ہمارا مقصد چونکہ ذہن کے بند دریچے کھولنے کی کوشش ہے اس
لیے ہم ذیل میں چند معاشرتی رویوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی ذات کا
خود ہی جائزہ لے کے اپنے بارے کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت کر لیں:
کیاآپ سنی سنائی باتوں سے خود متاثر ہوتے ہیں ، افوائیں شوق سے سنتے ہیں
اور خوش دلی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اور جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض گپ
تھی تو کوئی افسوس نہیں ہوتا اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہْ سب لوگ ہی ایسا
کرتے ہیں
کیا آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اسی لیے جھوٹے لوگوں سے نفرت ہے یا اپنا گناہ
ہلکا مگر دوسروں کا بھاری نظرآتا ہے
کیا آپ اپنے گھر والوں، عزیز و اقار ب اور دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں یا ان
کے اقوال و اعمال کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا دوسروں کا آپ کے اقوال
و اعمال پر شک کرنا ان کا حق ہے یا یہ رویہ ہی غلط ہے
کیا اس بارے سوچتے ہیں کہ خود، خاندان ، محلہ اور گاوں کیوں پسماندہ ہے۔
کیا سوچنا ، غور کرنا آپ کا کام نہیں ہے اور اگر سوچتے ہیں تو کیا کوئی بھی
ایسا عمل نامہ اعمال میں موجود ہے جس کو نکال کر دکھا سکیںیا آپ محض گفتار
کے غازی ہیں
کیا اپنے والدین، معاشرے سے شاکی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر والوں اور
معاشرے کو آپ کی سوچ کےمطابق تبدیل ہو جانا چاہیے، مگر آپ خود تبدیل ہونا
پسند نہیں کرتے
کیا آپ بڑی شخصیات سے مرعوب ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ لوگ کیسے اور
کیوں بڑے ہو گئے ہیں، کہیں بھیڑ چال کا شکار تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی ان
میں کوئی بڑا پن ہے تو کیا آپ نے ان سے کچھ سیکھا ہے؟
کیا آپ کے خیالات اور اعتقادات کی بنیاد راسخ ہے ، آپ نے اپنا عقیدہ اور
نظریہ سوچ سمجھ کر ، چھان پھٹک کر اپنایا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟
آپ نے اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کی پلاننگ کی ہے یا خود کو حالات کے رحم
و کرم پر چھوڑا ہوا ہے، جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منزل کا معلوم نہیں ہے
بلکہ میں قافلے کا حصہ ہوں جہاں قافلہ اترے گا ، سب کے ساتھ وہی میری منزل
ہے؟
جس معاشی غربت اور معاشرتی پسماندگی کا شکار ہیں کیا آپ نے اب تک اس کو کم
کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے اور اب تک اپنی اس کوشش میں کتنے فی
صد کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ یا اس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد آپ
اور آپ کے خاندان کے معاشی اور معاشرتی حالات خود بخود بدل جائیں گے؟
آپ کے پاس حالات بدلنے کا زبردست پلان موجود ہے مگر اس معاشرے اور اس ملک
میں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے اس لیے آپ پہلے انقلابیوں کے ساتھ مل کر
انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔آپ کا سیاسی رہنماء آپ کو یقین ہے آپ لیے اپنی
جان کی بازی لگا دے گا اورآپ کا یہ یقین اس کی باتیں سن کر نہیں بلکہ اس کا
ماضی کا عمل دیکھ کر پختہ ہوا ہے؟
آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماء معاشرتی تبدیلی کے لیے آپ کی
توانائیوں اور مالی مدد کا خواہاں ہے آپ اس کی تنظیم میں متحرک ہیں آپ کی
بات سنی جاتی ہے ، آپ اپنی مالی مدد کا حساب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ رہنماوں
کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟
آپ کے دینی رہنماء نے آپ کودین بہتر طور پر سمجھایا ہے، اس کا مطالعہ وسیع
ہے وہ راست گو ہمدرد ہے ، اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک اور دوسرے ادیان
کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، خود اس کا اپنا ذریعہ روزگار ہے اور اس
نے فقر کو امارت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ آپ جو بھی نذرانہ اس کو پیش کرتے ہیں
وہ اس کی ذات اور خاندان پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟
آپ اپنے سیاسی یا مذہبی رہنماء کی مخالفت میں کچھ بھی سننے سے لئیے تیار
نہیں ہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے رہنماء کی ذات پر یقین ہے کہ
وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا
*آپ خود ان سوالوں کے جواب اپنے پاس لکھ کر فیصلہ کریں کہ آ پ دماغ سے
سوچتے ہیں یا دل سے ؟
اور یاد رکھیں جو لوگ دل سے سوچتے ہیں ان کی شخصیت کو عقل والے زینہ بنا کر
مزید کامیابی کا ایک زینہ طے کر لیتے ہیں
|