یو تو بیٹے کا مان سب کو ھوتا ہے لیکن بیٹی کی چاہت صرف
نصیب والوں کو ہوتی ہے ننھی پری جو نہ صرف گھر کا سکون چین ہے بلکہ ماں باپ
کی آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہے ۔بیٹی تو وہ پھول ہے جو ھر باغ میں نہیں کھلتا جس
باغ کی معطر خدا کو زیادہ پسند ہوتی ہے پھول وہی کھلتا ہے لیکن آج کے دور
میں بیٹی کو مصیبت کی پرچھائی سمجھا جاتا ہےآج کے دور میں بھی بیٹے کو بیٹی
پر مان دیا جاتا ہے-
بیٹی کی ذات اگر مقدس نہ ھوتی تو کبھی بھی اس کا آغاز آپﷺ کے گھرانے سے نہ
ھوتا ۔جاہلیت کے دور سے ہی بیٹیوں کو برا سمجھا جاتا تھا واحد یہ اسلام
ہےجس نے بیٹیوں کو نہ صرف عزت بخشی بلکہ ان کو ایک الگ مقام دیا جس کا اس
بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں سورۃ مریم سے لوگوں کی
رہنمائی کی ہے جس کا مقصد تاریخی میں ڈوبے لوگوں کو بتانا تھا کہ بیٹی زحمت
نہیں رحمت ہے-
آپﷺ نے واصح فرمایا کہ بیٹی کو برا نہ کہو کہ میں بھی بیٹیوں کا باپ ہو جس
سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے بیٹی کو ایک الگ مقام دیا ہے ننھی پریاں کسے پر
بوجھ نہیں ہوتی کم ظرف لوگوں کےلیے بیٹیاں بوجھ ہوتی ہے خدا جب خوش ہوتا ہے
تو زمپن پربیٹی پیدا کرتا ہے اور اللہ فرماتا ہے کے آج سے اس بیٹی کے باپ
کا بازوہوں بیٹیاں تو قوس وقزح کے رنگوں کی مانند ہوتی ہے جو ماں باپ کے
لیے فخر با عث ہوتی ہے آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے بیٹیوں کی اچھی تربیت کی اور
ان کو پڑھایا لکھایا ان کے فرائص انجام دئے تو وہ جنت میں چاہے جس دروازہ
سے جایے جا سکتا ہے-
حالانکہ بیٹیاں رحمت کا ذریعہ ،بخشش کا ذریعہ اور جہنم کی ڈھال ہے پھر بھی
ان کو سمجھا نہیں جاتا بیٹیوں کو بیٹا بھی کھا جاتا ہے جبکہ بیٹوں کو بیٹی
نہیں کہا جاتا ۔بیٹیا ں لاکھ بری سہی لیکن جب ماں باپ کی عزت پر بات آجاتی
ہے تو جان بھی قربان کر دیتی ہے -
جب بیٹیاں بڑی ہو جاتی ہے تو ماں باپ کی عزت کی پرچھائی بن جاتی ہے اس لیے
ماں باپ کو چایئے کہ جب بیٹیاں بڑی ہوجاے تو شک کی دیوار اونچی کرنے کے
بجاے بیٹی کے پاوں کی زنجیر کھل دینی چایے کیونکہ بیٹی کا بہترین محافط اس
کا باپ ہے اور جب باپ کی پگڑی کی بات آجاے تو یہ بیٹیا ں اپنے سارے خواب
قربان کردیتی ہے اس لے بیٹیاں زحمت نہیں رحمت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |