دنیا بھر میں معذور افراد کی صلاحیتوں اور عزم و ہمت کی
داستانیں تاریخ کا درخشنداں باب ہیں ۔ بین الاقواامی شہرت رکھنے والے مایا
ناز معذور افراد جنہوں نے عزم و ہمت سے کام لیا اوراپنی خوابدیدہ صلاحیتوں
کو اپنی معذور ی پر ہاوی رکھا ۔ آج وہ کرہ ارض پر جسمانی معذوری کے باوجود
قابل ذکر مثال ہیں ۔ فرین کلن،ٹینی گرے،تھومس ایڈیسن،سٹیفن ہاؤکنگ ، البرٹ
آئین سٹائین ہو ں یا پاکستانی نو منتخب جج یوسف سلیم، پیس ٹو لائف فاؤنڈیشن
کے وقاص ، سوشل ورکرمنیبہ مزاری اور دیگر نامور لوگ جنہوں نے معذور ی کو پس
پشت ڈالا اور اپنی قوت ارادی اور جہد مسلسل سے زندگی کو جینا سکھایا۔ منیبہ
مزاری کی دردناک کہانی ہر اپاہج اور ڈس ایبل کے لیے رول ماڈل ہے ۔ منیبہ
مزاری نے انتہائی اذیت ناک کار حادثے کے بعد جس طریقے سے بیماری کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا اور عزم و ہمت کا پیکر بنی وہ کمال ہے ۔ کام یہیں ختم نہیں ہوا
بلکہ منیبہ نے کوہ ہمالیہ سے بلند ارادہ باندھا کر معذوروں کے لیے این جی
او بنائی، اینکر پرسن بنی اور بہترین موٹیوایشنل لیکچر دیتی ہیں۔ منیبہ
مزاری کے مطابق مسائل اور زندگی کے بکھیرے اتنے بڑے نہیں ہیں جتنا کہ ہم نے
اپنی سوچ پر ہار اور مایوسی کا بت سوار کر لیا ہے۔ مزاری کے مطابق اگر ایک
گلاس آدھا خالی ہے تو پریشان مت ہوں کیوں کہ باقی آدھابھی تو ہے جو بھر ا
ہے ،جو آپ کی قسمت وتقدیر بدلنے کے لیے کافی ہے۔ مرنے سے پہلے مت مریں کیوں
کہ بہت سے لوگ دنیا میں آپ کی زندگی جینا چاہتے ہیں اور آپ ناشکری میں
ناکامی کر رونا روتے رہتے ہیں۔آپ مکمل انسان تب بنتے ہیں جب کسی کے چہرے پر
مسکراہٹ لاتے ہیں۔آپ تب مکمل بنتے ہیں جب آپ کسی کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔
سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے کتنے معذور بوجھ بنتے ہیں اور کتنے لوگ زندگی کی
باز ی ہارتے ہیں۔کتنے لوگوں کوحق رائے دہی کا جائز حق نہیں ملتا اور کتنے
معذور افراد ہیں جنہیں مختلف مافیاز غیر اخلاقی پیشوں پر لگا کر دھاڑی
بناتے ہیں ۔ بغور جائز ہ لیں تو معلوم ہتا ہے کہ اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے
مخصوص نشستیں ہیں، خواتین کی بھی مخصوص نشستیں ہیں لیکن معذور افراد کے
نشست تو کجا ،بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے تک کوکوئی تیار نہیں۔واضح رہے
کہ معذوروں کا عالمی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو
منظور ہونے والی قرار داد نمبر47/3 کے تحت ہر سال3 دسمبر کو منایا جاتا
ہے۔1980 کی دہائی میں وفاقی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں قانون سازی کی گئی
جس کے تحت معذور افراد کی تربیت،فلاح اورروز گار کے مواقع فراہم کرنے کے
انتظامات کیے گئے،وفاق کی سطح پر اسپیشل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا قیام عمل میں
لایا گیا جس کا مقصد ملک بھر میں معذور افراد کی تعلیمی ضروریات کو پورا
کرنے کے لیے اداروں اور تربیتی مراکز کا قیام تھا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں مذکورہ قانون سازی کے باوجود اب بھی
