لسانیات و معاشرتی شعور۔

زبان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی کہ انسانی شعور کی، شعور (بلکہ خود شعوری) کی نعمت سے دوسرے جاندار محروم ہیں، اسی لئے وہ زبان سے بھی محروم ہیں، بس مختصر اشارے، کنائے اور چند آوازیں ہیں جن کی مدد سے یہ بے زبان مخلوقات ضرورت کے وقت ایک دوسرے کو کچھ پیغامات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ کسی بھی جاندار کا کُل موادِ مواصلات اس جاندار پہ بِیتَتی صورتِ حال ہے، وہ بھی خالصتاً نفسی، یعنی کہ مخصوص وقت میں مخصوص نفسی خواہش کے اظہار کی صلاحیت جانداروں میں موجود ہے، جیسا کہ بھوک، خوف، جنسی خواہش وغیرہ، اس سے زیادہ کی "گفتگو" کے وہ اہل نہیں۔

حضرتِ انسان کی گفتگو جب مخصوص صورتِ حال سے نکل کر ماضی کی یادوں، مستقبل کے ارادوں اور حال کے تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں تک پھیلی تو تدریجاً شعورِ آدم کی پرواز بلندتر ہوتی دکھائی دی، اس ارتقاء کو حقیقی انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے،

ابتداء میں آلاتِ اظہار بہت محدود تھے، کسی تصویر یا شکل، ہندسے، اشارے یا مخصوص آواز وغیرہ سے مدد لی جاتی تھی، وقت کے ساتھ جب اجتماعیت نے زور پکڑا اور معاشرے وجود میں آنا شروع ہوئے تو انسان کو ذرائع اظہار وسیع تر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اسی ضرورت نے ذہن کے تصوّراتی مرکز کی پرورش کی، کہ اشارہ جات و مخصوص آوازیں جو مختلف اشیاء کے متعین نام تھے ، ان کا زبانی تلفّظ ادا کرتے وقت ان اشیاء کی باقاعدہ تصویر اور اس کی متعلقہ خصوصیات کا نقشہ ذہن میں بننا شروع ہوا، یہی شعور کے پھیلاؤ کا نکتۂ آغاز ہے، یہیں سے باقاعدہ زبانوں نے جنم لیا، ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ انسانی شعور کی وسعت نے بھی خوب پر پھیلائے، شعور اور زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، بچوں کی پرورش کے دوران اس نکتے کا خوب مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

ہر لفظ جو آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے، اس لفظ کی باقاعدہ ایک تصویر یا خاکہ آپ کے ذہن میں بنتا ہے، الفاظ کے ذخیرے کے ساتھ یہ تصاویر اور خاکے بڑھتے جاتے ہیں، ذہن کی صلاحیتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں، ان الفاظ کی ادائیگی کو اگر شاعری ،اور ذہن میں بنتی تصاویر کو مصوّری سے تعبیر کیا جائے تو یہ جان لیجئے کہ انہیں شاعری اور مصوری کے درمیان رابطے کا نام، تخلیقی وتخلیاتی صلاحیت، ہے، یہ رابطہ جتنا مضبوط ، خوبصورت، فصیح اور بلیغ ہو گا، ذہن میں مذکورہ صلاحتیوں کے پیدا اور بیدار ہونے کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے۔
انسان اپنی تقریر و گفتار میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے، اور انہیں ضروری شکل دیتے ہوئے ان کا تجزیہ کر پاتا ہے، یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ اپنے کہے الفاظ کا صحیح مفہوم یا ان کی شدّت ،انسان دوسروں کے دئیے ردِ عمل سے ہی سمجھ پاتا ہے،

اس بات سے ہر شخص واقف ہے کہ ابتدائی عمر میں ذہن پر بنے نقوش مضبوط تر ہوتے ہیں، یہی معاملہ شعور و زبان کے درمیان ہے، انسان جس زبان کو اپنے بچپن میں سیکھتا، سنتا اور بولتا ہے، اس زبان کا اثر اس کے ذہنی شعور میں گہرا تر ہوتا ہے ، وقت کے ساتھ مختلف زبانیں سیکھنے کے باوجود عموماً انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے (قومی زبان بھی مادری زبان کا درجہ لے سکتی ہے، اگر روزمرہ بنیادوں پر اسی زبان میں امورِ زندگی انجام دییے جا رہے ہوں، مگر شرط یہی ہے کہ یہ ابتدائی عمر میں ہی سیکھی گئی ہو)، اور ایک ایک حرف کی اہمیت اس کے ذہن ، شعور، حتی کہ کردار پہ نقش ہوتی ہے، اس کی باقاعدہ مثال دی جا سکتی ہے، کسی شخص سے اظہارِ محبت کرنے کیلئے آپ اپنی مادری زبان میں جو مشکل محسوس کرتے ہیں، وہ I love you بولنے میں محسوس نہیں کرتے، اسی طرح "میں آپ سے معافی مانگتا ہوں" کہتے وقت دانتوں پہ پسینہ آتا محسوس ہوتا ہے، مگر sorry کہنا انتہائی آسان ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر زبان کے الفاظ کے معانی جاننے کے باوجود ہم ان الفاظ کی شدّت سے واقف نہیں، الفاظ کا صحیح وزن صرف اپنی زبان میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے، یہی معاملہ ذہن کی تخیلاتی و تخلیقی صلاحیتوں کا ہے، یہ تمام صلاحیتیں صرف تب ہی برؤئے کار لائی جا سکتی ہیں جب مکمل تعلیمی نظام اسی زبان میں ہو جس زبان میں آپ سوچتے ہیں، یعنی کم ازکم قومی زبان میں، اگر ایسا نہیں تو تعلیم کیلئے میسّر زبان جاننے کے باوجود آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری کا سامان کرنے سے قاصر ہیں۔

زبان کے دو ہی مقاصد ہیں، وسیلۂ مواصلات اور آلۂ تخیّل، اول الذکر سے تمام ارباب واقفیت رکھتے ہیں، مگر اس طرف بہت کم دھیان جاتا ہے کہ فکر کی حسّاسی بنیاد کا سہرا زبان کے سر ہے، شعور کا نہ صرف اظہار بلکہ تشکیل بھی زبان کی مرہونِ منت ہے۔ ان دو کے درمیان تعلق قطعاً اجمالی نہیں، بلکہ خالصتاً عضلاتی ہے، ایک کو دوسرے سے جُدا گرداننے کی کوشش ، زبان و شعور، دونوں کیلئے باعثِ تباہی ہوگا۔

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 5 Articles with 4462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.