دسمبر کی سردی، کینٹین کی مسحور کن فضا، اور اس میں ہر
میز پر گرم چائے، چائے سے اٹھتا ہوا دھواں اور پھر گرما گرم بحث، لیکن
نجانے کیوں یہاں ہر شخص اپنی بات ادھوری چھوڑ دیتا ہے، ایک صاحب کے بقول
یمن کی خانہ جنگی میں 85 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ عالمی
برادری چپ سادھے ہوئے ہے ، ایک سروے کے مطابق یمن میں ہر گھنٹے میں ایک بچہ
بھوک سے دم توڑ دیتا ہے ۔
اتنے میں کسی نے بی بی سی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ خبر اپنے گھر کی
بھی لیں،کراچی میں بچوں کی گمشدگی پر پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔
اس سال کراچی سے 146 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، جبکہ 2013ء میں 2,736 بچے لاپتہ
ہوئے تھے۔ گفتگو میں پاکستان سے بچوں کو اغوا کرکے اعضا فروخت کرنے کیلئے
تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا۔
اتنے میں کسی نے کہا کہ ممکن ہے اس دھندے میں کچھ اوپر کی سطح کے لوگ بھی
شامل ہوں جیسا کہ دوسال پہلے سابق سیکشن افسرعمر شہاب کو گرفتار کیا گیا
تھا جو بچوں کے گردے، جگر اور دیگر اعضاء نکال کر بھارت فروخت کرتا تھا
اوروہ کویت میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات رہ چکا تھا۔
ابھی بات آدھی ہی تھی کہ کسی نے پاکستان میں قائم میڈیا کے حقوق کے لیے
سرگرم ایک ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کا ذکر چھیڑ دیا، فریڈم نیٹ
ورک (ایف این) نے میڈیا کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پریس آزادی
بیرومیٹر 2018 کے تحت یکم مئی، 2017 سے یکم اپریل 2018 کی نگرانی کی رپورٹ
جاری کی جس کے مطابق میڈیا کے خلاف کم از کم 157حملوں اور خلاف ورزیوں کے
واقعات چاروں صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے۔ “یہ
ایک ماہ میں اوسط خلاف ورزیوں کے تقریبا 15 واقعات ہیں۔یعنی ہر دوسرے دن
ایک حملہ۔
اسلام آباد کے بعد صحافیوں کے لیے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر
پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ
فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ وفاق کے زیر انتظام
قبائلی علاقوں میں سب سے کم حملے یعنی آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ یہاں
مجموعی 157 میں سے محض تیرہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔
یہ سوچا جانا چاہیے کہ وہ یمن میں بچوں کی شہادتیں ہوں یا کراچی میں بچوں
کی سمگلنگ ہو یا اسلام آباد میں صحافیوں کا قتل، اس کے پیچھے عالمی برادری
کی خاموشی کا کیا کردار ہے لیکن درد کی یہ زنجیر یہیں نہیں ٹوٹتی بلکہ اگست
۲۰۱۸ کی یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)
جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے
آج تک لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ یعنی ابھی تک مسنگ
پرسنز کے حوالے سے قانون سازی کا پہلو تشنہ ہے۔
کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سکول ٹیچر، ریڑھی بان،
دکاندار، ادیب ، صحافی ، پروفیسرالغرض ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اب کس کے
پاس وقت ہےکہ وہ جائے اور گنتی کرے کہ کس طبقے کے کتنے لوگ لاپتہ ہیں،اس کے
