ملک کی خواندگی پرتوجہ دو

حیرت ہے تعلیم وترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا
انسان اورجانورکافرق تعلیم سے ہی پتہ چلتا ہے کیونکہ تعلیم سے ہی انسان میں اصل نکھار آتا ہے۔میں نے اوپرٹنگولولی لکھا ہے اس سے مرادہے جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو اساتذہ محترم ہمیں گھرسے اٹھوالیتے تھے اورکہتے تھے ٹنگولولی کرکے لے آؤیعنی’’2لڑکے2بازوپکڑیں گے اور 2لڑکے 2ٹانگیں‘‘ اس کی باقی وضاحت کالم میں کریں گے۔ 8 ستمبرکو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواندگی کا عالمی دن منایا گیا جس پرسوچا ہم بھی کچھ ایسا لکھیں جو عام آرٹیکلز سے ہٹ کرہواسی وجہ سے ہم نے اپنے بچپن کی یادیں لکھنے کا سوچا کیونکہ آج ہم اگرلکھ پڑھ رہے ہیں تویہ ہمارے اساتذہ کرام کی مہربانی ہے ۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے پولیسکو کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ناخواندہ افراد کی تعداد 775ملین ہے جس میں 64فیصدخواتین اور36%مردشامل ہیں پاکستان ناخواندگی میں کئی ممالک سے پیچھے ہے اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ ہماراملک توآزاد ہوا پرہم اپنی سوچ کو آزاد نہ کرسکی اسی وجہ سے اآج تک ہم یہ ڈیسائیڈ نہیں کرسکے کہہ ہمارانصاب تعلیم کس زبان میں ہو۔کچھ ممالک ورانکی ناخواندگی کی پرسنٹیج پر نظرڈالتے ہیں :
ناروے(100فیصد)مالدیپ(99.3فیصد) نیوزی لیند(99فیصد) شمالی کوریا(99فیصد) جاپان(99فیصد) جنوبی کوریا(97.9فیصد) پرتکال(فیصد95.2)فیصد)پیراگوئے(94فیصد) ہانگ کانگ(93.5فیصد) سری لنکا(92.8فیصد) ملائشیاء(92.1فیصد) انڈونیشیا(90.4فیصد) عراق(78,2) بھارت (72.2فیصد) بھوٹان(64.9فیصد) نیپال (64.7) پاکستان(40.2فیصد) پاکستان کی شرح خواندگی 1951سے 2014تک کی ہے اس پر مزیدتوجہ دے کراب پاکستان کی خواندگی58%ہوگئی ہے پاکستان میں مردوں کی شرح خواندگی 71%جبکہ29%ہے ۔شہری علاقوں میں شرح خواندگی74%جبکہ دیہی علاقوں میں 49فیصدپنجاب میں شرح خواندگی 61.77%ہے جس میں مرد40.77%خواتین26.53فیصدہے کتنے سوچنے کی بات ہے پاکستان میں آج بھی 56لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔پاکستان کا تعلیمی نظام نیشنل ایجوکیشن انفارمیشن سسٹم کے اعداد شمار2013-14کے مطابق 2,60200درس گاہیں ہیں جس میں 42928801طلباء اور1598334اساتذہ ہیں ملک میں 69فیصددرسگاہوں کا63%سٹوڈنٹس کا51%اساتذہ پبلک سیکٹرکے زیرانتظام ہیں ۔ملکی درسگاہوں میں 57فیصدلڑکے اور43فیصدلڑکیاں زیرتعلیم ہیں اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2.7%سکولوں کی عمارت نہیں 36%بجلی سے محروم ہیں 30%کو پانی کی سہولت میسرنہیں30%بیت الخلاء نہیں 55.27%کی چاردیواری نہیں 81.21%اداروں کومرمت کی ضرورت ہے ۔

آج ہمیں دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کو حال یہ ہوگیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو سکول توبھیجتے ہیں مگر سرکاری کے بجائے پرائیویٹ اوروہاں ہزاروں روپے کی بھاری فیس بھی ادا کرتے ہیں صرف اس وجہ سے کہہ وہاں کے تعلیمی معیارپربھروسہ ہے اور سرکاری سکول میں بچے بیٹھ بیٹھ کے واپس آجاتے ہیں پتا نہیں کیوں .