معاشرے میں معذور افراد کے لیے مزید آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔محض
آگاہی کافی نہیں ہے۔ معذور افراد کے مطالبات یہ ہیں کہ ان کی عزت، حقوق (
صحت، تعلیم، کوٹہ، وہیل چیئر، میڈیکل ایڈ،میڈیسنز اور لمبز غیرہ)، رائے دہی
اور سماج میں پھلنے پھولنے کے مساوی مواقع دیے جائیں۔سوائے چند قوومی ادارو
ں کے کوئی بھی معذدورں کے دکھ درد نہیں رکھتا۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اور
فری ویل چیئر جیسے کچھ ادارے معذوروں کی فلاح وبہبود کے لیے انتھک محنت کر
رہے ہیں ۔ یاد رہے الخدمت فاؤنڈیشن آفات سے بچاؤ، صحت ، تعلیم، صاف پانی،
کفالت یتامی ، مائیکروفنافس اور سماجی خدمات کی بھی بھرپور سہولیات پاکستان
کے لاکھو ں کروڑوں باسیوں کو مہیا کررہے ہیں۔ہم معذور افراد کو معاشرے اور
سماج کا کارآمد شہری بنا سکتے ہیں اگر ہم تمام این جی اوز بشمول بڑے تعلیمی
ادارے مل کر یتیم بچوں کے پلیٹ فارم ’’پاکستان آرفن کیئر فارم‘‘ کی طرز پر
ایک فورم بنائیں جو ماہانہ بنیادوں پر کام کرے اور جہاں بھی ضرورت ہو
انفرادی کام کے بجائے ہر این جی او اپنے بجٹ کے مطابق معذور افراد کی مالی،
اخلاقی، تربیتی اور سماجی سپورٹ کرے۔مثلاپاکستان ڈس ایبل پرسن فورم ایک
کمیٹی بنائے جو اجتماعی حیثیت میں کام کریں ۔
اورادارہ برائے مردم شماری اور الیکشن کمیشن کی لسٹوں سے کنسلٹ کر کے نئی
لسٹیں مرتب کریں تاکہ معذور افراد کی کی بنیادی سہولیات اور سماجی شمولیت
پر بھرپور کام کیا جاسکے ۔ذہنی و جسمانی اور غرض ہر قسم کے معذور فرد کا
ڈیٹا اکٹھا ہو جائے اور ایک ایک کر کے قومی وصوبائی حلقوں ، ضلعوں ،
تحصیلوں اور یونین کونسلوں کی مدد سے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا
جائے اور ہر مہینے ان کی کارکردگی جانچنے کے لیے تعلیمی اداروں، گھروں اور
شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے معذور افراد کی رپورٹ لی جائے اور ان کی
سماجی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ کیوں کہ جب تک معذور افراد کا ڈیٹا نہیں
ہوگا، بنیادی ضروریات زندگی انہیں میسر نہیں ہوں گی اور ان کے مسائل کا
تدارک نہیں کیا جائے تو وہ کبھی بھی زندگی کے سماجی پہلوؤں پر کوئی خاص
توجہ نہیں دیں گے بلکہ شکم کی آگ بجھانے کے چکر میں لگا رہے گا۔
بہت سے سماجی پروگرامات کیے جاسکتے ہیں جن سے معذور افراد کی اخلاقی، پیشہ
وارانہ اور سماجی تربیت کے ذریعے ان کی پسند کے کھیل، مشغلے اور دلچسپیاں
کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔اگر تمام این جی اوز اور قومی و صوبائی حکومتیں مل
کر پارٹنر شپ کے طور پر کام کریں تو حکومتی خزانے پر بوجھ بھی کم پڑے گااور
معذور افراد کی دادرسی کے لیے مناسب بندوبست بھی ہوسکے گا۔اگر صرف ویل چیئر
کو ہی لے لیں تو کم از کم ہر جسمانی معذور فرد جس کو ویل چیئر ضرورت ہو اسے
مل سکتی ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا قیام
معذور افراد کے لیے عمل میں نہیں آتا، تب تک معذ ور افراد کو قومی دائرے
میں لانے کاخواب بے سود ہے ۔ |