تحریر: نور بخاری
کیا بچے باغی ہو رہے ہیں ؟ بچے بدتمیز ہو رہے ہیں؟ کیا بچے بات نہیں مانتے؟
اگر ان سوالوں کا جواب ہاں ہے تو کیا وجہ ہو سکتی۔ ماؤں کا لاپرواہ ہونا؟
سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال؟ واہیات ٹی وی پروگرامز اور کارٹونز کی
فضول اور بے تکی کہانیاں؟ غلطی کہاں پر ہے؟ کہیں بچوں کی بگڑنے کی وجہ
والدین کی بے جا روک ٹوک ہے اور کہیں صحیح غلط کا بتایا نہیں جانتا۔
قصور وار اگر میڈیا ہے تو والدین بھی اتنے ہی قصوروار ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے
دور میں والدین پر دوہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ بچے کیا کرتے ہیں ، کہاں
آتے جاتے ہیں، سوشل میڈیا کا استعمال کس حد تک کرتے ہیں، کس قسم کے ٹی وی
پروگرام دیکھتے ہیں غرضیکہ ہر ہر بات سے والدین کا باخبر ہونا بہت ضروری ہے۔
پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ بچوں کو بے جا آزادی ہم لوگوں نے خود دی ہے۔ والدین
بس یہ چاہتے ہیں کہ بچہ بہت اچھے نمبر لے۔ اساتذہ بچوں کو صرف پڑھاتے ہیں
بلکہ رٹہ سسٹم کہہ لیں کہ بس بچے اچھے نمبر لیں ان کو بچوں کی تربیت سے
کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بچے ہمارے ان نام نہاد سکولوں میں 99 فیصد نمبر لے کر
بھی ناخواندہ ہوں تو ذمے دار کون ہوا؟
بچوں کی تربیت کے لیے جو باتیں والدین کو ذہن میں رکھنی چاہیے وہ درج ذیل
ہیں۔
ایک سال سے تین سال کے بچے پر کوشش کریں کہ کم سے کم روک ٹوک کریں۔ بچے کو
جھنجھلاہٹ کا شکار مت ہونے دیں۔ اتنی چھوٹی عمر کے بچے کوئی کھلونا دینا
اور اس کے پکڑنے سے پہلے پیچھے کر لینا اور بار بار یہی عمل دہرانا بچے میں
بے یقینی پیدا کرتا ہے اور بچہ چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ان سے بڑے بچوں کے سامنے
دھیمے لہجے میں بات کی جائے۔ بچے کے سامنے موبائل کا استعمال بالکل بھی نہ
کیا جائے اگر ضرورت ہو تو بھی کوشش کی جائے کہ کم سے کم استعمال کیا جائے۔
ایک بات یاد رکھیں بچہ بہت تیزی سے چیزوں کو سیکھتا ہے۔ بچوں کے سامنے
جھگڑنے سے گریز کریں۔ یاد رکھیں آپ جو بچوں کو سکھانے کے لیے اچھی اچھی
باتیں کریں گے وہ ان کو کم سیکھیں گے بلکہ آپ جو ان کے سامنے عملی طور پر
کریں گے وہ بہت جلد سیکھیں گے۔ تو آپ کوشش کریں کہ بچوں کے سامنے کسی کی
برائی نہ کریں، کسی سے جھوٹ مت بولیں، اونچی آواز میں مت چلائیں۔
کبھی بھی کسی بھی عمر کے بچے کا کسی دوسرے سے موازنہ مت کریں۔ بات بات پر
دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں کو نماز
پڑھنے کی عادت ڈالیے۔ بچوں کی تربیت اسلامی طریقے سے کریے۔بچوں کو بچپن سے
ہی نماز کی عادت ڈالیں۔ بچوں کو سچ بولنا سکھائیں۔ یاد رکھیں بچوں کی جتنی
بہتر آپ تربیت کرنا چاہتے ہیں آپ کو خود کو اتنا بہتر بنانا پڑے گا۔ بچے آپ
کو جو عملی طور پر کرتا دیکھیں گے وہ جلدی سیکھیں گے۔بچوں کو مکمل وقت دیں۔
ان سے سارے دن کا احوال پوچھیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو سراہیں۔ ان کی
حوصلہ افزائی کریں۔ کبھی بھی اپنے بچوں کے درمیان مقابلے کی فضا مت پیدا
ہونے دیں۔ کوشش کریں کے بچے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ بچوں کو دوسروں کے
سامنے ڈانٹنے سے گریز کریں۔
10 سے 15 سال کے بچوں کو ایسے طریقے سے توجہ دیں کہ ان کو محسوس نہ ہو آپ
اس پر سختی کر رہیں ہیں۔ کیونکہ یہ عمر کچھ بیوقوفانہ ، باغی سی ہوتی ہے۔
بچے ہر چھوٹی بڑی بات پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ عمر کا بہت
نازک اور جذباتی دور ہوتا ہے۔ اس عمر کے بچوں کے دوستوں پر بھی نظر رکھیں۔
کوشش کریں کہ آپ بچوں کے دوست بن جائیں اور ان میں اعتماد پیدا کریں کہ وہ
آپ کو ہر بات بتائیں۔ بچے اگر اچھے نمبر نہیں لے سکے تو ان پر بے جا تنقید
مت کریں۔ ان کے موبائل بھی نظر میں رکھیں۔ ان کی کیا سرگرمیاں ہیں تمام
معاملات میں آپ کی نظر ہونی چاہیے۔بچوں کے بدلتے ہوئے رویوں کو نظرانداز
نہیں کرنا چاہیے۔
آج کل میڈیا بہت فاسٹ جا رہا ہے ہر طرح کی ویب سائٹس، ویڈیو گیمز، انسٹا،
فیسبک، ٹویٹر، ٹک ٹوک، سنیپ چیٹ وغیرہ بہت جلد عادی بنا لیتے اپنے استعمال
کرنے والوں کو۔ کوشش کریے کہ آپ کے بچے ان چیزوں کے عادی نہ ہو جائیں۔ کبھی
بھی میڈیا، موبائل، یا ٹیلی ویڑن کو اجازت مت دیں کے وہ آپ کے اور بچوں کے
درمیان حائل ہو جائیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کی ضروریات زندگی مشکل سے پورا کر
رہے ہیں اور سہولیات نہیں دے سکتے تو آپ اپنے بچوں کو قناعت پسند بنانے پر
توجہ دیں تا کہ آپ کے بچے دوسرے لوگوں کو سہولیات زندگی سے لطف اٹھاتا دیکھ
کر احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
اگر آپ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ انہیں بہت ساری سہولیات بھی
دے رہے ہیں تو ان کی تربیت اس انداز سے کریں کے وہ بے حسی کا شکار نہ ہو
جائیں کیونکہ احساس برتری مغروریت سے بے حسی تک بھی لے جاسکتا ہے۔ سو آپ
خود کو بہتر بناتے ہوئے اپنے بچوں کو بہترین بنا سکتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کی
اچھی تربیت کریں۔ انہیں احساس مند ذمے دار شہری بنا کر اپنے وطن کے لیے کام
کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اچھی اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ |