چرچل نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟سیاست
دانوں نے ہاں میں جواب دیا تو چرچل نے سگار کا لمبا کش لیتے ہوئے یادگار
جملہ کہا کہ’’پھر تم کبھی تباہ نہیں ہو نگے‘‘لیکن ہمارے ہاں انصاف کا نظام
اس قدرپچیدہ ہو چکا ہے کہ اب ہمیں بربادی کی طرف جانے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔لوگوں کو عدالتوں میں چکر لگاتے سالوں گزر جاتے ہیں مگر ان کے حصے میں
سوائے انتظار کے کچھ بھی نہیں آتا۔پاکستان میں کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو
عدالتوں میں گزشتہ 70 سالوں سے پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ مقدمات کی پیروی
کرتے ان کی نسلیں ختم ہوگئیں لیکن تاحال فیصلہ نہیں ہو سکا۔پاکستان میں کئی
عدالتی کیسز کئی کئی سال گذرنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں پہنچتے ہیں۔ ایسے
ہی چند کیسز اس سال کے شروع میں سامنے آئے تھے جن میں زیر حراست ملزمان کو
سپریم کورٹ سے ریلیف ملا اور جب انہیں رہا کرنے کا حکم دیا گیا تو معلوم
ہوا کہ وہ کئی سال قبل دوران حراست ہی بیماری یا کسی اور وجہ سے وفات پا
چکے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان کے عدالتی نظام کو بہتر کرنے
کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن اب بھی ہزاروں کی تعداد میں مقدمے
عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔سپریم کورٹ کے مطابق پاکستان کی اس اعلیٰ ترین
عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔پاکستان کی
عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ
دیکھا گیا ہے اور ججز کی طرف سے انھیں نمٹانے کی بھرپور کوششوں کے باوجود
اب بھی 38 ہزار سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں۔یہ اعدادوشمار سپریم کورٹ
کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتائے گئے جس کے مطابق اس وقت عدالت عظمیٰ
میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 38917 ہے جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے
زیادہ تعداد ہے جبکہ اس دوران نمٹائے جانے والے مقدمات کی تعداد میں بھی
قابل ذکر اضافہ ہوا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے عاجزانہ التماس ہے
کہ عدلیہ دوسرے اداروں کی کارکردگی کی بجائے ایسے ہزاروں مقدمات کو نمٹانے
پر توجہ دے جو کئی سالوں سے التوا کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اس کے کے لیے چیف
جسٹس کو ہنگامی بنیادوں پر مختلف اقدام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس تناسب
سے نئے مقدمات عدالتوں میں دائر ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں نمٹائے جانے
والے مقدمات کی شرح بہت کم ہوتی ہے جس سے زیر التوا مقدمات کا انبار لگنا
شروع ہو جاتا ہے۔اس لئے لازمی ہے کہ و قت کے حساب سے ججز کی تعداد مزید
بڑھائی جائے تو بہتر ہے۔ قانون کے اندر تبدیلی کی بھی ضرورت ہے تاکہ
پروسیجر کو ذرا کم کیا جائے اور کیس اگر آتا ہے تو اس کو نمٹانے کا طریقہ
کار طے کیا جائے اور جب تک ہنگامی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا یہ
مقدمات دن بدن بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی کئی تقاریر میں یہ کہہ چکے ہیں کہ قانون میں
تبدیلی پارلیمان کا کام ہے اور ملک میں رائج پرانے قوانین کو تبدیل کیا
جانا چاہیے اور ججز کو چاہیے کہ وہ مقدمات کو نمٹانے پر توجہ دیں تا کہ
سائلین کی پریشانیوں کو کم کیا جا سکے۔ملک بھر کی ہائیکورٹس اور ماتحت
عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔اس وقت ملک بھر میں
لاکھوں سائلین اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ سندھ بھر کی عدالتوں
