کا نام ہے، اطاعت اللہ کریم کی دی گئی ہدایات پر عمل کا
نام ہے۔عبادات اللہ کریم کا حق ہیں وہ اپنا حق اگر چاہے تو معاف فرما سکتا
ہے جبکہ اطاعت یعنی نظام کی پیروی انسانیت کا حق ہے۔اطاعت انسانیت کا حق اس
لئے ہے کہ اللہ کریم نے اپنا سارا نظام بنایا ہی انسانیت کی بھلائی کیلئے
ہے لہٰذا اطاعت یعنی نظام کی پیروی میں انسانیت کی بھلائی ہے، انسانیت کی
بہتری ہے اس لئے اطاعت انسانیت کا حق ہے۔اللہ کریم اپنا حق یعنی عبادات میں
کمی کوتاہی تو معاف اور درگذر کر سکتا ہے مگر نظام میں ذرہ برابر بھی سستی
و کوتاہی برداشت نہیں کرتا۔
اللہ کے رسول کیونکہ اس کی طرف سے پوری انسانیت کی بھلائی کیلئے ایک نظام
لے کے آتے ہیں اس لیے ا للہ کریم نے اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو فرض
و مطلق قرار دیا ہے اور اس کو دین کی بنیاد قرار دیا ہے اور عدم اطاعت کو
کفر قرار دیا ہے فرمایا۔
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ
لَا یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ o
’’(اے محمدﷺ)کہہ دیجئے اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو
اگر یہ پھر جائیں (یعنی اللہ کے نظام سے اور اس کی اطاعت و پیروی نہ
کریں)تو اللہ کافروں کوپسند نہیں کرتا۔‘‘ ( سورۃ آل عمران 3:32)
اس آیت کریمہ میں واضح اشارہ ہے کہ حقیقت میں اطاعت نہ کرنے والے ہی کافر
ہیں ورنہ آیت میں ’’ جو اطاعت سے پھر جائیں، روگرادنی کریں اور ساتھ ہی
فرما دینا کہ اللہ ایسے کافروں کو پسند نہیں کرتا‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟اس کا
واضح مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں اطاعت ہی دین ہے اور دین اللہ کے دئیے گئے
نظام کی اطاعت و پیروی کا نام ہے۔جو قانون، جو طرز زندگی، جو ضابطہ حیات،
جو نظام معاشرت، جو اصول ، جو دستور ، جو آئین اللہ کے عطاکردہ آئین سے ذرا
بھی ہٹ ہو وہ کفر کی بنیاد ہے۔
جمہوریت کیونکہ اسلامی نظام سے بہت ہٹ کے ہیں اس لئے کفر کی بنیاد ہے اور
جو اس نظام کی پیروی کریں ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہوریت پر
ڈٹ جانا گویا کفر پر ڈٹ جانا ہے۔ جمہوریت وڈیروں،جاگیرداروں، حکمران و
سیاستدانوں کے مفادات کے تحفظ کا نام ہے اور جمہوریت سے ہی ان کے مفادات
وابستہ ہیں جبکہ اسلامی نظام معاشرت کے تحفظ کا نام ہے، معاشرت کی فلاح و
بہبود کا نام ہے اس لئے مفادات پرست عناصر اسلامی نظام کی بات نہیں کرتے۔
اسلامی نظام ان کی بھری تجوریوں کو خالی کر دے گا جبکہ جمہوری نظام ان کی
تجوریوں کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں مزید بھرتا چلا جاتا ہے،انہیں دین کی
نہیں اپنے اپنے مفادات کی غرض ہے۔ انہیں بس دنیا اور کرسی سے غرض ہے جس
کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ یہ سب دنیا چاہنے والے ہیں دین
نہیں، یہ دنیا کیلئے لڑتے ہیں، ہوس اقتدار، ہوس زرومال کیلئے لڑتے ہیں دین
کیلئے نہیں۔ یہ قرآن وسنت کے باغی ہیں اور لادین جمہوریت کے فدائی۔جھوٹ
بولنا ان کی عادت، بدخلقی ان کا وطیرہ۔ دین سے انحراف پر مبنی نظام جمہوریت
پر یہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں مگر دین کیلئے ان کی زبانیں فالج
زدہ ہیں کہ کچھ بول ہی نہیں سکتیں۔ دین کا پرچار ان کا مشن نہیں۔ دین کی
بالادستی اور دینی اصولوں کا رائج کرنا ان کا منشور نہیں۔ یہ خدا کو تو
مانتے ہیں کہ موجود ہے ، اس کے رسول ﷺ پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر جب خدا
کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے نفاذ کی بات آتی ہے تو یہ اس سے بیزار
اور اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں قرآن و سنت کا
نفاذ ہو۔ ایسے کھوکھلے ایمان و یقین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ کوئی
کہے یا اللہ میں تجھے تو مانتا ہوں پر تیرے دین کا عملی نفاذ نہیں چاہتا،
تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے سب احکامات کو تو مانتا ہوں کہ حق ہیں پر انہیں