لئے بھی باقاعدہ ایک ایسےقومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے جوہر طرح کے دباو
سے آزاد ہو، اور اگر کوئی یہ سارا ڈیٹا جمع کربھی لے تو اسےخاطر میں کون
لائے گا!؟ اور پھر اس ساری محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اتنے میں ایک صاحب نے مشتاق احمد کاملانی کا قصہ چھیڑا اور بولے ۱۹۸۰ میں
مشتاق کاملانی کاشمار معروف کہانی نویسوں اور ادبا میں ہوتا تھا، مشتاق
کاملانی کو سندھی ، پنجابی، اردو اور انگلش پر عبور تھا، انہوں نے بہت سی
کہانیاں لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش
وانی‘ سے بھی نشر ہوئیں ، انہوں نے ضیاالحق کے دور میں "گھٹی ہوئی فضا" کے
عنوان سے ایک کہانی لکھی ،کہانی چھپ گئی جبکہ ان کا ناول ابھی پریس ہی میں
تھا، جب انہیں اپنی کہانی کے لیے حیدرآباد میں ادبی دوستوں نے بلایا اور
انہیں ایک ریڈیو انعام میں دیا۔ابھی کاملانی صاحب حیدرآباد سے لوٹ ہی رہے
رہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسرے دن اس پریس پر چھاپہ پڑا، جہاں
سے ان کا نیم چھپا ہوا ناول “رولو” ضبط کیا گیا اور اس پریس کو بھی بند
کروادیا گیا….!!اس کے بعد لوگوں نے جب کاملانی کودیکھا تو مسٹر کاملانی
پاگل ہوچکے تھے۔
چائے کی میز پر مختلف باتیں ہو رہی تھیں، ان سب باتوں میں انسان کی بے بسی
اور سماج کی بےحسی قدرِ مشترک تھی، اور باتوں کے بیچ میں جو بات بار بار
اٹھائی جارہی تھی وہ یہ تھی کہ دنیا کے نقشے پرمظلوم بکھرے ہوئے ہیں اور
ظالم متحد ہیں، ملک کوئی سا بھی ہو مظلوم جتنا بے بس ہوتا جاتا ہے مقتدر
ادارے اتنے ہی بے لگام اور بے حس ہوتے جاتے ہیں۔مظلوموں کی موثر ترجمانی کے
لئے کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے!؟ اور ہماری کوششوں کا کیا نتیجہ نکل
سکتا ہے؟
اتنے میں ایک صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ آپ بھی کچھ بولئے، میں
نے کہا دوستو! ہم مانیں یانہ مانیں، یمن کا المیہ،مسنگ پرسنز،گمشدہ افراد،
لاپتہ بچے اور صحافیوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا حقیقی حصہ ہے ۔ایک محقق،
کالم نگار، ادیب یا صحافی کبھی بھی اس کرب سے آنکھیں نہیں چرا سکتا جو کرب
شہید یا لاپتہ ہونے والے بچوں، قتل ہونے والے صحافیوں یا مسنگ پرسنز کے
لواحقین کو لاحق ہوتا ہے۔
اگر آپ ادیب ہیں اور معاشرے کی نبض کو دیکھنے کے ماہر ہیں، اگر آپ محقق
ہیں اور سماج کے اتار چڑھاو کو سمجھتے ہیں، اگر آپ قلمکار ہیں اور درد کو
الفاظ میں ڈھالنے کاہنرجانتے ہیں،اگرآپ کی بات میں دم ہے اور آپ کے نکات
میں وزن ہے تو پھر کوئی آمر ، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی دشمن آپ کی تحریر کو
اشاعت سے نہیں روک سکتا اور اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر کسی کی سفارش
یا رشوت آپ کو محقق یا ادیب نہیں بنا سکتی۔
ادیب اور محقق کا قلم معاشرے کی نبض ہوتا ہے، ہمارے ارد گرد اس وقت بے بسی
اور بے حسی کے درمیان لڑائی جاری ہے،ایک طرف بے بس عوام ہیں اور دوسری طرف
بے حس حکمران، اگر ادیب اور محقق بے حسی سے آنکھیں چرائے اور بے بسی کو
بیان کرنے سے کترائے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا۔ بے بسی
اور بے حسی کی اس لڑائی میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے اور نتیجہ خدا
پر چھوڑ یے۔ |