کچھ دنوں پہلے ایک کہانی نظر سے گزری جس میں ایک بہت ہی
مثبت اور جامع پیغام تھا اسے اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہوں-
گاوَں کے رہائشی ایک ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان عقیدہ کو لے کر تکرار ہو
گئی ماں کے نزدیک ہر چیز پر قدرت اللہ کی ہے جیسا وہ چاہے ویسا ہی ہوتا ہے
اس کی مرضی کی برعکس انسان بارہا اور دل و جان سے بھی کوشش کرنے کے باوجود
نامراد ہی رہے گا -
جب کہ بیٹے کے عقیدے میں وہ پختگی نہیں تھی اور جوانی کی خماری اسے بہکائے
ہوئی تھی بیٹا ماں کی بات سے قطعا متفق نہیں تھا اور اپنے موقف کو ثابت کرے
کے لئے اس نے اپنی ماں سے کہا کہ آج میں کھانا نہیں کھاوَں گا دیکھتا ہوں
کیسے اللہ مجھے کھانا کھلاتا ہے کیونکہ جب میری خواہش ہی نہیں یا میں ضد
میں کھانا نہیں کھاوَں تو مجھے کوئی بھی پابند نہیں کر سکتا بیٹے کی ہٹ
دھرمی اور نادانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کی ماں اس کے سامنے کھانا رکھ
دیتی ہے چونکہ رات کے کھانے کا وقت ہوتا ہے بیٹا اپنی بات کو حقیقت کا روپ
اور سچ ثابت کرے کے لئے فورا منع کر دیتا ہے اور ماں کے اصرار کے باوجود
کھانا نہیں کھاتا اور کہتا ہے کہ اب دیکھتا ہوں کہ اللٰہ مجھے کیسے کھانا
کھلاتا ہے ماں کے بارہا اصرار پر بیٹا گھر سے باہر قریبی قبرستان میں جا کر
سو گیا -
ماں تو اپنی ممتا سے مجبور کہاں چین سے بیٹھ سکتی تھی اس نے اپنے بیٹے کی
پسند کا حلوہ بنایا اور بیٹے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے قریبی قبرستان پہنچ گئی
اور حلوہ اس کے نزدیک رکھ کر گھر واپس لوٹ آئی تاکہ جب وہ بیدار ہو گا اپنا
من پسند حلوہ دیکھ کر کھا لے اور بھوکا نہیں رہے جیسا کہ اتنی رات گئے کہاں
سے کھائے گا-
رات کے پچھلے پہر قبرستان سے ڈاکووَں کا گزر ہوا اور تازہ حلوے کی خوشبو کی
وجہ سے وہیں رک گئے اور جیسے ہی ان کے سرغنہ نے کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا
ان میں سے ایک نے کہا رکیے سردار ہو سکتا ہے کسی کو ہمارے آنے کی مخبری ہو
گئی ہو اور اس میں کسی نے زہر ڈالا ہو تاکہ ہم کھاتے ساتھ ہی مر جائیں جیسا
کہ ایک بچہ بھی اسی کھانے کے پاس ہی لیٹا ہوا ہے جس سے شک میں اور بھی
تقویت لگ رہی ہے ایسا کریں گاوَں والوں کی تدبیر جو انہوں نے ہمیں زیر کرنے
کے لئے کی ہم انہی کے بیجھے ہوئے مخبر یعنی اس بچے کو حلوہ کھا کر انہیں
شکست دیتے ہیں جب بچے کو جگایا گیا اور حلوہ کھانے کے لئے کہا گیا بچے کے
منع کرنے پر انکا شک اور بھی گہرا ہو گیا-
سردار نے بچے کے ماتھے پر پستول رکھ دیا اور زبردستی کھانے کو بولا بچہ ڈکا
ڈک پوری پلیٹ صاف کر گیا لیکن اسے کچھ ہوا نہیں صلاح کار ڈاکو نے اپنی شامت
سے بچنے کے لئے سردار کو کہا لگتا ہے کھانے میں گاوَں والوں نے سلو پائزن
ملایا ہوا تھا تبھی یہ بچہ فورا مرا نہیں ڈاکو ادھر سے روانہ ہو گئے-
وہی بچہ جس کی ماں کے بہت اصرار کے باوجود اللٰہ سے ضد لگائی ہوئی تھی کہ
کھانا نہیں کھائے گا اسے اللٰہ نے وسیلہ بنا کر کھانا کھلا ہی دیا اپنی
شکست تسلیم کر کے خالی پلیٹ ہاتھ میں تھامے ہوئے گھر لوٹ آیا جیسا کہ اب اس
کے یہاں رکنے کا جواز ہی باقی نہیں رہا گھر پہنچنے پر والدا نے جب دریافت
کیا کہ پریشان لگ رہے ہو کیا ہوا تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ ماں بہت تھکاوٹ
محسوس کر رہا ہوں اور سونا چاہتا ہوں جہاں تک پریشانی کی وجہ کا پوچھ رہی
ہیں وہ قصہ تو لمبہ ہے پھر کبھی سناوَں گا لیکن خلاصہ یہی ہے کہ ہمارے ضد
کے باوجود اللٰہ کھانا کھلا دیتا ہے- |