عملی طور پر اپنے اوپر اور ملک میں نافذ کرنے اور کروانے سے معذرت خواہ ہوں
اور نہ اس کے لئے کوشش کر سکتا ہوں، نہ اس کے لئے لڑ سکتا ہوں نہ جان دے
سکتا ہوں۔ ایسا ایمان و یقین تو ظاہری و کھلی منافقت سے بھی بد تر ہے۔ خدا
کے دین سے انحراف پر مبنی کفر جمہوریت کیلئے ان کا سب کچھ حاضر اور اس پر
قربان ہے، یہ چاہتے ہیں کہ دین رہے نہ رہے پر جمہوریت رہے اور یہ اس پر فدا
ہو کر کفرِ جمہوریت کے شہید کہلاتے رہیں۔
یہ پہلے بھی دین کے نام پر اسلامیان بر صغیر سے غداری کر چکے ہیں۔ قیام
پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ نظریہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی کہ پاکستان میں
قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا، قرآن پاکستان کا آئین ہو گا۔ یہ
حکمران و سیاستدان تو نظریہ پاکستان کے بھی غدار نکلے، قیام پاکستان کے
مقصد سے غداری کی۔ قرآن و سنت کے ساتھ غداری کی، قیام پاکستان کے وقت جو
لوگوں کا خون بہا انہوں نے اس خون سے بے وفائی کی، لوگوں نے اپنی جانیں ان
کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے تو نہیں دی تھیں انہوں نے قرآن و سنت کے نفاذ
کے عظیم مقصد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس وقت لوگوں نے
اپنی جانیں پاکستان میں قرآن و سنت کے نظام کی خاطر قربان کی تھیں اور
ہمارے محترم قائد محمد علی جناح کا وژن بھی یہی تھاکہ پاکستان میں قرآن و
سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 15نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم
سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان
کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت
آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد
للہ! قرآن کریم ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘
یہ لادین جمہوری مداری قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے اور اپنی خود غرضی
اور مفاد پرستی پر اتر آئے۔ آئین پاکستان قرآن کی بجائے اپنی غرض اور مفاد
کو مدنظر رکھتے ترتیب دیا۔ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کی مکمل ذمہ داری
خود پاکستان کے معماروں پر عائد ہوتی ہے۔ ان معماروں نے اسلام کے نام پر
پاکستان تو حاصل کر لیا مگر اسلام کے اوامر و نواہی اور احکامات دینیہ پر
عمل کرنے کا کوئی سامان نہ کیا۔ آج کے حکمران و سیاستدان بتائیں کتنی قرآن
و سنت سے راہنمائی لی گئی ریاست اسلامیہ پاکستان کے قوانین ترتیب دیتے
ہوئے؟ یہ سب دنیاوی تماشا کرنے والے مداری ہیں۔ ہر طرف تماشا بپا ہے معاشرہ
میں کوئی مداری کہیں لوگوں کو جمع کر کے اپنے نعرے لگوا رہا ہے تو کوئی
کہیں۔ کوئی نیا پاکستا ن بنا رہاہے تو کوئی لوٹنے کے نت نئے طریقہ ایجاد کر
رہاہے ، امت کو نیا رنگ دے کر صاحب اخلاق بنانے ، تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ
پر ڈالنے اور دنیا میں عزت ووقار عطا کرنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ امت کو
دنیا میں کامرانی و سرفرازی دلانا کسی کا نعرہ نہیں۔ کہیں جئے بھٹو اور زر
خواری کے نعرے ہیں تو کہیں شریف لٹیروں کے ، کہیں خان ہے تو کہیں فضول
مولانا۔ اور ان کے سیاسی متوالے ان کے گرد بھنگڑے ڈالے ہیں سیاسی خاندانی
قیدی و غلام۔ کیا تم ان کی خاندانی غلامی کیلئے پیدا کیے گئے ہو؟ آج یہ ہیں
کل ان کی اولاد ہو گی تمہارے نعروں میں خواہ وہ عقل و فہم اورشعور سے خالی
ہو اور دین سے بیزار۔ حقیقت میں ان کی مت ہی ماری گئی ہے ، ان کی عقلیں کام
ہی نہیں کرتیں، بہرے، گونگے اندھے جانور۔
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ
بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ
بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں
ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے
کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں
جو غفلت میں پڑے ہیں۔ (الاعراف179:7)
خدا نے عقل دی سوچنے اور سمجھنے کو، ایک نہیں دو آنکھیں دیں دیکھنے اور
