خوشیاں مناؤ، حضور ﷺ آگئے

 انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ حصولِ نعمت پر اظہارِ مسرت کرتا جبکہ زوالِ نعمت پر غمگین ہوتا ہے۔آسانی میں خوشی اورتکلیف میں غم کاپیداہونافطری عمل اورانسانی جبلت و طبیعت کا لازمی جز ہیں۔حصول نعمت یعنی خوشحالی اورزوال نعمت سے مرادہے تنگدستی۔خوشحالی اورتنگدستی ،خوشی بھری زندگی اورمشکلات میں پسی سسکتی زندگی کے درمیان صدیوں کے فاصلے ہونے کے باوجودایک چیزمشترک ہے۔انسان حصول اورزوال نعمت دونوں حالتوں کے اندرطالب رحمت رہتاہے یعنی اﷲ تعالی کی رحمت نہ ہوتوخوشحالی بھی تکلیف دہ ہوسکتی جبکہ تنگدستی کی حالت میں رحمت الٰہی کاساتھ ہوتوزندگی باغ وبہارہوجاتی ہے۔اﷲ سبحان تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو بیشمارنعمتوں سے نوازاہے جن کا احاطہ کرنا انسان یاکسی اورمخلوق کیلئے ممکن نہیں۔ اﷲ سبحان تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشادِفرمایا ’’ اور اگر تم اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انھیں گن نہیں سکتے‘‘ایک اورمقام پرسورۃ الرحمٰن کے اندر ارشادفرمایا’’تو اے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے‘‘اﷲ تعالیٰ کی بیشمارنعمتوں کے نزول کے بعد بھی مخلوق جس چیزکی طالب رہی اسے ہم رحمت کہتے ہیں۔بیشمارنعمتوں کی موجودگی کے باوجودخالق ومالک کی رحمت شامل حال نہ ہو توبات نہیں بنتی۔ہمارے لئے قابل غوروفکر بات یہ ہے کہ جومخلوق اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمارنہیں کرسکتی وہ مالک کی رحمت کی پہچان یاتلاش کیسے کرپاتی؟بیشک اﷲ تعالیٰ ہی رحمت فرمانے پرقدرت رکھتاہے،یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ بیشک انسان نعمتوں کوشمارنہیں کرسکتاپھربھی دستیاب نعمتوں کواپنی زبان میں پکارتااورپہچانتاہے،اُن کے ذائقے،خوشبو اوردیگرفوائدسے واقف ہے ،ہزاروں نعمتوں کی موجودگی میں خوشحال حالات کے باوجودجس چیزکی طلب باقی رہتی ہے وہ ہے رحمت ،اب انسان یہ فیصلہ کیسے کرئے گاکہ رحمت کیاچیزہے؟نعمتیں ہم کھاتے،پیتے،پہنتے ہیں۔تمام نعمتیں جس جسم وجان کے کام آتی ہیں وہ خودبھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں شمارہوتے ہیں۔اس بات کافیصلہ اوراعلان اﷲ تعالیٰ نہ فرماتاکہ رحمت کیاہے تومخلوق کی بیتابی کبھی ختم نہ ہوپاتی،رحمت کی طلب پوری ہوناتودورکی بات تھی پہچان ہی نہ ہوپاتی،بیشک اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پرمہربانی فرماتاہے۔خوشحال ہویاتنگ دست کوئی بھی انسان اﷲ سبحان تعالیٰ کی نعمت کے حصول پرناخوش یاغمگین نہیں ہوتاتوپھرکیسے ممکن ہے کہ کوئی رب رحمٰن کی جانب سے عظیم رحمت حاصل ہونے پرخوشی نہ منائے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندرنبی کریم ﷺکومخاطب کرکے ارشاد فرمایا’’اور (اے رسولِ محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘(الانبیاء21: 107)تمام جہانوں کامطلب کہ ہم انسان جن مخلوقات سے واقف نہیں جن مقامات تک ہماری رسائی ممکن نہیں میرے اورآپ کے آقاحضرت محمدﷺکواﷲ سبحان تعالیٰ نے اُن مخلوقات اورمقامات کیلئے بھی رحمت بنایاہے۔میرے مطالعے اورعلم کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے آپ سرکارﷺ کے علاوہ کہیں کسی کورحمت کالقب نہیں دیااور قربان جاؤں اپنے کریم آقاوحادی ﷺ کی شان وشوکت کے جن کورب رحمٰن نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنایا۔