پاکستان کے سکولوں میں شکایت سیل نمبرلکھوائے گئے ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ کو کئی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے یہ شکایت سیل چارٹ اس وجہ سے لگائے گئے ہیں کہ بچے اساتذہ کی شکایت کرسکیں جب طلباء ہی اساتذہ کی شکایت کرنے لگیں پھر پڑھائیاں ہوگئیں ہمارے دورمیں اگرہم بیمار ہوتے تھے تو استاد گھرسے ٹنگولولی کرواکے اٹھوالیتے تھے اور خوب طبیعت بناتے تھے اور کچھ ہی دیرمیں بخار بھی ٹھیک ہوجاتا تھا جس سے ڈاکٹروں کا خرچ بھی بچ جاتا تھا اپنے سکول سے چھٹی بھی نہیں ہوتی تھی آج کوئی بھی جتنے بڑے عہدے پر ہے وہ بھی کبھی سٹوڈنٹ ہوگا اور طالبعلم کونہیں پتاہوتا وہ استاد کی شکایت لگا کرسہی کررہاہے یاغلط مگراس شکایت سیل کی وجہ سے اساتذہ کو کتنے چکرلگانے پڑتے ہیں وہ تو اس مشکلات سے دوچارہونے والا استاد ہی بتاسکتا ہے ۔اس سال 1122کو 3لاکھ سے اوپر غلط کال ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملک کا پیسہ بھی ضائع ہوا اوراس ادارے کا وقت بھی ہوسکتا ہے جہاں ضرورت ہو وہاں نہ پہنچ سکے ہوں اسی طرح استادوں کودفتروں کے جب روز روز چکرلگانے پڑیں گے تومعیار تعلیم ڈسٹرب توہوگا۔جب سے مارنہیں پیار کا نعرہ لگا ہے معیار تعلیم چاہے اچھی ہوئی ہومگراستادوں کی عزت کی دھجیاں اڑگئی اوراگرکسی استاد نے لڑکے کو کچھ کہہ دیا تو وہ فوراًمیڈیا کولے کرآجاتاہے کیونکہ بھیئی اس کی عزت خراب کی ہے استادنے تواس نے بھی تو بدلہ لینا تھا اور ہمارے صحافی بھائی وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ شاید وہ بھی کبھی سٹوڈنٹ ہواکرتے تھے مگرنہیں انہیں اپنے بزنس سے ہے مطلب جیب خرچی سے جو استاد سے اس معاملے کے حوالے وصول کرتے ہیں ورنہ استاد کی عزت نیلام کردیتے ہیں پھراستاد کومحکمہ کے چکرپہ چکرلگانے پڑتے ہیں ۔جب کوئی شکایت کرتا ہے اس کی شکایت تودرج کرلی جاتی ہے مگراس کے متعلق مثلاً شناختی کارڈ نمبر،ایڈریس اورصحت کے متعلق کچھ نہیں پوچھا جارہا اورتو اور غلط نام سے غلط شکایتیں بھی لکھوائی جاتی ہیں جس کا رجحان بڑھ رہا ہے خدارا اساتذہ کے شعبے کو بچالیں ورنہ پولیس،واپڈا،صحافت کی طرح یہ شعبہ بھی بدنام ہوجائے گا۔

ایک حیران کن بات ہے کہ دنیا کے 194ملکوں میں پاکستان کا 180نمبرہے اور14ممالک ایسے ہیں جن سے پاکستان کی شرح خواندگی قدرے بہترہے ہمارے ملک میں جب تک غربت اور بے روزگاری ختم نہیں ہوگی شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہوسکتا اسی لیے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے پہلے اساتذہ پرسختی کم کرے غربت بے روزگاری کوختم کرکے ہم100% خواندگی کا خواب پوراکرسکتے ہیں۔

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 197138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.