پرکھنے کو، ایک نہیں دو کان دئیے سننے اور راہ کا تعین کرنے کو۔کیا خدا نے
تمہیں ان کے ہر الٹے سیدھے کاموں پر تالیاں بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کے لئے
پیدا کیا ہے کہ سیاسی پیر جو مرضی کرتے پھیریں، خواہ جھوٹ بولیں، غیبت
کریں، قوم کی دولت لوٹیں، اخلاقیات کی پرکھیاں اڑائیں،دین کو نظر انداز
کریں تم نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر کے ان کے نعرے ہی لگانے ہیں؟ ان کے
روحانی سیاسی پیروں کے مجمع میں اللہ و رسول ﷺ کا نعرہ ہی نہیں لگتا، صرف
ایک دوسرے پر طنز، غیبت، چغلیاں، بہتان، طعنہ و تشنیع اورقوم سے جھوٹے
وعدے، جھوٹی امیدیں، جھوٹی امنگیں کبھی نہ پورے ہونے والی۔اور لوگ بھی اللہ
و رسول ﷺ کو بھول کر ان کے ترانوں پر رشک و بھنگڑے ڈالنے میں مست ہوتے ہیں
تو خدا کا غضب اور قہر نازل نہ ہو امت پر۔کیا ان کی تخلیق کا مقصد یہ تھا؟
کیا ان کی تخلیق کا مقصد لادین، گھٹیا صفت، خائن لوگوں کے نعرے لگاناہے
اکٹھے ہو کر یا ا للہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کا پرچار کرنا؟
اے قوم! خدا کیلئے جاگو!خدا کیلئے اپنا محاسبہ کرو۔ اگر ہمیں آخرت کی ذرا
بھی فکر ہے تو ہمیں سنجیدگی سے اپنا حساب لگا کر دیکھناہو گا کہ ہماری جملہ
مادی ، جسمانی ودماغی قوتیں ، قابلیتیں خدا سے بے نیازی و بغاوت پر مبنی
نظام زندگی کو چلانے اور اسے مستحکم کرنے میں کتنا حصہ لے رہی ہیں ؟ اور کس
قدر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے متعین کروہ نظام حیات کے قیام کیلئے
صرف ہو رہی ہیں ؟ ہمارے کاروبار، تجارتیں ، صنعتیں کہاں تک اللہ عزوجل کی
مقرر کردہ حدود ( حلال و حرام ، جائز و ناجائز) کے مطابق چل رہی ہیں اور
کہاں تک ان (حدود اللہ ) سے آزاد اور بے بہرہ ہیں؟ ہماری ساری دوڑ دھوپ ،
کاوشیں قرب طاغوت کیلئے ہیں یا رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ؟ کیا ہم نے
آئندہ آنے والی نسلوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی پسندیدہ راہ پر چلنے اور
اس کی خوشنودی کی خاطر جینے اور مرنے کیلئے تیار کررہے ہیں یا اپنی اس عزیز
متاع قلیل کو مغضوب اور ضالین کے قدم بقدم چلنے کے قابل بنانے کی فکر میں
لگے ہوئے ہیں ؟ ہمارے مال ودولت اور دوسرے وسائلِ زندگی کا کتنا حصہ طاغوت
کیلئے ہے، کتنا خود اپنے نفس کیلئے اور کتنا دین حق کی اقامت کی جدو جہد کو
پروان چڑھانے کیلئے ہے؟
اے لوگو! ذرا ٹھنڈے دل سے ، آخرت کے نقطہ نظر سے سوچ کر بتاؤ کہ مغضوب
اورضالین لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت ، سربلندی اوروقار کیسے
حاصل ہوگا جس کا اللہ رب العزت نے ایک سچی مومن ومسلم امت سے وعدہ فرمایا
ہے ؟ اے لوگو! خدا کیلئے اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے۔ لوگوں کی جو امانت
اللہ عزوجل کے پیارے رسول ﷺ نے تمہارے سپرد کی تھی اسے لوگوں تک پہنچاؤ ،
اگر خدا نے تمہیں طاقت دی ہے ، قانون کا محافظ و حکمران بنایا ہے تو خدا و
رسول کے متعین کردہ قانون و شریعت کے مطابق حکم دو اور فیصلے کرو اور اس
میں خیانت نہ کرو۔
اب یہ بات اچھی طرح لوگوں کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ خدا کے دین کو صرف
اپنی ذات کی حد تک مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ جو لوگ اس کے حق اور انسانیت
کیلئے واحد سیدھا راستہ ( ضابطہ حیات ہونے کو تسلیم کر لیں تو یہ بات بھی
ان کے فرائض میں شامل ہو جاتی ہے کہ وہ اس کے مطابق احکام بھی جاری کریں،
اس کے مطابق فیصلے بھی کریں،اس کے مطابق قانون بھی واضح کریں، اس کے مطابق
نظام سلطنت و معاشرت بھی چلائیں اور اسے لوگوں پر نافذ بھی کریں، وہ اسے
اپنے علاوہ اپنے گردو پیش کی دنیا میں بھی ، نافذ کرنے کی انتہائی سعی و
حرکت اور جدو جہد کریں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس راہ میں حائل ہونے والی
رکاوٹوں سے جہاد کریں۔ خدا کے دین کے سلسلہ میں جتنی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ
پر تھی اتنی ہی ذمہ داری اب قیامت تک کیلئے ہم پر ( حضور نبی کریم ﷺ کی امت
پر ) ہے ۔ |