نیا دن۔۔۔۔۔نیا سورج۔۔۔۔ موسم کی نئی ادا ۔۔اور وہی پرانی
بیزاری Facebook کو آگے پیچھے کرتے ہوئے کئی اقوال زریں سے نظر گذر رہی تھی
۔ بے وقعت الفاظ ادھر سے ادھر مٹر گشت کر رہے تھے ہر ایک چلا چلا کر کہہ
رہا تھا اپنی زندگی جیو ۔۔۔ اپنا خیال رکھو ۔۔۔۔ دنیا کی پرواہ مت کرو ۔۔۔
زندگی کا مزہ لے لو ۔۔۔ بڑھاپے میں جیا تو کیا خاک جیا ۔۔۔ اپنے خواب ،
خواہشیں کسی بھی قیمت پر حاصل کر لو رشتوں اور تعلقات کو پاؤں کی زنجیر نہ
بننے دو۔۔۔
کیسے خوش کن۔۔۔۔۔ مگر لا حاصل خیالات
بیزاری پوچھتی ہے میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کیا؟؟؟
کیا وہ زندگی جو میں نے گذاری وہ میرا انتخاب میرا خواب تھا؟؟؟؟؟ میرے خواب
میری خواہشیں یہی تھیں ؟
تو پھر کیا تھی میری زندگی ۔۔۔۔
بچپن ویسا جیسا ماں باپ نے چاہا کہ اس بے زبان حالت میں انہیں کون بتاتا کہ
مجھے کھلونوں سے زیادہ مٹی سے کھیلنا پسند ہے ۔۔۔
لڑکپن میں انکے ساتھ دادی نانی چاچی ،پھوپھی، تائی بھی شامل ہو گئیں ۔۔۔
جوانی کے مزے لوٹنے کی کوشش کی تو بھائی تایا چچا وغیرہ سب آموجود ہوئے
۔۔۔۔
بیزاری کا آغاز کہیں اسی دور میں ہو گیا تھا بہت دفعہ اس سوال کا جواب تلاش
کرنے کی کوشش کی کہ اگر ایسی روبوٹ نما زندگی ہی گزارنی تھی تو جذبات،
احساسات اور خواہشات کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟
ہاں یہ تصنع بھری زندگی اس لئے برداشت کی تاکہ دنیا کے کامیاب لوگوں میں
شامل ہو سکوں مگر۔۔۔۔۔
تمام تر ذہنی اور جسمانی تھکن سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد دنیا داروں سے
یہ تمغہ بھی نہ ملا
واہ واہ کیا خوب زندگی جی لی ہم نے ۔۔۔
اب سوچ اور احساس کا ڈبہ بند کریں اور دعوت میں جانے کی تیاری کریں
بن ٹھن کر جانا ضروری ہے تاکہ تمام مہمانوں کو معلوم ہو جائے کہ میرے پاس
آج ایک نیا لباس ،جیولری اور جوتے موجود ہیں ، خواہ میری گفتگو کے موضوعات
کتنے ہی بوسیدہ اور سطحی کیوں نہ ہوں مسکراہٹ کا ہینگر نارمل رکھنا ہے
زیادہ کھینچنے کی ضرورت نہیں البتہ کہیں کہیں زور دار قہقہہ لگانا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔تاکہ زندہ ہونے کا احساس ہوتا رہے |