الحمدﷲ ہماراشماربھی اﷲ تعالیٰ کے جہانوں میں شامل ہے، اُن مخلوقات میں شامل ہے جواﷲ سبحان تعالیٰ کی رحمت یعنی اپنے پیارے نبی کریم ﷺکی آمد،سرکاردوعالم کی ولادت باسعادت کی خوشی مناتے اوراپنے رب تعالیٰ کاشکراداکرتے ہیں۔سرکاردوعالم ﷺ نے بیٹی کوباعث رحمت فرمایا،ماں،بہن اوربیوی سمیت دنیاکی تمام خواتین کی عزت واحترام کے احکامات فرماکرعورت کومعاشرے میں ایسامقام ومرتبہ عنایت فریاجس کاتصوربھی ممکن نہ تھا۔ایسے کریم آقاﷺ کہ نہ صرف انسانوں بلکہ جنات،جانوروں،درختوں،پرندوں اورکیڑوں مکوڑوں سمیت کائنات کی تمام مخلوقات کی فلاح و بقاء کادرس فرمایاہے۔ قارئین آپ جانتے ہیں کہ جب ہم اپنے عزیزواقارب،بہن بھائی اوربچوں کایوم ولادت یعنی سالگرہ مناتے ہیں توہمارے دل کوخوشی ملتی ہے۔مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مختلف طریقوں سے خوشی مناتے اورخوشی کااظہارکرتے ہیں،اب یہ فیصلہ کرناضروری ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے یوم ولادت باسعادت کی خوشی منانے کاطریقہ کیاہوناچاہئے؟اس سوال کے جواب کیلئے کسی ایسی ہستی کی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے جو نہ صرف ہمارے لئے قابل اعتمادواحترام ہوبلکہ اﷲ تعالیٰ،رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں مقبول ومنظوربھی ہو۔مرشِدسرکارعظیم روحانی پیشواسیدعرفان احمد شاہ المعروف نانگامست بابامعراجدین فرماتے ہیں’’ربیع الاول بڑا برکتوں والا مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میں رحمتیں اور برکتیں آئی ہیں، انسان یعنی مرد و عورت کی قدر و قیمت کاپتاچلا، الحمدﷲ ربیع الاول خوشی سے منانا چاہیے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تواس کی سالگرہ منائی جاتی ہے خوش ہوا جاتا ہے۔ یہ سب کو علم ہے کہ دنیا چھوڑ کے چلے جاناہے، جب بچہ پیدا ہو تاہے توشریعت کے مطابق سب سے پہلے اس کا عقیقہ کیا جاتا ہے بیٹا پیداہوتو دو بکرے ذبح کئے جاتے ہیں اور بیٹی ہو تو ایک بکرا ذبح کرنے کاحکم ہے،کیونکہ اﷲ سبحان تعالیٰ،رسول اﷲﷺ کا حکم ہے یہ خوشی کی نشانی ہے تو جو بھی پیدا ہوتا اس نے دنیا چھوڑ کے جانی ہوتی ہے، پہلے خوشی منانے کا حکم ہے باقی معاملے بعد میں،خوشی مسلسل رہتی ہے جبکہ افسوس تین دن کیا جاتاہے ،جب ہمارے عزیز،عقیدت مند ہماری سالگرہ کی خوشی مناتے ہیں،کوئی بکرے ذبح کرتاہے،کوئی لنگرتقسیم کرتاہے توہم اورہماے فیملی والے خوش ہوتے ہیں۔جب ہم رسول اﷲ ﷺ کے یوم ولادت پر خوشی مناتے ہیں اﷲ سبحان تعالیٰ خوش ہوتاہے،جب اﷲ تبارک تعالیٰ و رسول اﷲ ﷺ خوش ہوتے ہیں تو کائنات کی ہر مخلوق خوش ہوتی ہے،تمام انبیاء کرام خوش ہوتے ہیں،اﷲ تعالیٰ کے فرشتے خوش ہوتے ہیں،ہمیں یہ خوشی منانی چاہیے ، مسلمان ربیع الاول کے مہینے میں خوب خوشی منائیں، لنگر کھائیں، کھلائیں،فرض نمازوں کے ساتھ نوافل اداکریں،قرآن مجید کی تلاوت کریں،پیارے نبی کریم ﷺ پرخوب خوب دروداسلام بھیجیں،اس بات کاخیال رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حلال و طیب رزق کھانے اورکھلانے کاحکم فرمایاہے،حلال وطیب لنگربنانے والانمازی ہو،کھلانے والانمازی اورباوضوہوتواﷲ پاک بڑی رحمت فرماتاہے،بڑافضل فرماتاہے،خیال رکھیں خوشی منانے کاکوئی بھی ایساطریقہ جودوسروں کیلئے مشکلات پیداکرے یامعاشرے میں بگاڑپیداکرنے کاسبب بنے اس سے اﷲ تعالیٰ اور،رسول اﷲﷺ نے سختی سے منع فرمایا،کسی کے ساتھ مت الجھیں،دوسروں کیلئے آسیانیاں پیداکرنے کی کوشش کریں اوراپنے آقاکریم ﷺکے یوم ولادت باسعادت کی خوب خوب خوشیاں منائیں،آمدمصطفے،مرحبا،مرحبا،سرکارکی آمدمرحبا،مرحبا
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.