میں ایک لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے تمام
بینچوں میں 20 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ پنجاب کی ماتحت عدالتوں
میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ساڑھے بارہ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ لاہور
ہائیکورٹ کے تمام بنچوں میں اس وقت 79 ہزار فیصلوں کے منتظر ہیں۔ بلوچستان
ہائیکورٹ میں پانچ ہزار کیس زیر التوا ہیں جبکہ ہزاروں مقدمات ماتحت عدلیہ
کے زیر سماعت ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بھی ہزاروں سائلین ماتحت عدلیہ اور
ہائیکورٹ سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ عدالتی کارروائی میں سست روی
کے باعث ہزاروں مقدمات کے فریق فیصلے کے انتظار میں بوڑھے ہو چکے ہیں یا اس
جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں جس کے بعد عدالت میں پیشی کی ذمہ داری ان کی
اولاد سنبھال چکی ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے۔
اس حساب سے صوبے میں 62 ہزار افراد کیلئے ایک جج میسر ہے اور ہر جج کے حصے
میں 657 مقدمات آتے ہیں۔ یہی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں فی جج صرف 250 تک
محدود ہوتی ہے۔موجودہ زمانے میں فوری انصاف کی فراہمی میں سب سے زیادہ مشکل
چیلنج زیر التوا مقدمات کا نمٹانا ہے۔ مقدمات میں غیر ضروری تاخیر ایک طرف
عدالتوں پر عوامی اعتماد کو کم کر دیتی ہے، تو دوسری طرف ملک کو بھی سماجی
اور اقتصادی طور پر کمزور کر دیتی ہے۔ پاکستان میں 1.94 ملین زیر التوا
مقدمات ہیں۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 37 (ڈی) کے تحت ہر شہری کو عدالتی طور پر
فیصلہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن زیر التوا مقدمات کی بہت بڑی تعداد اس
حق کو فراہم کرنے میں مزاحم ہے۔ مقولہ ہے: ’’انصاف میں تاخیربے انصافی کو
جنم دیتی ہے۔‘‘ ۔ تیز تر انصاف فراہم کرنے کے لئے عدالتوں کو بہت بڑی مقدار
میں مقدمات سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہئے اور تیز تر انصاف فراہم
کرکے مقدمات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی میں صریحی طور پر
کہا گیا ہے کہ درخواست ضمانت دفعہ 497ض۔ف سیشن ڈویڑن اور ہائی کورٹ کی طرف
سے سات دن کے اندر اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح کم از کم14 دن کی مدت
میں پولیس چالان جمع کرایا جائے گا۔ جن فوجداری مقدمات میں سزا 7 سال اور
اس سے اوپر قید ہوتی ہے جس میں موت کی سزا بھی شامل ہے، ایک سال کی مدت میں
فیصلہ کئے جائیں گے۔ خاندانی معاملات کوتین تا چھے ماہ کے اندر فیصلہ کیا
جانا چاہئے۔ چار مہینے کے عرصے میں کرایہ کے معاملات کو تیزی سے فیصلہ کیا
جانا چاہئے۔ گذشتہ سال پاکستان نے اپنا پہلا ’’ای کورٹ‘‘ قائم کیا ہے۔ اس
ٹیکنالوجیکل دورمیں ای عدالتوں کا قیام صحیح سمت میں ایک بہتر قدم ہے۔ اس
کے پیچھے کارفرما نقطہ نظر عدالتوں کی سستی کو ختم کرکے اس قابل بنانا ہے
کہ جلد از جلد انصاف فراہم ہوسکے۔ آن لائن تحریری بیان، گواہوں کے بیانات،
ویڈیو کرانفرسنگ کے ذریعے شہادت جرح کا عمل فوری طور پر انصاف کی فراہمی
میں مدد گار ثابت ہوگا۔ ہر ضلع اور تحصیل سطح پر ان عدالتوں کو مضبوط بنانے
کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ان پریشان کن حالات میں خطرناک مجرموں، دہشت گردوں
کے مقدمات کو محفوظ طریقے سے ’’ای عدالتوں‘‘ کے ذریعہ نمٹایاجاسکتا ہے۔
اسطرح گواہ کا تحفظ ان عدالتوں کے ذریعے آسان ہوتا ہے۔جبکہ خواتین اور بچوں
کے کیسوں کی شنوائی کے لئے شام کی عدالتوں کا تجربہ کیا جارہا ہے۔خدا کرے
کہ یہ تجربہ کامیاب ہو جائے تا کہ وطن عزیز میں جد از جلد انصاف کی فراہمی
ممکن ہو سکے۔ |